جناب بلاول بھٹو زرداری صاحب،

یقیناً اس خط کی موصولی کے وقت آپ 2018ء کے عام انتخابات کی مہم میں انتہائی مصروف ہوں گے۔ کچھ دن پہلے انتخابی مہم کے سلسلے میں کی گئی آپ کی چند تقاریر سننے کو ملیں۔ آپ کو دیکھ کر بے نظیر بھٹو کی یاد تازہ ہوگئی اور بے اختیار نمی تیر آئی۔ 27 دسمبر کی وہ ظلمت بھری شام آنکھوں تلے ابھر آئی جب محترمہ کی شہادت کی دلدوز خبر نے پورے سندھ صوبے کو پرآشوب کرکے رکھ دیا تھا۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ یہ دکھ کسی ایک کا نہیں، بلکہ ہر ایک کا ہے۔

اس پرآشوب اوردلدوز شام کے بعد جس جوش اور ولولے سے 2007ء کے عام انتخابات میں جیالوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کو ووٹ دے کر فتح یاب کیا وہ کون بھول سکتا ہے۔ انتخابات کے نتائج نے 1988ء کی یاد تازہ کردی جب ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد ووٹ کی طاقت کو بھرپور طریقے سے استعمال کیا گیا اور 2007ء میں بھی ایسا ہی ہوا کیونکہ آپ کی والدہ کے نقشِ قدم پر چل کر ہم نے بھی یقین کرلیا تھا کہ ’ جمہوریت بہترین انتقام ہے‘۔

لیکن جب آپ کے والد محترم آصف علی زرداری صاحب نے 2007ء اور 2013ء میں بالترتیب وفاق میں اور سندھ میں حکومت تشکیل دی تو انہوں نے غالباً بی بی کے اس قول میں کچھ اس طرح ترمیم کردی کہ ’جمہوریت عوام سے بہترین انتقام ہے

بلاول کے نام خط میں مزید کیا باتیں کہیں گئی ہیں وہ یہاں پڑھیے

تبصرے (0) بند ہیں