لکھاری صحافی اور مصنف ہیں۔
لکھاری صحافی اور مصنف ہیں۔

انتخابات سے قبل تک کا مرحلہ جن بھی تنازعات میں گھرا رہا، اس کے باوجود ہمارا ملک مسلسل دوسری جمہوری حکومت کی منتقلی حاصل کرنے جا رہا ہے۔

مسائل موجود ہوں گے مگر پھر بھی ووٹ معنی رکھتے ہیں۔ لوگ ان انتخابات میں اپنا فیصلہ دیں گے جنہیں ملکی سیاست کی راہ متعین کرنے کے حوالے سے نہایت اہم قرار دیا جا رہا ہے۔ نتائج ابھی بھی ناقابلِ پیشگوئی ہیں۔

اگر رائے شماری کے سرویز پر یقین کیا جائے تو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) مقابلے میں آگے نظر آتی ہے مگر یہ آخری وقت میں بھی تبدیل ہوسکتا ہے اور مسلم لیگ (ن) پی ٹی آئی کے قریب بھی آسکتی ہے۔ نتیجہ چاہے جو بھی ہو، ایک بات تو تقریباً یقینی ہے: کوئی بھی جماعت اگلی حکومت بنانے کے لیے یقینی اکثریت حاصل نہیں کر پائے گی۔ اسلام آباد کی جنگ کا فیصلہ صرف انتخابات میں نہیں ہوگا، چنانچہ چھوٹی سیاسی جماعتوں کی بھی سنی جائے گی۔ چنانچہ سب سے زیادہ امکان ہے کہ اچھے یا برے کے لیے ایک بار پھر اتحادی حکومت کا دور ہوگا۔

مگر ایک سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ آیا یہ انتخابات وہ سیاسی استحکام لائیں گے جو کہ وقت کی ضرورت ہے؟ ملک میں شدید سیاسی قطبیت اور مختلف ریاستی اداروں کے درمیان طاقت کے بڑھتے ہوئے عدم توازن کو دیکھتے ہوئے نئی منتخب حکومت کے لیے چیلنجز نہایت شدید ہوں گے۔ گرتی ہوئی معیشت اور کئی بیرونی مسائل نے معاملات کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔

'وزیرِ اعظم' عمران خان کے لیے کون سے چیلنجز منتظر ہیں؟

سب سے اہم بات یہ ہے کہ انتخابات کو قابلِ اعتبار نظر آنا چاہیے اور نتائج کو تمام سیاسی جماعتوں اور ریاستی اداروں کو تسلیم کرنا چاہیے۔ انتخابات سے قبل سیاسی انجینیئرنگ کے بے تحاشہ الزامات نے پہلے ہی بددلی پیدا کر دی ہے۔ مگر نتائج سے کھیلنے کی کوئی بھی کوشش پورے جمہوری سیاسی نظام پر سوالات کھڑے کر کے مزید سیاسی عدم استحکام پیدا کر سکتی ہے۔ جس حکومت کا جواز ہی مشتبہ ہو، اس کے لیے داخلی و خارجہ چیلنجز سے نمٹنا نہایت مشکل ہوگا۔

جمہوری نظام کی ساکھ بحال کرنے اور منتخب اداروں کو مضبوط کرنے کے لیے بڑی سیاسی قوتوں کے درمیان وسیع تر اتفاقِ رائے کی ضرورت ہوگی۔ اقتدار کی ایک قابلِ اعتبار جمہوری منتقلی قومی مفاہمت کے ایک نئے موقع کے لیے راہ ہموار کر سکتی ہے۔ اب ملک میں سیاسی عدم استحکام کی سب سے بڑی وجہ یعنی ریاستی اداروں کے درمیان تنازعات ختم کرنے کے لیے یقینی طور پر ایک نئے سماجی معاہدے کی ضرورت ہے۔

یہ بات یقینی ہے کہ جمہوری نظام طاقت کے موجودہ عدم توازن کے ہوتے ہوئے باقی نہیں رہ سکتا۔ مگر منتخب اداروں کی بالادستی کا تعلق قانون کی حکمرانی سے بھی ہے۔ امید ہے کہ نو منتخب قانون ساز اور حکومتیں ماضی کی ان غلطیوں سے سیکھیں گے جن کی وجہ سے غیر منتخب اداروں کو مزید جگہ ملی ہے۔ انتقامی سیاست کو انتخابات کے بعد ختم ہونا چاہیے اور اہم قومی معاملات پر وسیع تر اتفاقِ رائے پیدا ہونا چاہیے۔ یہ یقینی ہے کہ سول ملٹری تنازعہ حل کرنے کی ضرورت ہے مگر تمام مسائل کو اسی دوئی کی عینک سے دیکھنا بھی غلط ہے۔

اب یہ بات واضح ہے کہ معیشت نئی حکومت کے لیے سب سے پریشان کن مسئلہ ہوگا۔ بدقسمتی سے انتخابی مہم کے دوران اس سب سے اہم مسئلے پر بیان بازی کے علاوہ زیادہ اہمیت نہیں دی گئی ہے۔ یہ تشویش ناک ہے کہ ملک میں زرِ مبادلہ کے ذخائر گرتے جا رہے ہیں اور رواں کھاتوں کا خسارہ بڑھتا جا رہا ہے، اور یہ لگتا ہے کہ نئی انتظامیہ کے پاس آئی ایم ایف کا بیل آؤٹ حاصل کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہوگا۔

اس کا مطلب اپنی کمر کسنا ہے۔ سابقہ حکومت ان اہم اصلاحات کے نفاذ میں ناکام رہی جن کی پائیدار معاشی ترقی کے لیے ضرورت تھی۔ یہ سچ ہے کہ معاشی شرح نمو نسبتاً بلند رہی، مگر داخلی اور خارجی قرضوں کے بڑھتے ہوئے بوجھ نے معاشی مسائل کو دوہرا کر دیا ہے۔ گردشی قرضے میں بھی اضافہ ہوا ہے جس سے توانائی کے بحران میں شدت پیدا ہوئی ہے۔

نئی انتظامیہ کو اس سنگین مالیاتی بحران سے نمٹنے کے لیے چند سخت اصلاحات بھی نافذ کرنی ہوں گی۔ مگر اس کے لیے اسے اپوزیشن جماعتوں اور دیگر ریاستی اداروں کی مدد بھی درکار ہوگی۔ ایک نئے قومی معاشی چارٹر کی ضرورت ہے تاکہ بدتر ہوتے ہوئے معاشی بحران پر قابو پایا جا سکے جو ہماری قومی سلامتی کے لیے بھی خطرہ بنا ہوا ہے۔

دہشت گردی اور مذہبی انتہاپسندی ایک اور سنگین مسئلہ ہے جس پر پارلیمانی اتفاقِ رائے کی ضرورت ہے۔ سچ ہے کہ قبائلی علاقوں میں فوج کے کامیاب آپریشن کی وجہ سے عسکریت پسند تشدد کی سطح میں کمی آئی ہے مگر حالیہ حملوں سے معلوم ہوتا ہے کہ دہشتگردی کا خطرہ ابھی بھی ختم ہونے سے کوسوں دور ہے۔ عسکریت پسند گروہ دولتِ اسلامیہ کی بڑھتی ہوئی سرگرمی سنگین تشویش کا سبب ہونی چاہیئں۔

سیاسی موقع پرستی نے بھی بنیاد پرست عناصر کو مزید مضبوط کیا ہے اور یہ ہم نئے اور زیادہ انتہاپسند گروہوں کے ابھرنے کی صورت میں دیکھ رہے ہیں جنہیں انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دی گئی ہے۔ اسی طرح کالعدم تنظیمیں بھی نئے بینروں کے تحت کام کر رہی ہیں جنہیں بظاہر قانون اور نیشنل ایکشن پلان کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جواز فراہم کردیا گیا ہے۔

چند عسکریت پسند گروہوں کو مرکزی دھارے میں لانے پر بین الاقوامی سطح پر تنقید بھی ہوئی ہے۔ ایک کالعدم گروہ سے تعلق رکھنے والے کم از کم امیدوار اقوامِ متحدہ کی ٹیرر لسٹ پر ہیں۔ یہ مسئلہ پاکستان کے ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں آنے سے مزید سنگین ہو چکا ہے۔ تشویش یہ ہے کہ اگر ایکشن نہ لیا گیا تو پاکستان کو بلیک لسٹ میں ڈالے جانے کا بھی خطرہ ہے۔

پاکستان میں انتخابات کا المیہ

اس طرح کی صورتحال پاکستان کی بین الاقوامی تنہائی بڑھا سکتی ہے جس سے ہمارے معاشی مسائل میں اضافہ ہوجائے گا۔ کیا ہم اس کے متحمل ہوسکتے ہیں؟ زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ کچھ سیاسی جماعتوں میں ان انتہاپسند گروہوں کے لیے نرم گوشہ پایا جاتا ہے اور وہ ہمارے کچھ قریب ترین اتحادی ممالک سمیت بین الاقوامی برادری کے خدشات کو نظرانداز کر رہے ہیں۔ یہ وقت ہے کہ ہمارے قانون ساز معاملے کی گہرائی کو پہچانیں۔

خارجی چیلنجز بھی تمام اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے طے پانے والی ایک واضح پالیسی کے طلبگار ہیں۔ تیزی سے بڑھتی ہوئی خطے کی سیاست نے پاکستان کے خارجہ پالیسی مسائل میں جہاں اضافہ کیا ہے، تو وہیں نئے مواقع بھی پیدا کیے ہیں۔

امریکا کے ساتھ بڑھتی ہوئی دوریاں، افغانستان میں جاری جنگ، ہندوستان کے ساتھ تناؤ، اور چین کے ساتھ تعلقات نئی حکومت کے سامنے موجود بڑے خارجہ پالیسی مسائل ہوں گے۔

11 ستمبر کے بعد ہمارا جو اتحاد قائم ہوا تھا اب وہ اپنی مدت پوری کرچکا ہے۔ ہمیں اپنے مفادات پر واضح مؤقف رکھنا ہوگا مگر امریکا کے ساتھ مکمل قطع تعلق بھی کوئی آپشن نہیں ہے۔

شاید نئی حکومت کے لیے سب سے بڑا خارجہ پالیسی کا چیلنج نئی دہلی کے ساتھ تعلقات معمول پر لانا اور بیجنگ کے ساتھ کاروبار کا انتظام و انصرام ہوگا۔

پاکستان اس وقت خارجہ پالیسی کے پیچیدہ مسائل میں گھرا ہوا ہے اور ایک بار جب نئی حکومت آئے گی، تو خارجہ تعلقات کو سنبھالنا اس کے سب سے بڑے چیلنجز میں سے ہوگا۔

اس لیے قومی اتفاقِ رائے کی ضرورت ہوگی۔

انگلش میں پڑھیں۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 25 جولائی 2018 کو شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں