لکھاری ڈان اخبار کے سابق ایڈیٹر ہیں۔
لکھاری ڈان اخبار کے سابق ایڈیٹر ہیں۔

پاکستان کے نئے وزیرِ اعظم عمران خان آج حلف لے رہے ہیں اور ان کا ہنی مون کا دور بہت ہی مختصر ہوگا کیوں کہ ان کی فوری توجہ چاہنے والے کئی مسائل سر اٹھانا شروع ہو گئے ہیں۔

پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں اس حوالے سے لاتعداد بحثیں ہوئی ہیں کہ ملک کی معیشت کے ساتھ مسئلہ کیا ہے اور یہ کہ نئی حکومت کو کس طرح اس میدان میں موجود گوناگوں مسائل کو حل کرنے کے لیے سخت محنت کرنی ہوگی۔

دیگر اہم مسائل بھی ہیں جنہیں کم توجہ ملی ہے۔ اس میں سے ایک اسلامی جمہوریہ میں جمہوریت کی حالت ہے، خاص طور پر قبل از انتخابات انجینیئرنگ کے الزامات اور پھر انتخابات کے دن انتخابات پر اثرانداز ہونے کے الزامات بھی ہیں جن سے کچھ کو جیت سے محروم رکھا گیا تو کچھ کی جیت میں آسانیاں پیدا کی گئیں۔

نومنتخب حکومتوں سے عوام کی امیدیں بلند ہیں اور اپوزیشن اس مطالبے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی کہ ایسی انتظامیہ کو بلند ترین بین الاقوامی معیارات پر پورا اترنا چاہیے۔

مگر جیسے ہی ان اپوزیشن طاقتوں کو حکومت کا موقع ملے تو یہ جمہوری نظام اور رویوں کے ایک یا دوسرے پہلوؤں پر اپنے مؤقف گرگٹ کی طرح ایسے بدل لیتے ہیں کہ انہیں پہچاننا مشکل ہوجاتا ہے۔

پڑھیے: عمران خان نے وزیراعظم پاکستان کا عہدہ سنبھال لیا

عمران خان کہتے ہیں کہ وہ مختلف ہیں، بدعنوانی کے داغ سے پاک اور نظام میں اصلاحات لانے کے لیے پرعزم تاکہ حکومت کا ہر شعبہ عوام کی خدمت کرے، نہ کہ اپنے سیاسی آقاؤں کی خوشنودی کے لیے کام کرے۔

اپنے بعد از انتخابات خطاب میں زیادہ تر لوگوں نے اتفاق کیا کہ وہ اپوزیشن کی جانب سمجھوتے کا ہاتھ بڑھاتے ہوئے ایک قابلِ قدر سیاستدان محسوس ہوئے جس میں انہوں نے اپوزیشن کی جانب سے متنازع قرار دیے گئے کسی بھی حلقے انتخابی نتائج اور بیلٹس کی فارینسک تحقیقات میں بخوشی سہولت فراہم کرنے کا اعلان کیا تھا۔

ابھی یہ الفاظ ان کے منہ سے نکلے ہی تھے، اور ان کے حامیوں اور ناقدین کی جانب سے تعریفیں تھمی بھی نہیں تھیں کہ عمران خان کے وکیل کی جانب سے عدالت میں مسلم لیگ (ن) کے رہنما سعد رفیق کی جانب سے اس حلقے میں دوبارہ گنتی کی شدید مخالفت کی گئی جہاں پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے سربراہ کو سعد رفیق پر کُل 1 لاکھ 70 ہزار ووٹوں میں 3 ہندسوں سے برتری حاصل تھی۔

امید ہے کہ یہ فیصلہ آنے والی چیزوں کے خدوخال کا اشارہ نہیں، اور یہ کہ نئے وزیرِ اعظم اپنے وعدے پر پورا اتریں گے۔ یہ ان کے پاس بعد از انتخابات پھیلنے والی ان تلخیوں سے نکلنے کا واحد راستہ ہوگا جنہوں نے سیاسی عدم استحکام کے بیج بوئے، اور پارلیمنٹ کی پوری 5 سالہ مدت اور حکومت کے دورِ اقتدار پر شک کے سائے پھیلا دیے ہیں۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ عوام کی ایک بڑی تعداد عمران خان کی حمایت کرتی ہے اور ان سے عقیدت رکھتی ہے۔ ان کے لیے چیلنج یہ ہے کہ وہ اپنے مخالفین کے درمیان اپنے لیے جگہ بنائیں، خاص طور پر میڈیا میں، اور انہیں اپنے اقدامات سے قائل کریں کہ وہ آزادیءِ اظہار کے لیے پرعزم ہیں۔

ایک آزاد میڈیا شاید وہ واحد گارنٹی ہے کہ پہلی دفعہ وزیرِ اعظم بننے والے عمران خان سڑکوں پر موجود جذبات سے آگاہ رہیں گے۔ یہ اس ملک کے لیے اہم ہے جو اب بھی دہشتگردی سے جنگ لڑ رہا ہے۔

مزید پڑھیے: عمران خان : اسکول سے وزارتِ عظمیٰ تک کا سفر

جب وہ دفتر میں پہنچیں گے تو انہیں اپنی ذاتی سلامتی کی اہمیت یاد دلائی جائے گی۔ اس سے نا چاہتے ہوئے بھی وہ اقدامات اٹھائے جائیں گے جس سے ملک کے سربراہ سے عوام کا وہ تعلق ٹوٹ جائے گا جو کہ بحیثیت اپوزیشن رہنما ان کا عوام سے تھا۔ ایک آزاد میڈیا انہیں مستقبل کے کسی بھی حصے میں عوام کے اہم ترین مسائل سے مکمل طور پر آگاہ رکھے گا۔

پی ٹی آئی پاکستان کی پہلی سیاسی جماعت تھی جس نے سوشل میڈیا کو مؤثر انداز میں استعمال کر کے نوجوان نسل، نئے ووٹروں کو متحرک کیا۔ مگر ایسا کرنے میں انہوں نے شاید نہ چاہتے ہوئے یا شاید منصوبہ بندی کے تحت اپنے مڈل کلاس، نوجوان حامیوں کو ٹوئٹر پر اپنی بھڑاس اور تلخیاں انڈیلنے کی اجازت دے دی ہے۔

جہاں عمران خان نے اپنے سیاسی مخالفین کو 'چور، ڈاکو' کے القابات دے کر مہم چلائی، وہاں ان کے نعروں نے نہ صرف اپنے حامیوں میں پذیرائی حاصل کی بلکہ اپنے حامیوں کی تعداد میں اضافہ بھی کیا۔ مگر ان کے کئی حامیوں نے اسے کسی بھی اس شخص پر بے دریغ حملے کرنے کی تحریک سمجھ لیا جو کہ پی ٹی آئی کے مؤقف سے ذرا بھی مختلف مؤقف رکھتا۔

چنانچہ کئی صحافی اور تجزیہ نگار جو کہ بدعنوانی اور بدانتظامی سے نفرت کرتے ہیں، اور عمران خان کے نعرے ان کے مؤقف سے ہم آہنگ ہوتے، انہیں پی ٹی آئی کے حامیوں کی جانب سے اس لیے الگ تھلگ کر دیا گیا کیوں کہ وہ سویلین بالادستی کے اصول کو سب سے بلند رکھتے تھے۔ پارٹی کو اب اقتدار میں آنے کے بعد اپنی سوشل میڈیا حکمتِ عملی پر دوبارہ غور کرنا ہوگا۔

چاہے عمران خان صرف اور صرف عوامی حمایت کے بل بوتے پر حکومت میں آئے، یا پھر انہیں انتخابی حمایت کے ساتھ ساتھ 'انجینیئرنگ' کی مدد بھی حاصل تھی، اس سے قطع نظر اب وہ وزیرِ اعظم پاکستان ہیں۔ ان کے دفتر کی نوعیت ایسی ہے کہ کسی نہ کسی موقع پر وہ ان انتہائی طاقتور قوتوں کے پیروں پر قدم رکھیں گے جنہوں نے اب تک ان کی حمایت کی ہے۔

اس صورتحال میں انہیں سمجھ آ جائے گی کہ وہ بیانیہ جو انہیں دفتر میں لایا ہے، وہ انہیں اقتدار میں باقی رکھنے کے لیے شاید کافی نہ ہو۔ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ وہ صاف اور مؤثر حکمرانی کے لیے پرعزم ہیں۔ اگر وہ عوام سے اپنے اس وعدے کو پورا کر دیں تو ان کی پتنگ اڑتی رہے گی۔

اسی دوران انہیں اپنے اس منصوبے کی تکمیل کے لیے جمہوری اتفاقِ رائے پیدا کرنا ہوگا جس کے لیے اپوزیشن اور ایک سرگرم میڈیا کو اپنے ساتھ شامل کرنا ضروری ہوگا۔ ایسا اتفاقِ رائے صرف جمہوری نظام کے اصولوں پر مبنی ہونا چاہیے جس سے ہر سیاسی جماعت اپنے اپنے منشور پر عملدرآمد کے لیے آزاد ہوگی۔

ویڈیو دیکھیے: عمران خان کی تقریبِ حلف برداری

عمران خان کی نیت اور ارادے شاید اچھے ہوں۔ مجھے فی الوقت کسی کو اس راستے کی یاد دلانے کی ضرورت نہیں جو کہ اچھے ارادوں سے بنا ہوا ہے۔ انہیں اب اپنے اقدامات سے ثابت کرنا ہوگا کہ وہ اپنے عزم میں پختہ ہیں۔

اس کا ایک طریقہ میڈیا کو دبانے کی تمام کوششوں کے خاتمے کا حکم ہوگا، کیوں کہ ان اقدامات کی وجہ سے پاکستان میں جمہوری نظام کی صحت پر ملک اور بیرونِ ملک سنگین تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

یہ حکومت کے آغاز کے لیے ایک بہترین قدم ہوگا، اور اس کا فائدہ یہ بھی ہوگا کہ جو امید ابھی تک صرف ان کے حامیوں میں موجود ہے، وہ عوام کے دیگر حصوں میں بھی اپنی جگہ بنائے گی۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 18 اگست 2018 کو شائع ہوا۔

انگلش میں پڑھیں۔

تبصرے (0) بند ہیں