ایوانِ صدر خلافِ توقع بڑا پرسکون تھا۔ مسلّح افواج کے تمام بڑے سربراہان، عرب اور مغربی دنیا کے اہم سفارتکار اور تحریکِ انصاف کے تقریباً تمام ہی بڑے رہنما موجود تھے۔ وہاں کم و بیش 800 کا تو مجمع ہوگا لیکن اس کے باوجود اتنی خاموشی تھی کہ اگر مکھیاں ہوتیں تو اُن کی آوازیں بھی بھاری پڑجاتیں۔

میں نے اسی ایوانِ صدر میں پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کو صدارتی منصب سنبھالتے دیکھا تھا۔ صدر زرداری نے ابھی دستخط کے لیے قلم بھی نہ سنبھالا تھا کہ جیالوں نے ’جئے بھٹو‘، ’جئے بے نظیر‘ کے نعروں سے آسمان سر پر اٹھا لیا تھا۔

پھر 2013ء میں ’شیر شیر‘ کے بلند و بانگ نعروں میں میاں نواز شریف کو تیسری بار وزارتِ اعظمیٰ کے عہدے پر فائز ہوتے دیکھا۔ تاہم 18 اگست کو ایوانِ صدر کا وسیع اور عریض پُرشکوہ بینکویٹ میں سارا منظر نامہ بدلا ہوا تھا۔

محترم ممنون حسین صدرِ مملکت ہوتے ہوئے بھی اکیلے اُداس بالجبر اپنے فرائض انجام دے رہے تھے۔ ساری نظریں اُس مین گیٹ پر تھیں جہاں سے ممنون حسین اور نگران وزیرِ اعظم کے ہمراہ نومنتخب وزیرِ اعظم عمران خان کو ہال میں آنا تھی۔

پڑھیے: ماضی کی یادوں سے خان صاحب کے حلف لینے تک کی داستان

رسمی تقریب سے پہلے کے اس انتہائی پرتجسّس ماحول میں کم از کم 2 ایسی شخصیات تھیں جن کی ایک ایک جنبش پر ایوان میں بیٹھے خواتین و حضرات کی نظریں تھیں: خاتونِ اول بشریٰ بی بی اور آرمی چیف جنرل قمر باجوہ۔ خاتونِ اول بڑے پروقار حجابی لباس میں آس پاس بیٹھی خواتین سے سرگوشیوں سے سلام لے رہی تھیں۔

جبکہ آرمی چیف جنرل قمر باجوہ بڑے بے تکلافانہ انداز میں اسٹیج کے سامنے وردیوں کے گھیرے میں ملاقاتوں میں مصروف تھے۔ بھارت سے آئے ہوئے نوجوت سنگھ سدھو سے اُن کے بے تکلافہ معانقہ کو بڑی دلچسپی سے دیکھا گیا۔

وزیرِ اعظم عمران خان کے متوقع کابینہ کے اراکین ایک قطار میں بیٹھے تھے۔ ایک سرے پر شیخ رشید غیرمعمولی طور پر سنجیدہ تو دوسرے سرے پر جہانگیر ترین خاموش اپنے آپ میں گُم۔

پرویز خٹک، شاہ محمود قریشی، شیریں مزاری، عارف علوی، غلام سرور خان، اسد عمر، شفقت محمود، فہمیدہ مرزا، زبیدہ جلال اور ڈاکٹر بابر اعوان دوسرے صف میں تھے جن کی بے چینی دیدنی تھی۔

تحریکِ انصاف کی مرکزی قیادت سے ہٹ کر سب سے زیادہ توجہ کا مرکز چوہدری پرویز الہٰی کی تھی جنہوں نے شریفوں سے تختِ لاہور چھیننے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ حزبِ اختلاف کے کسی ایک فرد کا بھی نہ ہونا ’خبر‘ تو تھی مگر حیرت ناک نہیں۔

پڑھیے: امید کا انفیکشن کیسے پھیلایا جائے؟

ٹھیک 10 بج کر 10 منٹ پر صدر ممنون حسین، نگران وزیر اعظم جسٹس (ر) ناصر الملک اور وزیراعظم عمران خان خلافِ معمول کالی شیروانی پہنے ہال میں تشریف لائے۔ تلاوتِ کلام پاک کے بعد حلف لینے کی تقریب کا کُل دورانیہ 5 منٹ کا تھا۔

2008ء اور 2013ء کے حلف کا متن میرے ذہن میں محفوظ ہے۔ میں نے نوٹ کیا کہ اس بار حلف میں چند مشکل الفاظ کا اضافہ کیا گیا تھا۔ ان مشکل الفاظ نے کئی بار عمران خان کی اردو دانی کا ایسا امتحان لیا کہ سارے ایوان کے چہرے پر مسکراہٹ آ گئی۔ تالیاں بڑی زور دار بجیں مگر ہاں 2008ء اور 2013 کی طرح ایک بھی نعرے کا نہ لگنا اس بات کا ثبوت تھا کہ کپتان اپنے کھلاڑیوں کو پہلے ہی ہدایت کرچکے تھے کہ وہ جوش جذبے میں آ کر انہیں شرمندگی کا موقع نہیں دیں گے۔

وزارتِ عظمیٰ کا حلف اٹھانے کے بعد صدر ممنون سے ہاتھ نہ ملانا بھی نوٹ کیا گیا۔ صدر ممنون حسین جب ہال سے جانے لگے تو مجھے فیضؔ صاحب کا مشہورِ زمانہ شعر سامنے آ گیا۔

دونوں جہاں تیری محبت میں ہار کے

وہ جا رہا ہے کوئی شب غم گزار کے

تبصرے (1) بند ہیں

Malik USA Aug 20, 2018 08:46pm
Very happy to read your analysis. After reading your article now as viewer I can realize that PTI has started his AGHAAZ in a very good manner.