یہ سال 2000ء کے قریب کی بات ہے جب محترمہ بے نظیر بھٹو کا زیادہ قیام دبئی میں ہوا کرتا تھا تاکہ پاکستان میں ہونے والی سیاست کے اتار چڑھاؤ پر قریب سے نظر رکھی جائے۔ انہی دنوں میرا دبئی جانا ہوا اور پہلی کال پر ہی ملاقات کے لیے وقت مل گیا۔

محترمہ کا ڈرائینگ روم پاکستان سے آئے ہوئے پارٹی رہنماؤں سے بھرا ہوا تھا۔ ماضی اور مستقبل کے حوالے سے تبصروں اور تجزیوں کا سلسلہ جاری تھا۔ بات پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی ماضی کی حکومت پر گئی تو میں نے محتاط الفاظ میں شکوہ کیا کہ ‘آپ نے اہم عہدوں پر میرٹ اور اہلیت کے مطابق لوگ نہیں لگائے’۔ اپنی بات پر مزید وزن ڈالنے کے لیے ایک اردو کے کالم نویس کا حوالہ دیا جسے سرکاری نیوز ایجنسی APP کا سربراہ بنا دیا گیا تھا۔

بی بی نے اپنے مخصوص FIRM انداز میں کہا کہ ‘وہ ہمارا آدمی تھا اس لیے لگایا’۔ میں نے مزید جسارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی کہ ملک کی واحد سرکاری انگریزی زبان کی نیوز ایجنسی کا سربراہ ایک ایسے صحافی کو لگا دیا جائے جس کا انگریزی صحافت سے کوئی تعلق ہی نہ ہو، آپ کا آدمی تھا تو وزیرِاعظم ہاؤس میں 21 یا 22 گریڈ میں اپنے میڈیا سیل میں رکھ لیتیں۔

مزید پڑھیے: ماضی کی یادوں سے خان صاحب کے حلف لینے تک کی داستان

یقیناً انہیں یہ بات ناگوار ہی گزری ہوگی، مگر اس دوران اچھا یہ ہوا کہ چائے لوازمات کے ساتھ آگئی اور گفتگو کا رخ گرما گرم سموسوں پر چلا گیا۔ لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ ہمیشہ سے ہی وطن عزیز میں حکمرانوں کی پہلی ترجیح میرٹ اور اہلیت کے بجائے LOYALTY یعنی وفاداری ہوتی ہے۔

نواز شریف اور بے نظیر بھٹو صاحبہ کی حکومتیں تو خیر سے بار بار آزمائی ہوئی ہیں مگر تحریک انصاف کے چئیرمین اور وزیرِاعظم عمران خان سے تو عوام کی بے پناہ امیدیں وابستہ ہیں، اور اس کی وجہ ذاتی پسند و ناپسندیدگی کا عنصر نہیں بلکہ ماضی کے حکمرانوں کے برخلاف اُن کا موقف ہے جس میں میرٹ کی ترویج اہم ترین پہلووں میں شامل ہے، جیسا کہ اقتدار میں آنے سے پہلے وہ دعویٰ کرتے بھی تھے، مگر بدقسمتی سے ابتدائی 10 دنوں میں اُن کے جو بیشتر فیصلے سامنے آئے ہیں (میں نے سارے لکھنے سے گریذ کیا ہے) اُس سے لگتا ہے کہ خان صاحب 70 سال میں اس سسٹم میں لگے ‘کینسر’ سے چھٹکارا حاصل نہیں کرسکے کہ سندھ جیسے حساس اور بحران زدہ صوبے کا گورنر محترم عمران اسماعیل کو لگانا وفاداری کے زمرے میں ہی آئے گا۔

میں یہاں ‘میٹرک پاس’ کی پھبنتی نہیں کسوں گا کہ سیاست میں تعلیمی ڈگری اہم نہیں ہوتی۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ عمران اسماعیل نے اپنی جماعت اور قائد کے لیے گزشتہ 2 دہائی میں بڑی جدوجہد اور قربانیاں دیں، اور ان قربانیوں کے عوض یقیناً اُن کا یہ جائز حق بنتا تھا کہ میرے دوست نعیم الحق کی طرح معاون خصوصی لگا دیا جاتا۔

مزید پڑھیے: عمران خان کی تقریبِِ حلف برداری کا آنکھوں دیکھا حال

مگر یوں نوازنے کے لیے سندھ کا گورنر لگادیا جانا شاید کوئی اچھا عمل نہیں۔ سندھ صوبے کی بدقسمتیوں میں سے ایک یہ بھی رہی کہ یہ گزشتہ 5 دہائی سے اُن جماعتوں کے ہاتھوں یرغمال رہا ہے جنہوں نے اسے چاروں ہاتھ پیروں سے لوٹا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہاں جو بھی صوبے کا سربراہ بنا چاہے وہ گورنر ہو یا وزیر اعلیٰ، اُس کی حیثیت ہمیشہ ‘مہرے یا کٹھ پتلی’ جیسی ہی رہی ہے۔

1970ء میں پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت بنی تو انہوں نے اپنی پہلی نشری تقریر میں سندھ کے عوام کو نوید دی کہ انہوں نے اپنے ٹیلنٹڈ کزن کو صوبے کا گورنر لگایا ہے۔ سردار ممتاز علی بھٹو محض بھٹو صاحب کے کزن سے زیادہ بھی صلاحیتوں اور خوبیوں کے حامل تھے، مگر یہ ٹیلنٹڈ کزن ہی تھے جو فخریہ خود کو ڈھیسر سندھ (سندھ کا بہادر) کہلاتے تھے۔

گورنر تو وہ ایک مختصر عرصے کے لیے رہے مگر سندھ کی وزارت اعلیٰ ایک طویل عرصے تک اُن کے پاس رہی اور پھر اسی دور میں پہلی بار ‘زبان’ کے مسئلے پر ایسے خوں ریز فسادات ہوئے کہ جس کی کوکھ سے مہاجر اور پھر آگے چل کر متحدہ قومی موومنٹ نے جنم لیا۔

ردِعمل کے نتیجے میں لسانی بنیاد پر قائم ہونے والی اس جماعت نے اپنی ہی قوم پر کیسے کیسے مظالم ڈھائے یہ ایک الگ موضوع ہے۔ بیگم رعنا لیاقت علی خان، نواب آف جونا گڑھ، دلاور خانجی اور پھر غالباً ساری دنیا ہی میں ریکارڈ مدت تک گورنر رہنے والے ڈاکٹر عشرت العباد میں ‘وفاداری’ کے علاوہ کیا خوبیاں تھیں اسے مورخ کے لیے چھوڑ دیتا ہوں۔

صوبے کی وزارت اعلیٰ کا احوال بھی زیادہ مختلف نہیں۔ کیا عبداللہ شاہ اور کیا قائم علی شاہ، مگر ہاں ابھی مراد علی شاہ کے لیے یہ کہتے ہوئے قلم جھجکتا ہے۔

مزید پڑھیے: کیا عمران خان بھٹو بن سکتے ہیں؟

بہرحال نئے پاکستان کے پرانے سندھ میں نئے گورنر عمران اسماعیل کو اپنی طویل وفاداری کا صلہ تو مل گیا، مگر کیا سندھ کی قسمت میں یہی لکھ دیا گیا ہے کہ صوبے کے اعلیٰ ترین میناروں پر بیٹھنے والے کی سب سے بڑی خوبی یہ ہو کہ وہ اپنی پارٹی کے قائد کا وفادار ہے۔

ہاں چلتے چلتے یاد آیا کہ عمران اسماعیل میں کم از کم ایک خوبی ایسی ضرور ہے کہ جس کا اعتراف نہ کرنا زیادتی ہوگی کہ وہ گاتے بہت اچھا ہیں خاص طور پر پارٹی کا یہ ترانہ

تبدیلی آئی ہے، تبدیلی آئی ہے

ضرور پڑھیں

تبصرے (2) بند ہیں

ملک اسماعیل بابو Aug 31, 2018 06:36pm
good sir
محمد شاھد Aug 31, 2018 06:55pm
مجاھد صاحب، خان فقط عمران خان ھی بن جائے تو بہت بڑی کامیابی ھو گی، آپ اس سے بھٹو بننے کی امید لگائے بیٹھے ھیں ، اسکے لیئے تو قربان ھونا پڑے گا،جو کم از کم عمران کیلئے بہت مشکل ھے ، آپ تو چڑھتے ھوئے سورج سے گھٹا مانگ رھے ھیں ۔ خان صاحب کنفیوژن سے ویژن کا سفر طے کر لیں تو بار بار یو ٹرن اور ھزیمت سےسے بچ جائیں ۔ بھٹو کو جن لوگوں نے دار پر لٹکایا عمران انکے کندھوں ٓپر سوار ھو کر آیا ھے، ابھی تو خان صاحب کا ان لوگوں کیساتھ ھنی مون چل رھا ھے، ابھی معشوق کی ھر بات بھلی لگتی ھے، جب خماری اترے گی تو پھر دستار اچھالی جائیں گی، پھر ھم دیکھیں گے، لازم ھے کہ ھم دیکھیں گے ۔