لکھاری صحافی ہیں۔
لکھاری صحافی ہیں۔

کراچی کے علاقے گلشنِ معمار میں پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیبر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ (پائلر) کا دفتر ہے۔ اس دفتر کے باغیچے میں ایک دیوار ہے جو 258 اینٹوں سے تیار کی گئی ہے۔ ہر اینٹ پر ایک نام کندہ ہے: شاہ نواز، غلام رسول، نسرین حافظ اللہ اور کئی دیگر نام ان افراد کے ہیں جنہوں نے 11 ستمبر 2012ء کو بلدیہ کی ایک فیکٹری میں لگنے والی آتشزدگی میں اپنی جان گنوائی تھی۔

ان میں سے ایک نام اعجاز احمد کا بھی ہے جو سعیدہ خاتون کا اکلوتا بیٹا تھا۔ سعیدہ خاتون سانحہ بلدیہ کے متاثرہ خاندانوں کی انصاف کے لیے جدوجہد کا چہرہ ہیں۔ سعیدہ اس وقت بیوہ ہوگئی تھیں جب ان کا بیٹا صرف 2 سال کا تھا۔ 'مدر بلدیہ' کے نام سے مشہور سعیدہ اور اعجاز ایک دوسرے کا سہارا تھے۔ جب وہ بڑا ہوا اور کمانے میں اپنی والدہ کی مدد کرنے کے قابل ہوا تو اعجاز نے بلدیہ میں علی انٹرپرائزز کی گارمنٹ فیکٹری میں کپڑا کٹائی کے شعبے میں ملازمت اختیار کرلی۔ تکنیکی طور پر تو یہ فیکٹری اپنا وجود ہی نہیں رکھتی تھی کیونکہ یہ ڈائریکٹوریٹ آف لیبر کے ساتھ رجسٹرڈ نہیں تھی۔

مزید پڑھیے: الوداع سال 2018: لیکن یہ وقت گزرنے کا احساس کیسے ہوتا ہے؟

اور چونکہ یہ قانون کی نظر میں وجود نہیں رکھتی تھی اس لیے اس پر قانون کا اطلاق بھی نہیں ہوتا تھا۔ چنانچہ آگ سے بچاؤ اور کارکنوں کی حفاظت کے ضوابط کا بھی اطلاق نہیں ہوتا تھا اور باقاعدہ انسپیکشن نہیں ہوا کرتی تھی۔ مگر انسپیکشن کے بدعنوان اور ناکارہ نظام کو دیکھتے ہوئے یہ بھی خیال آتا ہے کہ انسپیکشن ہونے سے کیا فرق پڑنا تھا۔ خیر اس تمام تر لاپرواہی کا نتیجہ یہ نکلا کہ آگ والے دن کھڑکیاں بند تھیں اور دروازوں کو تالے لگے ہوئے تھے۔ آتشزدگی کی صورت میں اخراج کا راستہ موجود نہیں تھا اور فائر الارم کام نہیں کر رہا تھا۔ لہٰذا جب آگ لگی تو فیکٹری کے خارجی دروازوں پر سامان بکھرا پڑا تھا اور رکاوٹیں موجود تھیں، اور جب افراتفری مچی تو یہی رکاوٹیں مل کر ایک موت کا پھندہ بن گئیں۔

11 ستمبر 2012ء کو اعجاز کام پر گیا مگر کبھی واپس نہیں آیا۔ سعیدہ خاتون کی زندگی میں سب سے بڑا لطف ان کے بیٹے کے لیے کھانا پکانا تھا، مگر اب 6 سال سے وہ گھر پر کھانا بنانا چھوڑ چکی ہیں کیونکہ اس سے انہیں اپنے بیٹے کی یاد آتی ہے۔

شروعات میں تو بلدیہ آتشزدگی کے متاثرین منظم نہیں تھے اور انہیں مختلف حکومتی ادارے، پولیس اور فیکٹری مالکان باآسانی ٹرخاتے رہتے۔ صرف ڈیڑھ سال بعد ہی مختلف تنظیموں اور این جی اوز کی میٹنگز میں شرکت کے بعد سعیدہ خاتون کی ملاقات نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن کے جنرل سیکریٹری ناصر منصور سے ہوئی جنہوں نے مشورہ دیا کہ ان کی آواز صرف تب سنی جائے گی جب ان کی آواز میں دیگر بھی شامل ہوں گے۔

اگرچہ کئی دیگر متاثرین شروع میں ہچکچا رہے تھے، مگر سعیدہ خاتون نے انہیں قائل کرلیا اور یوں علی انٹرپرائزز فیکٹری فائر افیکٹیز ایسوسی ایشن کا قیام عمل میں آیا۔ پائلر، ٹریڈ یونینز، این جی اوز اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے بھی اس کار میں شمولیت اختیار کی اور یوں ایسوسی ایشن نے انصاف اور معاوضے کے لیے اپنا طویل سفر شروع کیا۔

ویسے تو کیس اب بھی چل رہا ہے مگر سندھ ہائی کورٹ میں شروع ہونے والے عدالتی مرحلے میں فیکٹری مالکان اور متعلقہ ریاستی حکام کو ان کی انتہائی غفلت کے لیے ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔ 2014ء تک ریاستی حکام نے طویل عرصے سے واجب الادا معاوضے اور پینشنز کی ادائیگی کردی۔

مگر اس جدوجہد کا جو تھوڑا بہت ثمر ملا، وہ بھی ممکن نہ ہوا ہوتا اگر علی انٹرپرائزز اپنی 70 فیصد مصنوعات جرمن کمپنی (KIK Textilen) کو سپلائی نہ کر رہی ہوتی۔ ایک مرتبہ جب یہ بات منظرِ عام پر آئی تو مزدوروں کے حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں کی لابنگ اور دباؤ کے بعد KIK Textilen نے نہ صرف ایمرجنسی ریلیف کی ادائیگی پر حامی بھری، بلکہ بین الاقوامی معیارات کے تحت طویل المدتی معاوضے کی ادائیگی کا بھی اعلان کیا۔ 10 لاکھ ڈالر ادا اور تقسیم کردیے گئے تھے مگر طویل المدتی معاوضے کے حصول میں مزید 4 سال لگے۔

اس سب کے باوجود بھی آخری منٹ پر بیوروکریٹک رکاوٹیں حائل ہوئیں اور وزارتِ اوورسیز پاکستانیز نے یہ کہہ کر روڑہ اٹکا دیا کہ اس کے عدم اعتراض کے سرٹیفیکیٹ کے بغیر یہ پیسے منتقل نہیں کیے جاسکتے۔ اگر آپ کو حیرت ہورہی ہے کہ اس وزارت کا اس سب سے کیا لینا دینا، تو آپ اکیلے نہیں ہیں۔ میڈیا کے دباؤ اور عوامی غصے کی وجہ سے یہ 'مطالبہ' فوراً ہی واپس لے لیا گیا اور یوں طاقتوروں اور کمزوروں کے درمیان ایک سخت لڑائی کمزوروں کی نایاب جیت کے قریب آ پہنچی۔

مگر مزدوروں کی حفاظت کے معیارات اور حالات پاکستان بھر میں اب بھی نہایت مایوس کن ہیں۔ 258 جانوں کے ضیاع اور 258 خاندانوں کی تباہی کے بعد بھی صنعتی شعبے کو ضابطوں میں لانے کے حوالے سے کافی کم پیش رفت ہوئی ہے۔ علی انٹرپرائزز جیسی ہزاروں فیکٹریاں وجود رکھتی ہیں اور ان میں سے ہر ایک ممکنہ طور پر موت کا پھندہ بن سکتی ہے۔

مزید پڑھیے: سانحہ بلدیہ ٹاﺅن کی نئی تحقیقات شروع

پھر جہاں تک ذمہ داری کی بات ہے تو علی انٹرپرائزز کے مالکان بیرونِ ملک مقیم اور مقدمات سے محفوظ ہیں۔ کیا یہ حادثہ تھا یا سازش؟ ہمیں 6 سالہ طویل مقدمے کے باوجود یہ ابھی بھی معلوم نہیں ہے۔ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی جانب سے سنسنی خیز اعترافات اور انکشافات کے باوجود بلدیہ کیس حل سے کوسوں دور ہے۔ ملزمان میں سے 7، بشمول متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے رؤف صدیقی ضمانت پر باہر ہیں جبکہ متحدہ کے 2 ملزم کارکنان جیل میں ہیں۔

اس دوران 6 گواہ قدرتی وجوہات کی بنا پر وفات پاچکے ہیں۔ مقدمے کے حل کے لیے ابھی کتنا وقت درکار ہے، کوئی نہیں جانتا۔ فی الوقت تو ہمیں اس تھوڑے سے انصاف پر ہی راضی ہونا ہوگا جو سعیدہ خاتون کو ملا ہے اور جہاں تک سعیدہ خاتون کی بات ہے تو انہوں نے اپنی زندگی کو پاکستان کے مزدوروں اور استحصال کے شکار طبقات کے حقوق کے لیے وقف کرنے کا اعلان کردیا ہے۔

کیونکہ سعیدہ خاتون کے نزدیک یہ تمام افراد ان کے اس بیٹے کی ہی طرح ہیں جنہیں وہ کھو چکی ہیں۔

انگلش میں پڑھیں۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 17 ستمبر 2018 کو شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں