لکھاری پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیجسلیٹیو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی کے صدر ہیں۔
لکھاری پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیجسلیٹیو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی کے صدر ہیں۔

حال ہی میں وزیرِ اعظم عمران خان نے اپنی کابینہ میں توسیع کی ہے۔ اس کے ساتھ ہی سوالات کا ایک تازہ سلسلہ شروع ہو گیا ہے جو ہر مرتبہ کابینہ کی تشکیل اور توسیع کے وقت شروع ہو جاتا ہے۔ درحقیقت ان تمام سوالات کو ایک ہی سوال میں مجتمع کیا جا سکتا ہے: کابینہ کا درست حجم کیا ہونا چاہیے؟َ اس سوال پر مختلف زاویوں سے غور کیا جا سکتا ہے۔

18ہویں آئینی ترمیم نے کابینہ کے حجم کی ایک حد مقرر کی ہے۔ آئین کی شق 92 کے تحت وفاقی کابینہ میں وفاقی وزراء اور وزرائے مملکت کی تعداد پارلیمنٹ کے کل ارکان کے 11 فیصد سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔ چوں کہ پارلیمنٹ 2 ایوانوں پر مشتمل ہے جس میں 342 ارکان قومی اسمبلی اور 104 ارکان سینیٹ کے ہیں، لہٰذا ارکان کی کل تعداد 446 ہے اور اس کا 11 فیصد 49 بنتا ہے۔ چنانچہ کابینہ کے ارکان کی کل تعداد اس سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔ 24 وفاقی وزراء اور 6 وزرائے مملکت کے ساتھ وفاقی کابینہ کا موجودہ حجم 30 یا پھر پارلیمنٹ کی کل رکنیت کے 7 فیصد سے بھی کم ہے چنانچہ یہ آئین کی مقرر کردہ حد سے بھی کافی کم ہے۔

ہم وفاقی کابینہ کے موجودہ حجم کا دوسری جمہوریتوں سے موازنہ کر کے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔ ہندوستان کی موجودہ کابینہ 77 ارکان پر مشتمل ہے جس میں 26 وزیر ہیں جبکہ 51 وزرائے مملکت ہیں۔ یہ کابینہ ہندوستانی پارلیمنٹ کی کل رکنیت کا تقریباً 9.6 فیصد ہے جس میں لوک سبھا (ایوانِ زیریں) کے 552 اور راجیہ سبھا (ایوانِ بالا) کے 250 ارکان کو ملا کر کل 802 ارکان ہیں۔

موجودہ برطانوی کابینہ میں 21 ارکان ہیں۔ اس کے ہاؤس آف کامنز (ایوانِ زیریں) کی کل رکنیت 650 ارکان ہے، چنانچہ یہ کابینہ کل رکنیت کے 3 فیصد کے قریب ہے۔ موجودہ امریکی کابینہ میں 15 ارکان ہیں مگر چوں کہ امریکا میں صدارتی نظامِ حکومت ہے اور کانگریس کے ارکان کابینہ کے رکن نہیں بن سکتے، اس لیے صدر پر کانگریس کے ارکان کو کابینہ میں شامل کرنے کا کوئی دباؤ نہیں ہوتا۔ چنانچہ امریکی مثال کا پاکستان پر اطلاق نہیں ہوتا۔

پڑھیے: وفاقی کابینہ میں مزید 6 وزرا کی شمولیت

ہم کابینہ کے حجم کے بارے میں ایک اور اندازہ پاکستان کی پچھلی کابیناؤں کے حجم سے موازنہ کر کے لگا سکتے ہیں۔ 70 سالوں میں پاکستان کی کوئی 48 کابینائیں رہی ہیں۔ 1973ء کے آئین سے پہلے جب ملک مشرقی اور مغربی بازوؤں پر مشتمل تھا، تب کابینہ کا حجم شاید ہی کبھی 20 سے بڑھا ہو۔ 1973ء کے آئین کے نافذ العمل ہونے سے قبل 16 کابینائیں تھیں اور ان میں سے صرف 2 کے ارکان کی تعداد 20 سے زائد تھی۔ مجموعی طور پر کابینہ کے ارکان کی اوسط تعداد 16 سے کم رہی ہے۔

جب 1973ء کے آئین کے نفاذ کے بعد عوامیت پسند سیاست نے جڑیں مضبوط کیں تو کابینہ کے حجم میں اضافہ ہونا شروع ہوا یہاں تک کہ سید یوسف رضا گیلانی کے 2008 سے 2012 کے دور میں کابینہ کا حجم 66 ارکان تک پہنچ گیا جس میں 47 وزیر اور 19 وزرائے مملکت شامل تھے۔

حالیہ دور میں شاہد خاقان عباسی کی کابینہ نسبتاً بڑی رہی ہے جس کا حجم 55 ارکان کا تھا۔ اس میں 35 وزیر اور 20 وزرائے مملکت تھے۔ گزشتہ 47 کابیناؤں کا اوسط حجم 26 ہے پر اگر نگراں کابیناؤں اور فوجی حکمرانوں اور صدور کی کابیناؤں کا جائزہ لیا جائے تو پارلیمانی حکومتوں کی کابیناؤں کا اوسط حجم 36 بنتا ہے۔ اس طرح دیکھیں تو وزیرِ اعظم عمران خان کی کابینہ ماضی کی کابیناؤں کے اوسط حجم سے کافی چھوٹی ہے۔

لیکن کابینہ کے حجم کو دیکھنے کا ایک اور طریقہ یہ بھی ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ کتنے وزراء کی ضرورت ہے۔ فی الوقت وفاقی حکومت میں 34 وزارتیں ہیں۔ ویسے تو ہر وزارت کا ایک وزیر ہونا چاہیے مگر وزارتوں کی تعداد کسی ضرورت یا معقولیت کی بناء پر نہیں ہوتی۔ ماضی میں کچھ وزارتیں اس لیے بھی بنائی گئیں تاکہ زیادہ سے زیادہ ارکانِ پارلیمنٹ کو وزیر یا وزیرِ مملکت بنایا جا سکے۔ وزارتوں کی فہرست پر ایک سرسری نظر سے اندازہ ہوتا ہے کہ وزارتوں کی تعداد گھٹا کر 20 کے قریب کی جاسکتی ہے جو کہ 1973ء کے آئین کے نفاذ سے قبل روایت تھی۔

مثال کے طور وزارتِ ڈاک ماضی میں وزارتِ مواصلات کا حصہ رہی ہے اور اسے دوبارہ اس میں ضم کیا جاسکتا ہے۔ وزارتِ انسانی حقوق وزارتِ قانون، انصاف اور پارلیمانی امور کا حصہ رہی ہے اور اسے دوبارہ اس کا حصہ بنایا جاسکتا ہے۔ جب وزیرِ توانائی موجود ہے تو وزیرِ پیٹرولیم کی کیا ضرورت ہے؟ وزارتِ انسدادِ منشیات کو واپس وزارتِ داخلہ کے ماتحت کردینا چاہیے۔ وزارتِ دفاعی پیداوار کو وزارتِ دفاع کا حصہ بنایا جانا چاہیے۔ صوبوں کو اختیارات کی منتقلی کے بعد صحت، تعلیم، غذائی تحفظ اور سائنس اینڈ ٹیکنالوجی جیسے قلمدانوں کو ایک وزارت کے ماتحت کیا جاسکتا ہے۔

مزید پڑھیے: ‘نئی کابینہ میں مشرف کےساتھیوں کی شمولیت صوبائی خودمختاری کیلئےکھلی دھمکی’

وزارتِ پارلیمانی امور وزارتِ قانون کا حصہ رہی ہے اور یہ واپس وہاں جاسکتی ہے۔ وزارتوں کا یہ انضمام اور قلمدانوں میں یہ کمی پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کی اخراجات میں کمی کی مہم کے عین مطابق ہے۔ اگر ہم کابینہ کے موجود حجم کو مکمل طور پر ضرورت اور اخراجات کے اعتبار سے دیکھیں تو یہ تھوڑی سی بڑی ہے۔ 20 سے 25 اس کی حد ہونی چاہیے تھی۔

وزراء کے تقرر میں اہم اور اکثر فیصلہ کن کردار ادا کرنے والی چیز سیاست ہے۔ اتحادیوں پر مشتمل موجودہ حکومت جیسی حکومتوں کو اپنے اتحادیوں کو خوش رکھنا پڑتا ہے۔ وفاقی کابینہ کے 24 وزراء میں سے 8 یا ایک تہائی پی ٹی آئی کی اتحادی جماعتوں سے تعلق رکھتے ہیں۔

اس کے علاوہ حکمراں جماعت کو پارٹی کے اندر موجود مختلف گروہوں کو بھی خوش رکھنا پڑتا ہے۔ یہ سربراہانِ حکومت کے لیے نہایت اہم چیز بن جاتی ہے کیوں کہ کبھی کبھی حکومت کی بقا کا انحصار اس پر ہوتا ہے۔

سید یوسف رضا گیلانی کے ماتحت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی بڑی کابینہ اسی مجبوری کے تحت قائم کی گئی تھی۔ شاہد خاقان عباسی نے بھی عام انتخابات سے پہلے فوراً ایک بڑی کابینہ بنائی تاکہ پارٹی وفاداروں کو انتخابی اکھاڑے میں اترنے سے قبل کابینہ کا حصہ بنایا جا سکے۔

یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں جمہوری پارلیمانی حکومتوں میں کابیناؤں کا اوسط حجم کافی بڑا (35) رہا ہے جبکہ صدارتی نظام اور فوجی حکومتوں میں یہ تعداد 18 کے قریب رہی ہے۔

انگلش میں پڑھیں۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 12 اکتوبر 2018 کو شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں