لکھاری دہلی میں ڈان کے نمائندے ہیں۔
لکھاری دہلی میں ڈان کے نمائندے ہیں۔

ہندوستان اور پاکستان میں دیگر جگہوں کے ساتھ ساتھ کام کی جگہوں اور یہاں تک کہ گھروں میں بھی خواتین کو جن چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے، انہیں دیکھتے ہوئے میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ پروفیسر کیلاش ناتھ کول نے اس صورتحال کا تجزیہ کیسے کیا ہوتا؟

مرحوم داستان گو کا ماننا تھا کہ ہماری زبانوں میں ہمارا بدصورت ماضی چھپا ہوا ہے جس کے سیمپلز ابھی بھی ہمارے ڈی این اے میں شامل ہیں اور ذرا سا بھی اشتعال دلانے پر باہر نکل آتے ہیں۔

نہرو کی اہلیہ کمالہ کے لکھنؤ میں مقیم بھائی کی حیثیت سے کول صاحب شہر کی اشرافیہ کے درمیان ہونے والے خاندانی میل جول میں مستقل طور پر مدعو کیے جاتے تھے۔ وہ تعلیم کے اعتبار سے ماہرِ نباتات تھے اور انہوں نے شہر کے مشہور بوٹانیکل گارڈنز کی بنیاد رکھی تھی جہاں میں نے اپنے بچپن میں پہلی بار جواہر لعل نہرو کو دیکھا تھا۔

پروفیسر کول کے مطابق ہندوستانی زبانوں میں استعمال ہونے والے کچھ جملے جو اکثر جھگڑوں اور مذاق میں استعمال ہوتے ہیں، درحقیقت ہمارے آدم خور ماضی کی نشاندہی کرتے ہیں۔ اسی طرح ہماری مائیں، بہنیں اور بیٹیاں جنسی تشدد کا نشانہ بنتی ہیں اور اس حوالے سے جملے ہماری روز مرّہ کی گفتگو میں گندھے ہوئے پائے جاتے ہیں۔

لوگ ایک دوسرے کا خون پی جانے، کچا چبا جانے، کھا جانے یا پھر قیمہ بنا دینے کی دھمکیاں دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ ایک سبزی خور شخص کو بھی غصے میں ایک خون آلود دھمکی دیتے ہوئے بُرا نہیں لگتا۔ کیا آپ کو یاد ہے کہ ہم نے آخری بار ایک ذبح شدہ خاتون کے رحم سے بچہ نکال کر اسے ہجوم کے سامنے تلوار پر بلند کرنے کا نظارہ کب دیکھا تھا؟

مجھے یقین ہے کہ ہمارے خطے میں خواتین کی آزادی یا مساوات کی جدوجہد کو سب سے بڑا چیلنج مردانہ تشدد کے ایک گہرے کلچر کی وجہ سے ہے جس کا نشانہ خواتین بنتی رہی ہیں اور اب بھی بن رہی ہیں۔

پڑھیے: بولی وڈ کی 11 معروف فلمسازخواتین کا اہم اعلان

کہا جاتا ہے کہ مہابھارت جنگجو مردوں کے درمیان ایک تلخ اختتام والی جنگ تھی مگر یہ درحقیقت 2 طاقتور گروہوں کے درمیان بے یار و مددگار خواتین کو پانسوں کے کھیل میں جیتنے اور ہارنے پر لڑی گئی جنگ تھی۔

آج کے دور میں بات کریں تو خواتین کو پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل کردیا جاتا ہے۔ یہ وبا پورے جنوبی ایشیا میں پھیلی ہوئی ہے۔ ایک صحافی کے طور پر میں نے ایک ایسی کینگرو عدالت بھی دیکھی ہے جس نے دیومالائی کردار رادھا کے گاؤں متھرا کے قریب برسانا کے علاقے میں 2 مختلف ذاتوں کے لڑکا لڑکی پر تشدد اور قتل کا حکم دیا تھا کیوں کہ بظاہر دونوں ایک ساتھ گھر سے بھاگ گئے تھے۔ لڑکی کے گاؤں کے اونچی ذات کے سرداروں نے ان کے اس اقدام کو مسترد کردیا اور پولیس نے بھی نظریں چُرا لیں۔ پھر انہیں سب سے پہلے ایک درخت سے الٹا لٹکا کر انہیں سخت تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور اس کے بعد جشن مناتے ہجوم کے سامنے آگ میں پھینک دیا گیا۔

ایک سطح پر دیکھیں تو خواتین کا ہمہ گیر استحصال ایک قبائلی یا دیہی عمل لگتا ہے مگر تہمینہ درانی نے کئی سالوں پہلے انکشاف کیا تھا کہ کس طرح صنفی تشدد اور خواتین کے ساتھ ناانصافی اقتدار کے ہمارے جدید ڈھانچوں میں بھی گندھی ہوئی ہے۔

چنانچہ یہی وجہ ہے کہ ممبئی میں 'می ٹو' مہم سے متاثر خواتین نے فلمی دنیا میں ریپ اور جنسی ہراسانی کے اپنے تلخ تجربوں کے بارے میں عوامی سطح پر بات کرنی شروع کی ہے جبکہ دہلی میں سینیئر اور نامور صحافیوں کو بھی اب اپنی خواتین ساتھیوں کے مبینہ استحصال کے الزامات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

ملزم مرد اپنی سماجی بنیادوں سے کٹے ہوئے نہیں ہیں اور نہ ہی ایسا خواتین کے ساتھ ہے۔ جزوی طور پر مسئلہ تاریخی حقائق کو قبول نہ کرنے کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔

مثال کے طور پر ایک مشہور تنگ نظر مؤرخ نے دلیل دی ہے کہ ہندوؤں میں ایک سماجی انقلاب آچکا ہے جو ہندوستانی مسلمانوں میں نہیں آیا ہے۔ یہ بڑھا چڑھا کر پیش کی گئی بات ہے کیوں کہ دونوں ہی برادریوں میں آزاد طبع افراد موجود تھے جنہیں ان کے اپنوں ہی کے ردِعمل نے دبا دیا۔

ہندوستان کی قومی تحریک کے ہراول دستے میں موجود بظاہر نفیس اور پڑھے لکھے مرد ہی تھے جو ان سے زیادہ روشن خیال مردوں اور خواتین کے پیش کی گئی سماجی اصلاحات سے کتراتے رہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ دوسری برائیوں کے ساتھ ساتھ ہندوستان میں بچوں کی شادیاں اب بھی عام ہیں۔

یہ تِلَک اور انڈین نیشنل کانگریس کے پہلے سربراہ ڈبلیو سی بونرجی جیسے مردوں کی جانب سے لڑکیوں/خواتین کی شادی کی کم سے کم عمر بڑھانے میں مداخلتوں کا براہِ راست نتیجہ ہے۔ کیا ایک ایسے معاشرے میں 'می ٹو' مہم کامیاب ہوسکتی ہے جہاں بچوں کو سماجی یا معاشی دباؤ کے تحت شادی کے بندھن میں باندھ دیا جاتا ہے؟

مزید پڑھیے: جنسی طور پر ہراساں خواتین بھرپور مدد کی مستحق ہیں، ایشوریا رائے

جہاں ملک بھر میں بچوں کی شادیوں میں کمی آئی ہے وہیں تحقیق سے انکشاف ہوا ہے کہ راجستھان میں بچوں کی شادیوں کے سب سے زیادہ واقعات ہوئے ہیں۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ ریاست کی وزارتِ اعلیٰ کے منصب پر ابھی ایک خاتون ہی براجمان ہیں۔

2011ء کی مردم شماری کو بنیاد بناکر کی جانے والی اس تحقیق میں پایا گیا ہے کہ کم عمر لڑکیوں کی شادیوں کے ڈھائی فیصد واقعات راجستھان میں ہوئے اور اس کے بعد 15 ریاستوں میگھالیہ، اروناچل پردیش، بہار، اتر پردیش، گجرات، سکم، مدھیہ پردیش، مغربی بنگال، ناگا لینڈ، آسام، مہاراشٹر، تری پورہ، دادرا اینڈ نگر حویلی اور کرناٹک کا نمبر آتا ہے۔ انقلاب کہاں ہے؟ اور بچوں کی شادیاں مسلمانوں کا بھی اتنا ہی مسئلہ ہیں۔

تحقیق کے مطابق 12.9 فیصد لڑکیوں کی شادی 10 سے 17 سال اور 43.6 فیصد کی شادی 18 سے 20 سال کی عمر کے درمیان کردی جاتی ہے، مگر صرف 4.9 فیصد لڑکوں کی شادی 10 سے 17 سال اور 11.2 کی شادی 18 سے 20 سال کی عمر میں ہوتی ہے۔

رپورٹ کہتی ہے کہ ’2011ء کی مردم شماری کے اعداد و شمار کے مطابق 69.5 لاکھ لڑکوں اور 51.6 لاکھ لڑکیوں کی شادی ان کی مقررہ قانونی عمروں سے پہلے کردی گئی ہے۔‘

تحقیق دکھاتی ہے کہ کم عمر لڑکیوں کی شادیوں میں 0.1 فیصد کی معمولی کمی آئی ہے۔ دیہی ہندوستان میں یہ کمی 2001ء سے 2011ء کی مردم شماری کے درمیان آئی اور پورے ملک میں آنے والی کمی سے کچھ زیادہ تھی۔

مگر پھر یہ نکتہ آتا ہے کہ ’شہری ہندوستان میں کم عمر لڑکیوں کی شادی کے واقعات 2001 میں 1.78 فیصد سے بڑھ کر 2.45 ہو گئے ہیں۔ قانونی عمر سے کم عمر لڑکیوں کی شادیوں کی حقیقی تعداد 51 لاکھ رہی ہے۔‘

جانیے: پاکستان میں کم عمری کی شادیاں، وجوہات اور اُن کے نقصانات

رپورٹ کی نگرانی کرنے والے سپریم کورٹ کے جسٹس اے کے سکری نے لکھا کہ ’بچوں کی شادی کے سدِباب کے 'سیکولر' قانون اور پرسنل لاز کے درمیان ایک تنازع تھا جس کے حل کے لیے قانون سازی کی ضرورت ہے۔‘ کیا اس حوالے سے کوئی پیش رفت ہوئی ہے؟

سیکولر قوانین کے تحت بچوں سے شادی کرنا ایک جرم ہے مگر اسے 'کالعدم' صرف تب قرار دیا جا سکتا ہے جب بچی بالغ ہونے کے بعد ایسا چاہے۔ مگر جب وہ کم عمری میں شادی کے جال سے بچ کر بلوغت اختیار کرلے تو پھر ہوس پرست مرد ملازمتوں کی جگہوں پر ان کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 16 اکتوبر 2018 کو شائع ہوا۔

انگلش میں پڑھیں۔

تبصرے (0) بند ہیں