دہلی کے استاد شعرا کی یادیں تازہ کرتی کتاب کی تقریب رونمائی

اپ ڈیٹ 04 نومبر 2018
بھارتی مصنف تقریب میں خاص شرکت کے لیے کراچی آئے تھے—فوٹو:وائٹ اسٹار
بھارتی مصنف تقریب میں خاص شرکت کے لیے کراچی آئے تھے—فوٹو:وائٹ اسٹار

سیف محمود نہ صرف شاعری اور ادب کے تنقید نگار ہیں بلکہ اردو زبان سے محبت کرنے والے بھارت کے معروف وکیل، سپریم کورٹ آف انڈیا کے ایک وکیل، بھی ہیں، ان کی کتاب 'بیلوڈ دہلی-اے مغل سٹی اینڈ ہر گریٹسٹ پوئٹس' کی تقریب رونمائی کراچی میں دی سیکنڈ فلور (ٹی ٹو ایف) میں منعقد ہوئی۔

کراچی کے ادبی حلقے کی جانب سے اس تقریب میں شرکت کی گئی جو بھارتی مصنف کے ان کے گزشتہ برسوں میں کراچی ادبی میلے کے لیے کئی دوروں میں دوست بن گئے تھے، ڈاکٹر آصف فرخی نے تقریب کی میزبانی کی اور انہوں نے خاص اس تقریب کے لیے سرحد پار سے آئے ہوئے مصنف سے سوالات کرتے ہوئے رونمائی کی تقریب کو آگے بڑھایا۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ ایک کتاب لکھنے کے لیے اردو شاعری کا انتخاب کیوں کیا جبکہ وہ قانون سے منسلک ہیں، مصنف نے خوب صورتی سے وکالت اور شاعری کو ایک دوسرے سے جوڑ دیا اور کہا کہ وکیل اور شاعر دونوں وضاحت خوب صورتی سے کرتے ہیں۔

انہوں نے حاضرین کو بتایا کہ جشن ریختہ کی کامیابی سے بھارت میں اردو کا احیا ہورہا ہے اور جن لوگوں کی مادری زبان اردو نہیں ہے وہ بھی اب اس کو آگے لے کر جارہے ہیں، انہوں مزید کہا کہ جو کام ایک بلاگ سے شروع ہوا تھا اس کا اختتام دہلی کے اردو شعرا پر ایک مکمل تحقیقی کتاب پر ہوا کیونکہ اردو کو سمجھنے کے لیے کلاسیکی ادب اور اس کے محرک شخصیات کا علم ہونا چاہیے۔

بھارتی مصنف نے شستہ اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں بات کی، جب کتاب سے اقتباس پڑھ کر سنایا تو انگریزی اور میزبان سے اردو میں بات کی۔

یہ بھی پڑھیں:قصوری کی کتاب کے آرگنائزر پر حملہ

مباحثے کے دوران انہوں نے دہلی کے صرف 8 شعرا کے انتخاب اور مرزا رفیع سودا (1721 – 1785)، میر تقی میر (1722-1810)، مرزا اسداللہ خاں غالب (1797-1869)، مومن خان مومن (1800-1851)، بہادر شاہ ظفر (1775-1862)، شیخ محمد ابراہیم ذوق (1789-1854) اور مرزا خان داغ دہلوی کی فہرست بنانے کے پیچھے کار فرما عوامل سے حاضرین کو آگاہ کیا۔

انہوں نے دہلی اور اردو کے رشتے اور اردو کو صرف مسلمانوں کی زبان قرار دے کر خود کو اس سے الگ کرنے والوں کو غلط سمجھنے کے حوالے سے بھی وضاحت کی۔

حاضرین کی توجہ برقرار رکھنے کے لیے سیشن کو جعفر زٹلی سے سودا، مرزا غالب سے بہادر شاہ ظفر کے ایک دور کو دوسرے سے ملایا گیا تھا، مصنف نے اپنی کتاب کو ‘کلاسیک اردو ادب کا مکالمہ’ سے تعبیر کیا اور پہلا پیرا گراف پڑھ کر سنایا جو وضاحت کررہا تھا کہ انہوں نے کتاب کیوں لکھی ہے۔

کتاب کا آغاز میر کے بجائے سودا سے کیوں کیا گیا ہے یہ صرف اردو ادب سے شناسائی رکھنے والوں کے لیے ہے اور مصنف نے جعفر زٹلی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے دور سے آگے کے شاعر تھے۔

مباحثے کی طرح نہ صرف کتاب بھی دلچسپ ہے بلکہ یہ پوری دنیا میں اردو کو سرکاری زبان کے حامل واحد ملک پاکستان میں بہترین فروخت ہونے والی کتاب بھی ہوسکتی ہے۔

مزید پڑھیں:ملالہ کی کتاب کی تقریبِ رونمائی روکنے پر عمران خان حیرت زدہ

سیف محمود نے اس کو تحقیق کے مقصد کے علاوہ ایک پیار کرنے والے کی جانب سے زبان کے لیے خراج تحسین قرار دیا اور انہوں نے کہا ہے کہ 1857 بھارت میں اردو ادب کے خدوخال کو تبدیل کرنے کا سال تھا، جنگ آزادی کے بعد صرف غالب اور داغ ہی دہلی سے عظمت حاصل کر پائے تھے۔

انہوں نے دہلی سے میر کے عشق، ذوق کی حساسیت اور غالب کے تخیل پر بھی بات کی اور آخرالذکر کو ایک مقدمے باز سے بھی تعبیر کیا۔

حاضرین کو ان 8 شعرا کی رہائش گاہ کے حوالے سے دہلی کی شاہکار تصاویر بھی دکھائی گئیں جن میں گھاتا مسجد، میر درد درگاہ، اینگلو عربک اسکول شریف منزل اور یہاں تک یادگار ذوق اور بہادر شاہ ظفر سے منسلک دو گز زمیں سمیت ان میں سے کئی جگہیں چشم حیرت تھیں۔

جس کے بعد ثانیہ سعید نے نے کتاب میں سودا اور غالب کے ابواب سے چند اقتباسات پڑھ کر سنایا جس کے ساتھ معروف شاعرہ زہرہ نگاہ کا کتاب کے مصنف کی کامیابی کے لیے پیغام بھی شامل کیا گیا۔

بھارت میں کتاب کی رونمائی کی تقریب بمبئی میں نصیرالدین شاہ اور دہلی میں سابق ہندوستانی نائب صدر محمد حامد انصاری کی صدارت میں ہوئی تھی جبکہ اگلے مہینے نیویارک میں تقریب ہوگی۔


یہ رپورٹ 3 نومبر 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں