نیا بجٹ: سب کا نہیں، لیکن چلو کسی کا تو فائدہ ہوا!

اپ ڈیٹ 25 جنوری 2019
اسد عمر کے اعلان کردہ تمام تر اقدامات وہی ہیں جس پر کاروباری برادری گزشتہ کئی سالوں سے شور مچا رہی تھی— اے پی پی
اسد عمر کے اعلان کردہ تمام تر اقدامات وہی ہیں جس پر کاروباری برادری گزشتہ کئی سالوں سے شور مچا رہی تھی— اے پی پی

پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) نے اپنے اقتدار کے ابتدائی 5 مہینوں میں ہی دوسرا فنانس بل قومی اسمبلی میں پیش کردیا ہے اور یوں تحریک انصاف کی ان کاوشوں کی بدولت ایک سال کے اندر 3 فنانس بل پیش ہوچکے ہیں جو ملکی سطح پر نیا ریکارڈ ہے۔

اس تیسرے فنانس بل کی برکت ہی تھی کہ وزیرِاعظم عمران خان بھی 3 ماہ سے زائد عرصے کی غیر حاضری کے بعد قومی اسمبلی کے اجلاس میں شریک ہوئے۔ اسد عمر نے جیسے ہی قومی اسمبلی میں ترمیمی فنانس بل پیش کرنا شروع کیا تو ساتھ ہی اپوزیشن نے احتجاج شروع کردیا اور اس احتجاج کا اثر اسد عمر کی تقریر پر بھی محسوس ہوا کیونکہ وہ اکثر احتجاج کا جواب دینے کی بھی کوشش کرتے رہے۔

فنانس بل پیش کرتے ہوئے جیسا دباو اسد عمر پر ایوان کے اندر تھا، بل پیش کرنے سے پہلے بالکل ایسا ہی دباو ایوان کے باہر بھی تھا جسے ختم نہیں تو کسی حد تک کم کرنے کے لیے نیا فنانس بل ایوان میں پیش کیا گیا ہے۔ اگر تقریر میں اہم نکات کا جائزہ لیا جائے تو مندرجہ ذیل نکات اہم ہیں۔

  • بینکوں کے چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار، زراعت اور گھروں کے قرضوں سے ہونے والی آمدن پر ٹیکس کی 50 فیصد چھوٹ دی گئی ہے۔ ان مدات میں بینکوں کی آمدنی پر ٹیکس 39 فیصد کے بجائے 20 فیصد کردیا گیا ہے۔
  • چھوٹے گھروں کی تعمیر کے لیے 5 ارب روپے قرض حسنہ اسکیم
  • انکم ٹیکس ریٹرن جمع کرانے والوں کے لیے بینک لین دین پر عائد ٹیکس ختم
  • 1300 سی سی گاڑیوں کی خریداری کے لیے انکم ٹیکس دہندہ ہونے کی شرط ختم جبکہ 1800 سی سی یا زائد کی گاڑیوں کی درآمد پر ڈیوٹی میں اضافہ
  • کاروبار میں آسانی کے لیے ودھ ہولڈنگ ٹیکس ریٹرن سال میں ایک مرتبہ کے بجائے 2 مرتبہ جمع کرانے کی سہولت
  • شادی ہالز پر عائد ٹیکس کو 20 ہزار سے کم کرکے 5 ہزار روپے کردیا گیا
  • آسان ٹیکس کے لیے پائلٹ پروجیکٹ اسلام آباد سے شروع کرنا،
  • اخباری صنعت کے نیوز پرنٹ پر ڈیوٹی کا خاتمہ
  • صنعتی خام مال پر ڈیوٹی کا خاتمہ یا 5 فیصد تک کرنا یہ رعایت خصوصاً آٹو موبل انڈسٹری کے لیے ہے۔
  • کمرشل امپورٹرز کے لیے 6 فیصد ٹیکس کو ہی اصل ٹیکس تصور کرنا
  • سی پیک کے خصوصی اکنامک زونز کے لیے عمارتی سامان پر ڈیوٹی کا خاتمہ
  • گرین فیلڈ منصوبوں اور متبادل توانائی (شمسی اور پون) کے لیے 5 سال تک کسٹم ڈیوٹی، سیلز ٹیکس اور انکم ٹیکس کی چھوٹ
  • کھیلوں کی فرنچائز خریدنے والوں کو ٹیکس کی چھوٹ
  • یکم جولائی 2018ء سے سُپر ٹیکس کا خاتمہ
  • کارپوریٹ انکم ٹیکس میں سالانہ ایک فیصد کی کمی
  • ری پے منٹس پر ٹیکس اور انٹر کارپوریٹ ٹیکس کی چھوٹ
  • اسٹاک بروکرز پر عائد ٹیکس ختم
  • تاجروں اور صنعت کاروں کے ٹیکس ریفنڈ کے لیے حکومتی بانڈ دینے کا فیصلہ
  • کیپیٹل گین ٹیکس میں نقصان کی صورت میں 3 سال کیری فارورڈ کی سہولت

اسد عمر کی جانب سے معاشی اصلاحات کے پیکج میں کوئی ایسی خاص بات نظر نہیں آئی جس سے معیشت کو درپیش مسائل کو حل کرنے کی جانب کوئی ٹھوس قدم اٹھایا گیا ہو۔

لیکن بہرحال اب یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ مالی سال کے تیسرے فنانس بل سے کن کن سیکٹرز کو فائدہ ہوگا تاکہ صورتحال مزید واضع ہوجائے۔

اس فنانس بل سے ملکی معیشت کے بڑے لابی گروپس یعنی بینکس، بڑے کاروباری ادارے، آٹو موبل، کمرشل امپورٹرز، فرٹیلائزر سیکٹر اور اسٹاک مارکیٹ کے اسٹیک ہولڈرز فائدہ اٹھائیں گے۔ اعلان کردہ تمام تر اقدامات وہی ہیں جس پر کاروباری برادری گزشتہ کئی سالوں سے شور مچا رہی تھی، اور لگتا تو یہی ہے کہ اسی شور کو کم یا ختم کرنے کے لیے حکومت ایک مالی سال میں تیسرا فنانس بل لانے پر مجبور ہوئی ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت جب قائم ہوئی تھی تو اس نے گزشتہ حکومت کی جن جن خامیوں پر تنقید کی تھی ان میں حکومت کا بڑھتا ہوا بجٹ خسارہ اور کرنٹ اکاونٹ خسارہ سرِفہرست تھے۔ تیسرے فنانس بل کو پیش کرتے وقت اپنی تقریر میں بھی اسد عمر نے ان دونوں خساروں میں اضافے کا رونا رویا، اور یہ بات درست بھی ہے کہ پاکستان کو اپنے بڑھتے ہوئے دوہرے خسارے پر قابو پانے کے لیے پالیسی سازی کرنا ہوگی۔

مگر جن اقدامات کا اعلان کیا گیا وہ حیران کن اس لیے تھے کہ ٹیکسوں میں چھوٹ سے حکومت کی قرض وصولی میں کمی ہوگی اور بجٹ یا مالیاتی خسارے میں اضافہ ہوگا۔ اسی کے ساتھ ساتھ ریگولیٹری ڈیوٹی ختم کرنے سے درآمدات میں اضافہ متوقع ہے جس سے تجارتی خسارے میں اضافہ ناگزیر ہے۔ بالاخر اس کا اثر کرنٹ اکاونٹ خسارے میں بھی اضافے کی صورت میں ظاہر ہوگا۔ پھر حیران کن بات یہ کہ کل ایسا کوئی اعلان نہیں کیا گیا جس سے ٹیکس وصولی میں بہتری ممکن ہوسکے۔

اعلان کردہ تمام تر اقدامات وہی ہیں جس پر کاروباری برادری گزشتہ کئی سالوں سے شور مچا رہی تھی، اور لگتا تو یہی ہے کہ اسی شور کو کم یا ختم کرنے کے لیے حکومت ایک مالی سال میں تیسرا فنانس بل لانے پر مجبور ہوئی ہے۔

بجٹ تقریر ختم ہونے کے فوری بعد معروف ٹیکس کنسلٹنٹ اور ٹیکس ریفارمز کمیشن کی رپورٹ مرتب کرنے والے اشفاق تولا سے بات چیت کی گئی۔ اشفاق تولا کا کہنا تھا کہ فنانس بل میں کوئی انقلابی نوعیت کے اقدامات تجویز نہیں کیے گئے ہیں۔ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے روپے کی قدر میں استحکام اور سابقہ حکومت نے اس حوالے سے اچھے اقدامات اٹھائے تھے۔ اشفاق تولا کا کہنا ہے کہ اسد عمر نے اب جبکہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) میں جانے کا اعلان کردیا ہے تو حکومتی اقدامات اس جانب اشارہ کررہے ہیں کہ روپے کی قدر میں مزید 10 روپے تک کمی ہوسکتی ہے، یوں مہنگائی بڑھے گی جسے قابو کرنے کے لیے اسٹیٹ بینک کو بنیادی شرح سود میں اضافہ کرنا ہوگا جس سے معاملات مزید خرابی کی طرف جاسکتے ہیں۔

اشفاق تولا کا کہنا تھا کہ پاکستان کو ترقی کرنے کے لیے ایک مستحکم کرنسی کی اشد ضرورت ہے۔ وینزویلا تیل کی دولت سے مالا مال ہونے کے باوجود کرنسی ڈی ویلیو کرنے سے معاشی طور پر برباد ہوگیا ہے۔ انہوں نے اپنی بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ فنانس بل میں ٹیکس نیٹ کو بڑھانے کے اقدامات نظر نہیں آتے بلکہ چھوٹی گاڑیوں پر انکم ٹیکس کا استثنٰی ٹیکس دہندگان کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔

اسٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری کی صلاح دینے والے خرم شہزاد کا کہنا تھا کہ ویسے تو حکومت کو دوہرے خسارے کا سامنا ہے جس میں کرنٹ اکاونٹ اور بجٹ خسارہ شامل ہیں، مگر کرنٹ اکاونٹ خسارہ دراصل حکومت کے بجٹ خسارے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ حکومت نے معاشی ترقی کے لیے مراعات دی ہیں اور یہ دراصل چھوٹی بُرائی کے انتخاب جیسا ہے۔

ماہرین کی رائے اپنی جگہ لیکن اگر تحریک انصاف کے پہلے اور دوسرے ضمنی فنانس بل کا اگر مشترکہ طور پر جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ پہلے فنانس بل میں تحریک انصاف نے بجٹ خسارے کو کم کرنے کے اقدامات کا اعلان کیا تھا لیکن کچھ ہی ماہ میں دوسرا بل تاجروں، صنعت کاروں اور مضبوط لابیز کو مراعات دینے کے لیے پیش کیا گیا ہے۔ دونوں فنانس بل میں اہم نکات کا جائزہ کچھ یوں لیا جاسکتا ہے۔

ٹیکس وصولی اور خسارہ

جیسا کہ اوپر تحریر کیا ہے کہ پہلے ضمنی بجٹ میں ٹیکسوں کی وصولی بڑھانے اور بجٹ خسارہ کم کرنے کا ہدف تھا۔ مگر دوسرا ترمیمی فنانس بل دراصل مضبوط لابیز کو مراعات دینے کے لیے پیش کیا گیا ہے۔ اس طرح کہا جاسکتا ہے پہلا ضمنی بجٹ طلب ہی طلب تھا اور دوسرا ضمنی بجٹ عطا ہی عطا ہے۔

پہلے ضمنی بجٹ میں پی ٹی آئی کی حکومت نے بجٹ خسارے میں 980 ارب روپے خسارے کی نوید سناتے ہوئے بتایا تھا کہ خسارہ 2.7 ہزار ارب روپے کی سطح پر پہنچ جائے گا جو جی ڈی پی کا 6.6 فیصد ہوگا اور یہ خسارہ پاکستان کی تاریخ کا بلند ترین خسارہ ہوگا۔ مگر دوسرے فنانس بل میں بعض اہم شعبوں پر ٹیکس کی چھوٹ کا اعلان کیا گیا ہے جس سے حکومت کے اس خسارے میں مزید اضافہ ہوگا کیونکہ اس عمل سے حکومت کی ٹیکس وصولی میں کمی ہونے کے خدشات ہیں۔

بیرونی وسائل اور روپے کی قدر

تحریک انصاف کی حکومت بنی تو اس کو سب سے پہلے جس چیلنج کا سامنا تھا وہ بیرونی وسائل کی طلب و رسد کا تھا۔ پاکستان کا کرنٹ اکاونٹ خسارہ 18 ارب ڈالر سے زائد رہا تھا جو تاریخ کی بلند ترین خسارہ تھا۔ اس خسارے کو پورا کرنے کے لیے سابقہ حکومت نے 34 ارب ڈالر کے نئے قرضے لیے اور یوں ملکی قرضوں کا حجم 95 ارب ڈالر پہنچ گیا تھا۔

پھر ملک کو بیرونی قرضوں کی مد میں قلیل عرصے میں بڑی ادائیگیاں کرنا تھیں۔ اس حوالے وزیرِاعظم عمران خان نے قوم سے بھیک نہ مانگنے اور کشکول توڑنے کے دعووں کے برعکس دوست ملکوں سے معاونت کی درخواست کی جس پر سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور چین سے مالی معاونت کے پیکجز ملے۔ موجودہ حکومت کی جانب سے لیے گئے بیرونی قرضے ملکی تاریخ میں قلیل ترین مدت میں لیے جانے والے سب سے زائد قرض ہیں۔

زراعت کے لیے اقدامات

اسد عمر نے پہلے اور دوسرے ضمنی بجٹ میں زراعت کے حوالے سے جو اعلانات کیے ہیں اس سے کسان کو تو کسی حد تک فائدہ ضرور ہوگا، مگر ان اعلانات سے بینکس اور فرٹیلائزر سیکٹر کو براہِ راست فائدہ بھی ہوگا۔ ہمارے وزیرِ خزانہ کیمیائی کھاد کے شعبے کو خاص اہمیت دیتے ہیں کیونکہ زندگی کے بڑے حصے میں انہوں نے اسی شعبے سے اپنا رزق حاصل کیا ہے۔

اقتصادی رابطہ کمیٹی کے پہلے اجلاس میں ہی یوریا کی کمی کے حوالے سے اقدامات پر فیصلے کیے تھے گئے اور ایک لاکھ ٹن یوریا کی درآمد کے علاوہ اس پر 7 ارب روپے سبسڈی دینے کا اعلان بھی پہلے ضمنی بجٹ میں کیا تھا۔ اپنے دوسرے ضمنی بجٹ میں اسد عمر نے نوید سنائی ہے کہ فرٹیلائزر سیکٹر پر عائد گیس ڈیولپمنٹ سرچارج کوختم کرنے کی منظوری بھی کابینہ آئندہ روز دے گی جس سے یوریا کی فی بوری قیمت مزید 200 روپے سستی ہوجائے گی۔

بجٹ خسارے کی اصل وجہ برقرار

پاکستان میں حکومتی خسارے کی وجہ وہ ادارے ہیں جن کو حکومت نے آمدنی بڑھانے اور نفع کمانے کے لیے قائم کیا تھا۔ مگر طویل عرصے سے مسلسل خسارہ کیا جارہا ہے۔

اسد عمر نے پاکستان اسٹیل، پاکستان انٹرنیشنل ائیرلائنز (پی آئی اے) اور بجلی کی پیداوار اور ترسیل میں ہونے والے نقصانات کا ذکر کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومتوں کی پالیسیوں پر کڑی تنقید کی۔ یہ بھی کہا کہ حکومت کو اپنے حسابات سے باہر بھی 2 ہزار ارب روپے کا نقصان ہورہا ہے لیکن دوسری طرف آئی ایم ایف کی رپورٹ کے مطابق حکومت کو کاروباری اداروں کے خسارے سے سالانہ 1.2 ارب روپے کا خسارہ ہورہا ہے جو جی ڈی پی کا 4 فیصد ہے۔ جبکہ گزشتہ 5 سال میں سرکاری کاروباری اداروں کا خسارہ 3.47 ہزار ارب روپے سے تجاوز کرچکا ہے۔

اس اہم ترین معاملے کو حل کرنے کے لیے حکومت نے تاحال کوئی پالیسی نہیں دی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو اگر نیا پاکستان قائم کرنا ہے اور حکومتی بجٹ خسارے کو ختم کرنا ہے تو پھر اس مقصد کے لیے حکومت کے خسارے میں چلنے والے اداروں کو ٹھیک کرنا ہوگا۔ جب تک حکومت اس ضمن میں کوئی ٹھوس پالیسی وضع نہیں کرتی ہے اس وقت تک حکومتی مالیات کا شعبہ بہتر نہیں بنایا جاسکتا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں