لکھاری لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز میں اکنامکس پڑھاتے ہیں، اور IDEAS لاہور کے ویزیٹنگ فیلو ہیں۔
لکھاری لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز میں اکنامکس پڑھاتے ہیں، اور IDEAS لاہور کے ویزیٹنگ فیلو ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت نے واضح اعلان کیا ہے کہ 5 سے 16 سال تک کے تمام بچوں کو اسکول بھیجنا اور انہیں معیاری تعلیم فراہم کرنا اس کی اولین ترجیح ہے۔ اسکول سے باہر بچوں کی تعداد کے حوالے سے مختلف اندازے بتائے جاتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اسکول سے باہر بچوں کی تعداد 2 کروڑ سے 2 کروڑ 30 لاکھ تک ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ حکومت ان بچوں کو اسکول بھیجنے کی کیا منصوبہ بندی کر رہی ہے اور وہ کس طرح انہیں معیاری تعلیم تک رسائی ممکن بناسکتی ہے؟

حقیقت یہ ہے کہ معیشت کی حالت ٹھیک نہیں۔ ہم اپنے تمام دوستوں/قرض دہندوں سے مالی معاونت اور قرضوں کی تلاش میں ہیں۔ ہم مالی خسارے پر قابو پانے کے لیے ٹیکس وصولی میں اضافے اور اخراجات کو کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہم تجارتی خسارہ گھٹانے اور اقتصادی استحکام کے لیے معیشت کو مسلسل دبا رہے ہیں، امید ہے کہ ایسا مختصر وقت کے لیے ہی ہو۔ لیکن بہرحال حکومت واضح طور پر اس وقت بہت زیادہ وسائل نہیں رکھتی۔

وفاقی اور صوبائی سطح پر کفایت شعاری مہم ری کرنٹ اخراجات پر دباؤ کا سبب بن رہی ہے۔ ترقیاتی اخراجات میں زبردست کٹوتی کی گئی ہے۔ رواں برس ایک خبر کے مطابق پنجاب کے ترقیاتی اخراجات میں 600 ارب روپے سے زائد کٹوتی کرکے اسے 240 ارب روپے تک محدود کردیا ہے۔ انفرااسٹریکچر، ترقی اور توانائی کے منصوبے عام طور پر ترقیاتی کاموں کی اہم ترجیحات میں شامل ہوتے ہیں، ایسے میں اس قسم کی کٹوتیوں کے ساتھ حکومت کو تعلیمی شعبے میں نئے منصوبوں کا آغاز کرنے میں دشواری پیش آسکتی ہے۔

ایسی صورتحال میں حکومت تعلیمی شعبے کے لیے کیا کرسکتی ہے؟ ہم اسکول سے باہر بچوں کو اسکول بھیجنے کی منصوبہ بندی کس طرح کریں اور کس طرح تعلیمی معیار میں بہتری کو ممکن بنایا جائے؟

اگر اقتصادی صورتحال بہتر ہوتی ہے، جس کی حکومت کو توقع بھی ہے، تو اگلے چند برسوں میں ملک میں زیادہ وسائل بھی موجود ہوں گے۔ اس کا دار و مدار غیر معمولی حد تک اقتصادی استحکام اور پیداوار کی طرف فوری منتقلی پر ہوتا ہے۔ لیکن تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ پیداوار کی جانب منتقلی اتنی آسان اور سادہ نہیں رہی ہے۔ ہم گزشتہ 30 سال سے زائد عرصے کے دوران کبھی بھی طویل مدت کے لیے اقتصادی استحکام کو پائیدار پیداوار میں بدل نہیں پائے ہیں۔ امید ہے کہ اس بار نتیجہ مختلف ہو۔ مگر جیسا کہ حکومت تعلیمی شعبے میں اخراجات کے حوالے سے سوچ رہی ہے اس لیے ہمیں اس بات کو ذہن میں رکھنا چاہیے۔

لہٰذا اگر حکومتی وسائل سے موجودہ وقت کی طرح اضافی وسائل دستیاب نہیں ہوتے تو پھر ہمارے پاس کون سے آپشنز بچتے ہیں؟

تعلیمی اخراجات کا ایک بڑا حصہ تنخواہوں کی نذر ہوتا ہے اور یہ معاملہ تمام ہی ملکوں کے ساتھ ہے۔ اساتذہ کی تنخواہیں تعلیمی بجٹ کا اہم حصہ ہوتی ہیں اور اس معاملے میں زیادہ چھیڑ چھاڑ بھی نہیں کی جاسکتی۔ ہم اساتذہ کی تعداد کم نہیں کرسکتے بلکہ اگر ہمیں ایک بڑی تعداد میں بچوں میں داخل کرنا ہے تو اس کے لیے زیادہ اساتذہ درکار ہوں گے۔ اساتذہ کی تنخواہیں اتنی زیادہ بھی نہیں ہیں۔ ان کی تخواہوں میں کٹوتی کرنا بالکل بھی درست عمل نہیں ہوگا۔ لہٰذا ری کرنٹ اخراجات میں بچت کے مواقع زیادہ نہیں۔ ہم اپنے موجودہ اساتذہ کی تعداد سے زیادہ کام لینے کی کوشش کرسکتے ہیں لیکن اس طرح جو نتائج برآمد ہوئے بھی تو وہ بہت ہی کم شرح کے حامل ہوں گے۔

اساتذہ، اسکولوں، کلاس رومز، کتابوں اور دیگر متعلقہ سامان کی تعداد میں اضافہ کیے بغیر لاکھوں بچوں کو اسکول بھیجنا ممکن نہیں ہوسکتا۔ سرکاری پرائمری اسکولوں کی ایک بڑی تعداد صرف 2 کمروں پر مشتمل ہے اور ان میں 5 سے 6 کلاسوں کے لیے 5 سے بھی کم ٹیچرز موجود ہیں۔ اگر ہم ان اسکولوں میں بھی داخلوں کی شرح بڑھانا چاہتے ہیں تو ہمیں وہاں زیادہ کمروں اور ٹیچرز کی ضرورت پڑے گی۔

مڈل اور ہائی اسکولوں کی مناسب تعداد نہ ہونا بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ مثال کے طور پر، ضلع رحیم یار خان میں 2 ہزار 200 کے آس پاس سرکاری پرائمری اسکول موجود ہیں، لیکن ہائی اسکولوں کی تعداد صرف 220 ہے۔ اگر موجودہ ہائی اسکولوں کی تعداد, 2 ہزار 200 اسکولوں میں زیرِ تعلیم طلبا کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی تو ان سے اضافی طلبا کے لیے گنجائش نکالنے کی توقع کس طرح کی جاسکتی ہے؟ اس میں کوئی حیرت نہیں کہ ہمارے پاس تعلیم کا سلسلہ بیچ میں چھوڑ دینے والے بچوں کا ایک بڑا مسئلہ موجود ہے۔ ہم اسکولوں کی تعداد میں اضافے کے بغیر کس طرح اضافی بچوں کے لیے مڈل اور ہائی سطح کی تعلیم کا انتظام کرسکتے ہیں؟ اگر ہم مڈل اور ہائی اسکول کے بچوں کا خیال رکھنے کے لیے چند پرائمری اسکولوں کو اپ گریڈ کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو اس کا مطلب بھی یہی ہے کہ ہمیں اضافی اساتذہ اور اضافی کمروں کا بندوبست کرنا ہوگا۔

اسکول سے باہر موجود لاکھوں بچوں کو اگر ہم اسکولوں میں داخلہ دینے جا رہے ہیں تو اس کے لیے اسکولوں کے بنیادی ڈھانچوں میں اضافہ ناگزیر محسوس ہوتا ہے۔ بنیادی ڈھانچوں کے پھیلاؤ میں بہت زیادہ وقت اور بھاری لاگت درکار ہوتی ہے۔ لیکن جب تک حکومت یہ محسوس نہیں کرلیتی کہ اس کے پاس اس لاگت کے لیے کافی وسائل موجود ہیں تب تک یہ آپشن زیادہ کارآمد نظر نہیں آتا۔

اگر پی ٹی آئی حکومت بچوں کے داخلوں کی شرح میں اضافے اور تعلیمی معیار میں بہتری کو لے کر کافی سنجیدہ ہے اور اگر وہ اخراجات کے لیے وسائل نہیں رکھتی تو اسے نئے طریقے ڈھونڈنا ہوں گے۔

کیا پی ٹی آئی حکومت نجی شعبے اور نجی وسائل کو تعلیمی پھیلاؤ میں ہاتھ بٹانے کے لیے کسی طرح آمادہ کرنے میں کامیاب ہوسکتی ہے؟ پاکستان میں منافع کے بغیر کام کرنے والا شعبہ چھوٹا ہے، لیکن پھر بھی یہ حکومت کے ساتھ شراکت داری کی بنیاد پر تھوڑا بہت بوجھ اٹھا سکتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہوسکتا ہے کہ منافع کے لیے کام کرنے والا شعبہ مناسب سالانہ شرح منافع پر راضی ہوجائے اور کہیں کہیں لاگت کا بوجھ اٹھائے۔

مگر ان مذکورہ 2 میں سے کسی ایک بھی بات پر عمل کرنے کے لیے حکومت کو نجی شعبے کی جانب اپنا رویہ کافی مثبت رکھنا ہوگا۔ اسے نجی شعبے کو یقین دلانا ہوگا کہ حکومت انہیں اور ان کے کام میں ہر طرح کی سہولت فراہم کرنا چاہتی ہے۔ اس حوالے سے پالیسی بیان (policy statements) بھی دیا جاسکتا ہے اور اسے نجی و سرکاری شراکت داری کے لیے عملی اقدامات اور نجی شعبے کو سہولیات کی فراہمی کے ذریعے تقویت پہنچانی ہوگی، اس کے علاوہ اسے نجی کاروباری اداروں کے جائز خدشات کو بھی دُور کرنا ہوگا۔

موجودہ وقت میں ہمیں ان میں سے کسی ایک بات پر عمل ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ بلکہ اس کے بجائے تعلیمی میدان میں نجی شعبے کے حوالے سے کوئی گفتگو ہوتی ہے تو اس دوران ضابطوں، منافع کے لیے بھاری فیسوں، یکسانیت تھوپنے جیسی باتیں کی جانے لگتی ہیں۔

سادہ لفظوں میں کہیں تو اسکول میں داخلوں کی شرح میں اضافہ اور اسکولوں کے معیار میں بہتری قلیل مدت یا مستقبل قریب میں تو ممکن دکھائی نہیں دیتی۔ حکومت کے پاس وسائل کی کمی ہے اور وہ نجی شعبے کے ساتھ شراکت داری کے ذریعے نئے طریقوں پر عمل کا کوئی ارادہ بھی نہیں رکھتی۔ اگر حکومت اس مقصد کے لیے دیگر طریقوں پر غور کررہی ہے تو ہم انہیں ضرور جاننا چاہیں گے۔

یہ مضمون 25 جنوری 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں