پچھلے سال یعنی 2018ء کی بات کی جائے تو سرکاری حج کے اخراجات شمالی ریجن کے لیے 2 لاکھ 93 ہزار 50 روپے جبکہ جنوبی ریجن کے لیے 2 لاکھ 83 ہزار 50 روپے تھے جبکہ قربانی کی رقم اس کے علاوہ تھی۔ لیکن اب اچانک صرف ایک ہی سال کے عرصے میں یعنی 2019ء میں یہ اخراجات بڑھ کر بتدریج 4 لاکھ 36 ہزار 9 سو 75 اور 4 لاکھ 26 ہزار 9 سو 75 روپے ہوئی اور اس میں بھی قربانی کے پیسے الگ ہیں۔

اگر قربانی اور تھوڑا بہت زادِ راہ بھی شامل کرلیا جائے تو یہ اخراجات تقریباً 5 لاکھ روپے تک پہنچ جاتے ہیں جو اب متوسط طبقے کے لیے ناقابلِ برداشت ہوچکے ہیں۔ اس اضافے نے متوسط طبقے کو شش و پنج میں ڈال دیا ہے کہ آیا وہ کبھی حج ادا کر بھی سکیں گے یا نہیں؟ یا وہ حج کی خواہش دل میں لیے ہی دنیا سے رخصت ہوجائیں گے؟

ان حالات میں عوام ریاست کی طرف دیکھ رہے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ حکومتِ پاکستان بھی اس مسئلے کو خوش اسلوبی سے حل کرنے کی خواہش رکھتی ہے۔ ویسے تو جہاں اس مسئلے کے بہت سے دیگر حل موجود ہیں وہیں ملائشیا کا ’تابونگ حاجی‘ (ٹی ایچ) منصوبہ بھی پاکستانی عوام کے حج مسائل حل کرنے کے لیے بہترین ماڈل ہے۔

یہ ’تابونگ حاجی‘ (ٹی ایچ) منصوبہ کیا ہے؟

سن 1963ء سے پہلے ملائشیا میں سرکاری سطح پر حلال منصوبوں میں سرمایہ کاری کرکے حج کی ادائیگی کرنے کا کوئی نظام موجود نہیں تھا۔ اس وقت ملائشیا میں صرف کنونشنل بینک کام کر رہے تھے لیکن ملائشیا کی عوام سود کے کاروبار سے پیسہ کما کر حج نہیں کرنا چاہتے تھے۔ لہٰذا معاملے کی سنجیدگی کو مدِنظر رکھتے ہوئے معاشیات کے پروفیسر جناب انگکو عبدالعزیز بن انگکو عبدالحامد (Ungku Abdul Aziz bin Ungku Abdul Hamid) نے 1959ء میں ملائشیا کی حکومت کی توجہ حلال سرمایہ کاری کے ذریعے عوام کو حج کی سہولت فراہم کرنے کی طرف دلوائی۔

اس سرمایہ کاری کا نام پراسپکٹیو حج پلگرمز سیونگز کارپوریشن (Prospective Hajj Pilgrims Savings Corporation) تجویز کیا گیا اور 30 ستمبر 1963ء کو پورے ملک میں پہلی مرتبہ حج کی خواہش رکھنے والوں سے رقم کی وصولی کے لیے کاؤنٹر کھولے گئے۔ پورے ملائشیا سے 1281 لوگوں نے حج سرمایہ کاری کے لیے کھاتے کھلوائے اور 46 ہزار 610 رنگٹ جمع ہوئے۔ ان تمام کھاتا داروں کو یقین دلایا گیا تھا کہ ان کی رقم سود سے پاک ہوگی اور وہ مکمل حلال کمائی سے حج کی ادائیگی کرسکیں گے۔ اس منصوبے کو بعد ازاں تابونگ حاجی (ٹی ایچ) کا نام دیا گیا۔

تابونگ حاجی پراجیکٹ کو 1995ء کے تابونگ حاجی ایکٹ کے تحت چلایا جاتا ہے۔ جدید دنیا میں اس ایکٹ کو سرکاری سطح پر اسلامی حلال سرمایہ کاری کے ذریعے حج کی سہولت فراہم کرنے والا پہلا مکمل قانون سمجھا جاتا ہے۔ اس قانون کے تحت سرمایہ کاری کے لیے شرعی اصول وضع ہیں۔ تمام سرمایہ کاری مشارکہ، مضاربہ، مرابحہ، القردالحسن، اجارہ، بے المعجل کے تحت ہوتی ہے۔

ٹی ایچ کی آمدنی ’ایکوئٹی منافع‘، ’عمارتوں کے کرائے‘، ’کنسٹرکشن‘، ’فارن ایسکچینج ریٹ منافع‘، ’شئیرز کی فروخت‘ اور ’سیکیورٹی مارکیٹ‘ سے حاصل شدہ منافع اور بونس کی صورت میں ہوتی ہے۔ کھاتا داروں کو منافع زکوۃ کی کٹوتی کے بعد ادا کیا جاتا ہے۔ تابونگ حاجی بینک اسلامی ملائشیا کی مذہبی کونسل اور نیشنل فتوی کمیٹی کی ہدایات پر عمل کرتا ہے۔ کامیابی کو یقینی بنانے کے لیے معاشی ماہرین، کامیاب کاروباری حضرات اور بیوروکریٹس پر مشتمل فنانس اسلامی کونسل تشکیل دی گئی ہے۔ حلال آمدنی کو یقینی بنانے کے لیے کسی بھی ایسے کاروبار جیسا کہ کنونشنل بینکنگ، کنونشنل انشورنس اور ہوٹلوں میں سرمایہ کاری نہیں کی جاتی۔ اس قانون سے متاثر ہوکر دنیا کے دیگر اسلامی ممالک نے بھی اسے اپنا لیا ہے۔ جن میں انڈونیشیا اور مالدیپ سرِفہرست ہیں۔

تابونگ حاجی کا ممبر بننا بالکل مفت ہے۔ ممبر بننے کے لیے آپ کا مسلمان اور ملائشین شہری ہونا بنیادی شرطیں ہیں۔ مسلمان ملائشین شہری تابونگ حاجی کی 100 سے زائد برانچوں، ڈاک خانوں، ماہانہ تنخواہ میں سے مستقل کٹوتی اور ہیڈ آفس میں براہِ راست اپنے پیسے جمع کروانے کے ذریعے حج کے لیے رقم تابونگ حاجی میں جمع کروا سکتے ہیں۔ تابونگ حاجی کی 120 سے زائد شاخوں کے علاوہ حکومت نے 12 بینکوں کے ساتھ الحاق کر رکھا ہے۔ ٹی ایچ اکاونٹ رکھنے والا شہری ان بینکوں اور اے ٹی ایمز پر جاکر بھی ٹرانزیکشن کرسکتا ہے۔ جہاں ٹی ایچ سینٹرز قائم نہیں ہیں وہاں یہ بینک ٹی ایچ کے نمائندہ کی حیثیت سے بھی کام کرتے ہیں۔ جس سے کھاتا داروں کو کسی بھی قسم کی مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔

تابونگ حاجی میں حج کرنے والوں کا انتخاب کھاتے کی رقم کم یا زیادہ ہونے سے نہیں کیا جاتا بلکہ اس کا انتخاب خالص ’پہلے آؤ پہلے پاؤ‘ کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ ملائشین حکومت کی دلچسپی اور تابونگ حاجی کو عین اسلامی قوانین کے مطابق چلانے کے باعث 1281 کھاتا داروں اور 46610 رنگٹ سے شروع ہونے والے پروجیکٹ میں اب تک 90 لاکھ سے زیادہ اکاونٹ کھل چکے ہیں جن میں 73 ارب رنگٹ جمع ہیں۔

عام طور پر اس منصوبے میں حج کی ادائیگی کے اخراجات نکالنے کے بعد بھی منافع بچ جاتا ہے جو کھاتا داروں کو بونس کی شکل میں ادا کردیا جاتا ہے۔ پوری دنیا میں حج ادا کرنے کے لیے عوام کو صاحبِ استطاعت بنانے کا یہ بہترین حلال فارمولا ہے۔

پاکستان میں کیا ہونا چاہیے؟

میں وزارتِ مذہبی امور اور وزیرِاعظم پاکستان عمران خان سے کہنا چاہتا ہوں کہ آپ تابونگ حاجی کے کامیاب ماڈل کو اپنے سامنے رکھیں اور اس کا موازنہ پاکستان میں رائج اسلامک سرمایہ کاری کے نظام سے کریں کیونکہ دونوں نظاموں میں کافی مماثلت نظر آتی ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے پاس بھی یہ نظام موجود ہے اور کام کر رہا ہے لیکن بس حکومتی عدم دلچسپی کے باعث ہم اس نظام سے فائدہ نہیں اٹھا پا رہے۔

میری حکومتِ پاکستان سے گزراش ہے کہ اسلامی سرمایہ کاری کے نظام سے فائدہ اٹھانے اور عام آدمی کے لیے حج کو آسان بنانے کے لیے سرکاری سطح پر ‘حج فنڈ‘ کے نام سے ایک پروجیکٹ متعارف کروایا جائے جس کی نگرانی تمام مکتبہ فکر کے علما اور مفتیان حضرات پر مشتمل ایک شرعی بورڈ سر انجام دے۔

چونکہ اب حج کی قیمت اس قدر بڑھ چکی ہے کہ ہر کسی کے لیے اس کو انجام دینا ناممکن بنتا جارہا ہے، اس لیے لوگوں کی آسانی کے لیے حکومت کیا کرسکتی ہے، اس حوالے سے چند تجاویز پیش کی جارہی ہیں۔

  • ابتدائی طور پر اس پروجیکٹ کے کھاتے تمام اسلامی بینکوں اور ڈاک خانوں میں کھولے جائیں۔
  • اسٹیٹ بینک آف پاکستان میں ‘حج فنڈ’ کے نام سے علیحدہ کاؤنٹرز بنائے جائیں۔
  • حج فنڈ کا ممبر بننے کے لیے ممبرشپ فارم اسٹیٹ بینک کے ساتھ ساتھ تمام اسلامی بینکوں اور ڈاک خانوں پر بھی رکھے جائیں۔
  • حکومت ابتدائی طور پر کھاتے کھولنے کے لیے ایک لاکھ روپے کی رقم مختص کرسکتی ہے، اور جو شخص حج فنڈ کا ممبر بن جائے اسے ایک اکاونٹ نمبر الاٹ کیا جائے تاکہ کھاتا دار جب چاہے اسٹیٹمنٹ نکلوا سکتا ہے۔
  • حج کی ادائیگی سے پہلے رقم نکلوانے پر پابندی ہو، لیکن اگر حج کی ادائیگی کے بعد منافع بچ جائے تو وہ لوگوں کو واپس کردیا جائے۔
  • جہاں تک کھاتا داروں کی رقم سے سرمایہ کاری کرنے کا معاملہ ہے تو اس کے لیے مشارکہ، مضاربہ، مرابحہ، تکافل، صکوک، اجارہ اور بے المعجل جیسے بہترین اسلامی سرمایہ کاری کے قوانین ہمارے پاس موجود ہے۔
  • شرعی بورڈ کی منظوری کے بعد حج فنڈ کی رقم سے حلال کاروبار میں حلال طریقے سے سرمایہ کاری کی جائے اور نفع و نقصان کو بھی انہی قوانین کے مطابق تقسیم کیا جائے۔
  • حکومتِ پاکستان کے پاس حلال کاروبار میں سرمایہ کرنے کے سیکڑوں آپشن ہر وقت موجود رہتے ہیں اور یہ سرمایہ کاری اندرونِ ملک کے ساتھ ساتھ بیرونِ ملک بھی ہوسکتی ہے۔ پھر اس سرمایہ کاری سے کمائے گئے منافع اور سرمائے کی رقم ملا کر کھاتا داروں کے حج کے اخراجات برداشت کیے جائیں۔
  • حج کی ادائیگی کے لیے لوگوں کا انتخاب پہلے آؤ پہلے پاؤ کی بنیاد پر کیا جائے۔ پھر جن لوگوں کا انتخاب ہوجائے مگر ان کے منافع اور سرمائے کی رقم ملاکر بھی حج کی ادائیگی کے اخراجات مکمل نہیں ہوئے ہوں تو حکومت اس فنڈ میں موجود دوسرے کھاتا داروں سے قرض لے کر ان کے حج اخراجات کی ادائیگی کرے اور مستقبل میں ہونے والے منافع سے اس قرض کی ادائیگی کردے۔
  • لیکن اگر منافع اور سرمایہ حج اخراجات سے زیادہ ہوجائے تو پھر بونس کی شکل میں کھاتا داروں کو یہ رقم واپس کردی جائے۔

یہاں یہ بات یاد رہے کہ پاکستانی عوام کی بڑی تعداد صاحبِ نصاب تو ہے مگر حج کے لیے صاحبِ نصاب نہیں بلکہ صاحبِ استطاعت ہونا ضروری ہے۔ پاکستانی عوام کے لیے صاحبِ استطاعت ہونے کا معیار ریاست نے تقریباً 5 لاکھ روپے مقرر کیا ہے، جس کی وجہ سے بہت سے لوگ حج کی استطاعت کے معیار پر پورا نہیں اتر پا رہے۔ لیکن حج فنڈ کے قیام سے ہوگا یہ کہ لوگ بتدریج صاحبِ استطاعت ہوتے چلے جائیں گے اور یوں ان کے لیے حج کی ادائیگی نسبتاً آسان ہوسکتی ہے۔

اہم بات یہ کہ ایسا کرنے سے نہ تو حکومت کا اضافی سرمایہ خرچ ہوگا اور نہ ہی اس پر سبسڈی کا بوجھ پڑے گا لیکن عوام حج جیسے فرض کی ادائیگی سود سے پاک اور حلال کمائی کے ذریعے کرسکیں گے۔

یہ کام ہوگا کیسے؟

دیکھیے وزارتِ مذہبی امور حکومت کے پاس ہے، ملک میں اسلامی بینکوں کا جال بچھا ہوا ہے، پوسٹ آفس کا نظام پہلے سے بہتر ہوگیا ہے، اس کے ساتھ ساتھ مفتیان کرام، جیّد علما اور اسلامی نظریاتی کونسل جیسے ادارے بھی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ حکومت کے پاس حج فنڈ قائم کرنے اور کامیابی سے چلانے کے لیے تمام چیزیں موجود ہیں، بس کرنے کا کام یہ ہے کہ ان سب وسائل کو ان کی جائز اور مناسب جگہ پر رکھ کر بہترین طریقے سے استعمال کرلیا جائے۔

اسلامی سرمایہ کاری کو عملی شکل دینے کے لیے علما اور مفتیان کی کئی کئی سالوں کی محنت ہے۔ اگر حکومت ان سے فائدہ اٹھا لے تو لوگ اپنے ہی حلال سرمائے سے حج کے لیے صاحبِ استطاعت بن جائیں گے۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ حج کے لیے سبسڈی دینا ریاست پر فرض نہیں ہے لیکن عوام کی استطاعت بڑھانا یقیناً ریاست کی ہی ذمہ داری ہے، اور یہ ذمہ داری حج فنڈ قائم کرکے پوری کی جاسکتی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں