میانمار: مسلمان وکیل کے قتل پر دو افراد کو سزائے موت

16 فروری 2019
مسلمان وکیل آئین میں فوج کے عمل دخل کو کم کرنے لیے ترمیم پر کام کررہے تھے—فوٹو:اے ایف پی
مسلمان وکیل آئین میں فوج کے عمل دخل کو کم کرنے لیے ترمیم پر کام کررہے تھے—فوٹو:اے ایف پی

میانمار کی عدالت نے مسلمان وکیل اور رہنما آنگ سانگ سوچی کے قانونی مشیر کے قتل پر دو افراد کو سزائے موت سنا دی۔

خبر ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق مسلمان وکیل کو نی کو بدھسٹ قوم پرستوں نے ان کے عقیدے اور کام کے باعث آن لائن نفرت انگیزی کا نشانہ بنایا تھا اور جنوری 2017 میں ینگون ائرپورٹ کے باہر گولی مار کر قتل کردیا گیا تھا۔

مسلمان وکیل کے دن دھاڑے قتل سے میانمار میں غم و غصہ پھیل گیا تھا اور یہ واقعہ ایک ایسے موقع پر پیش آیا تھا جی آنگ سانگ سوچی کے اقتدار میں آئے ہوئے چند ماہ ہوئے تھے۔

کو نی میانمار کی سیاسی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی کے قانونی مشیر تھے اور فوج کی جانب سے 2008 میں بنائے گئے آئین کی ترامیم کرنے کے منصوبے کا حصہ تھے۔

خیال رہے کہ اس آئین میں فوج کو پارلیمانی سیاست میں شراکت بنادیا گیا تھا اور دفاع بھی فوج کو دیا گیا تھا۔

ناقدین کا کہنا تھا کہ فوج سے جڑنے کے باعث وکیل کے قتل کا مقدمہ سست روی کا شکار ہے جس کے باعث وجوہات کی اصل تصویر سامنے نہیں آرہی ہے کیونکہ دو مشتبہ افراد کا تعلق مبینہ طور پر فوج سے تھا انہیں اس کا ماسٹرمائنڈ قرار دیا جا رہا تھا۔

مزید پڑھیں:میانمار میں معروف مسلم قانون دان قتل

جج خن ماؤنگ ماؤنگ نے مسلح کیئی لن کو سزا سنائی جنہوں نے گولی ماری تھی اور فرار ہوتے ہوئے ایک ٹیکسی ڈرائیور کو قتل کردیا تھا۔

مزید دومجرموں کو بھی قید بامشقت کی سزا سنائی ہے—فوٹو: اے ایف پی
مزید دومجرموں کو بھی قید بامشقت کی سزا سنائی ہے—فوٹو: اے ایف پی

مجرم کو سزا سناتےہوئے جج نے حکم دیا کہ ‘سزائے موت پر عمل کردیا جائے جب پھانسی سے دم نہ توڑ دے’ جبکہ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق میانمار میں سزائے موت کا قانون تو موجود ہے لیکن گزشتہ 10 برس سے اس پر عمل نہیں کیا گیا۔

مجرم کو اسلحہ رکھنے اور ٹیکسی ڈرائیور نے سن کے قتل کے جرم پراضافی 23 سالہ قید بامشقت بھی دی گئی، ٹیکسی ڈرائیور نے ان کا اس وقت پیچھا کیا تھا جب وہ وکیل کو نی کو قتل کرکے فرار ہورہے تھے۔

دوسرے مجرم آنگ ون زا کو بھی سزائے موت سنادی گئی ہے جو مسلمان وکیل کے قتل کے وقت ائرپورٹ پر موجود تھے۔

یہ بھی پڑھیں:’روہنگیا مسلمان، میانمار میں واپسی سے خوفزدہ‘

میانمار کی عدالت نے دو افراد زیا فیو اور آنگ ون تن کو مختلف اوقات میں اس قتل میں تعاون کرنے کے جرم میں بالترتیب 5 اور 3 سالہ قید بامشقت سنا دی گئی ہے۔

عدالت کے فیصلے کے خلاف دونوں فریقین اپیل کرسکتی ہیں اور سرکاری وکیل کا کہنا تھا کہ وہ زیافیو کو طویل سزا کے لیے اپیل کریں گے۔

ینگون میں قائم اس عدالت میں فیصلہ سننے کے لیے مسلح پولیس اہلکاروں، صحافیوں اور سفارت کاروں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔

واضح رہے کہ میانمار میں 5 دہائیوں تک فوج کی حکمرانی رہی ہے تاہم 2008 میں ایک معاہدے کے بعد فوج کو شراکت اقتدار کرلیا گیا تھا اور آئینی ترامیم میں ویٹو کا خصوصی اختیار بھی دیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں:روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی: حقائق سامنے لانے پر 2 غیر ملکی صحافیوں کو 7 سال قید

میانمار کے اس قانون میں ان افراد کو صدارتی امیدوار بننے سے روک دیا گیا تھا جن کے اہل خانہ کا پس منظر کسی بیرونی ملک سے ہو جس کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ یہ شق آنگ سانگ سوچی کو نشانہ بنانے کے لیے رکھی گئی ہے کیونکہ ان کے اہل خانہ کے افراد نے اپنی تعلیم برطانیہ سے حاصل کررکھی ہے۔

مقتول مسلمان وکیل آئین میں اسی طرح کی دیگر کئی شقوں کو نکالنے کے لیے سرگرم تھے جس کے بعد یہ عمل سست پڑ گیا تھا تاہم این ایل ڈی نے ایک کمیٹی تشکیل دی تھی جس نے رواں ماہ آئین میں تبدیلیوں پر بادلہ خیال کیا تھا جبکہ فوج کے ایک رکن اسمبلی نے قرار داد پیش کی تھی۔

کو نی ان سرفہرست مسلمانوں میں سے ایک تھے جو مذہب پرست بدھسٹ کے اکثریتی ملک میانمار میں سیاست میں سرگرم عمل تھے حالانکہ انہیں این ایل ڈی نے 2015 میں تاریخی انتخابات میں کسی مسلمان کو ٹکٹ نہیں دیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں