بھارت کے اقدام پر پاکستان کا متعدد تجارتی آپشنز پر غور

اپ ڈیٹ 27 فروری 2019
بھارت نے 1995 میں پاکستان کو پسندیدہ ترین ملک کا تجارتی درجہ دیا تھا — فوٹو: شٹر اسٹاک
بھارت نے 1995 میں پاکستان کو پسندیدہ ترین ملک کا تجارتی درجہ دیا تھا — فوٹو: شٹر اسٹاک

اسلام آباد: وزیر اعظم کے مشیر برائے کامرس عبدالرزاق داؤد نے کہا ہے کہ بھارت کی جانب سے پسندیدہ ترین ملک کا درجہ واپس لینے کے اقدام کے بعد پاکستان تمام دستیاب آپشنز پر غور کررہا ہے۔

یہ بات انہوں نے بورڈ آف انویسٹمنٹ کے دفتر میں سعودی ولی عہد اور اعلیٰ سطح کے تجارتی وفد کے 2 روزہ دورے کے حوالے سے میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے کہی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق مشیر تجارت نے کہا کہ پاکستان، بھارت کے خلاف یک طرفہ اقدامات کے طور پر ساؤتھ ایشیا پریفرینشل ٹریڈ اگریمنٹ (سیپتا) کے تحت دی گئی رعایات واپس لے سکتا ہے اور مذکورہ معاملہ جینیوا کی ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے سامنے بھی اٹھایا جاسکتا ہے۔

واضح رہے کہ بھارت نے پلوامہ میں بھارتی فوج پر ہونے والے حملے کے بعد پاکستان سے پسندیدہ ترین ملک کی تجارتی حیثیت ختم کردی ہے، جو اس نے 1995 میں دی تھی۔

اس حیثیت کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ مذکورہ ملک درآمدات پر ٹیرف کے حوالے سے ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے تمام اراکین کے ساتھ برابری کا درجہ رکھے گا اور کسی سے جانبداری نہیں برتی جائے گی۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت نے پاکستان سے ’پسندیدہ تجارتی ملک‘ کا درجہ واپس لے لیا

خیال رہے کہ بھارت نے اس سے قبل 2016 میں بھی کشمیر میں اپنی فوج پر ہونے والے ’اڑی حملے‘ کے بعد اسی طرح کا اقدام اٹھایا تھا۔

تاہم اس وقت پاکستان نے پسندیدہ ملک کا درجہ واپس لینے کے بجائے بھارتی حکومت نے پاکستانی فنکاروں کے بولی وڈ میں کام کرنے پر پابندی عائد کردی تھی۔

اس حوالے سے وزارت تجارت کے ایک عہدیدار نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان، برآمدات کے حوالے موجود منفی فہرست میں مزید اشیاء کا اندراج کرسکتا ہے جو بھارت سے درآمد نہیں کی جائیں گی۔

واضح رہے کہ مارچ 2012 میں اسلام آباد کی جانب سے ایک ہزار 209 اشیاء کو منفی فہرست میں شامل کر کے باقی تمام اشیا کی بھارت کے ساتھ تجارت کی اجازت دے دی گئی تھی، اس سے قبل پاکستان، بھارت کے ساتھ صرف ایک ہزار 963 اشیاء کی تجارت کرتا تھا۔

عہدیدار کا مزید کہنا تھا کہ دو طرفہ بنیاد پر بھارت سے درآمد کی جانے والی مصنوعات پر اضافی محصول بھی عائد کیا جاسکتا ہے اور واہگہ کے راستے ہونے والی تجارت بھی کم کی جاسکتی ہے۔

یہ بات مدِ نظر رہے کہ 05-2004 میں پاکستان کی بھارت کے لیے برآمدات کا حجم 28 کروڑ 81 لاکھ 34 ہزار ڈالر تھا جو 17-2016 تک 35 کروڑ ڈالر تک پہنچ گیا تھا۔

مزید پڑھیں: پاک-بھارت بہتر تعلقات سے 30 ارب ڈالرتک تجارت بڑھا سکتے ہیں

دوسری جانب بھارت کی جانب سے پاکستان کے لیے برآمدات کا حجم 05-2004 میں 54 کروڑ 74 لاکھ 58 ہزار ڈالر تھا جو 17-2016 میں 2 ارب ڈالر تک جا پہنچا تھا۔

واضح رہے کہ 2004 میں دونوں ممالک کے درمیان بحال ہونے والے مذاکرات نے بھارت کو یک طرفہ طور پر اشیاء اور خدمات کی برآمدات میں خاطر خواہ اضافے کا فائدہ پہنچایا جبکہ پاکستانی برآمدات جمود کا شکار رہیں۔

اسلام آباد کی جانب سے 12 سو 9 مصنوعات کو ممنوع قرار دینے کے باوجود بھارت کی پاکستان کو بھیجی جانے والی تجارت کا حجم پاکستان کی برآمدات سے 3 گنا زائد ہے۔

چنانچہ حکام کا کہنا تھا کہ بھارت کی جانب سے پاکستان سے پسندیدہ ملک کا درجہ واپس لینے کے فیصلے کا بہت زیادہ اثر نہیں پڑے گا کیوں کہ تجارت کا زیادہ فائدہ بھارت کو پہنچ رہا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں