پاکستان کو سفارتی طور پر تنہا کرنے کا بھارتی خواب پورا نہیں ہوگا، وزیر خارجہ

اپ ڈیٹ 27 فروری 2019
وزیر خارجہ کے مطابق بھارت کو دیکھنا چاہیے کہ مقبوضہ کشمیر میں کیا ہورہا ہے— فائل فوٹو: اے ایف پی
وزیر خارجہ کے مطابق بھارت کو دیکھنا چاہیے کہ مقبوضہ کشمیر میں کیا ہورہا ہے— فائل فوٹو: اے ایف پی

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھارت کے زیر تسلط کشمیر میں ہونے والے حملے میں 44 بھارتی فوجیوں کی ہلاکت پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’تشدد ہماری حکومت کی پالیسی نہیں‘۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے ٹوئٹ کی گئی ایک ویڈیو میں شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ’تشدد نہ ہی (حکمت عملی) ہے اور نہ ہی ہماری حکومتی پالیسی‘۔

جرمنی کے شہر میونخ میں سیکیورٹی کانفرنس میں شرکت کے لیے گئے وزیر خارجہ نے ویڈیو میں نجی ٹی وی چینل جیو نیوز سے گفتگو کی اور کہا کہ جو واقعہ ہوا ہے میں اس کی مذمت کرتا ہوں لیکن بھارت نے بغیر کسی ثبوت کے فوری طور پر پاکستان پر الزام لگا دیا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان پر الزام لگانا ایک منٹ کی بات ہے، آپ اپنا ملبہ بھی ہم پر پھینک دیجیے لیکن دنیا اس سے قائل نہیں ہوگی، دنیا نے اس کی مذمت کی ہے اور کرنی بھی چاہیے تھی کیونکہ جانوں کا ضیاع ہوا ہے۔

مزید پڑھیں: بھارت نے پاکستان سے ’پسندیدہ تجارتی ملک‘ کا درجہ واپس لے لیا

تاہم شاہ محمود قریشی نے کہا کہ بھارت سے آوازیں آرہی ہیں، جیسا کے جموں اور کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ نے کہا کہ پاکستان پر الزام لگانا ’آسان راستہ‘ ہے لیکن بھارتی انتظامیہ یہ بھی تو دیکھے کے مقبوضہ کشمیر میں کیا ہورہا ہے۔

وزیر خارجہ نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہورہی ہیں اور روز جنازے اٹھ رہے تو کیا اس کا ردعمل نہیں آسکتا؟

انہوں نے کہا کہ میں روس کے وزیر خارجہ سمیت کئی وزرائے خارجہ سے ملا اور کہا کہ مجھے خدشہ ہے کہ بھارت میں انتخابات سے پہلے سیاسی مقصد کے لیے کوئی ’واقعہ‘ ہوسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ آج سے 2 ماہ قبل پاکستانی حکام نے 'پی 5' (امریکا، چین، روس، برطانیہ اور فرانس) کے سفرا کو اسلام آباد میں بلا کر بریف نہیں کیا تھا کہ ہمیں ڈر ہے کہ توجہ ہٹانے کے لیے کچھ نہ کچھ ہوسکتا ہے۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے پاس 2 آپشن ہیں، ایک یہ کہ وہ اہم سیاستدان کی طرح اگلے انتخابات پر نظر رکھتے ہوئے اپنی پالیسی اور رویے کو مرتب کریں اور دوسرا آپشن یہ ہے کہ وہ اپنے خطے، ملک کی غربت اور بہتری کے بارے میں سوچے اور اس کا مطلب علاقائی امن و استحکام ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہم بگاڑ نہیں چاہتے بلکہ امن چاہتے ہیں، یہ کہنا کہ ہم پاکستان کو مرعوب کرلیں گے تو یہ درست نہیں، ہم ایک قوم ہیں اور ہم اپنا دفاع اور موقف پیش کرسکتے ہیں، ہمارا پیغام امن ہے۔

دوسری جانب میونخ سیکیورٹی کانفرنس کے دوران امریکی خبر رساں ادارے وائس آف امریکا کی اردو سروس سے بات کرتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا تھا کہ پلوامہ میں ہونے والے حملے میں جو جانی نقصان ہوا اس پر افسوس ہے لیکن یہ ہمارا ایجنڈا نہیں۔

انہوں نے کہا تھا کہ پلوامہ حملے کے بعد بھارت نے ردعمل دیتے ہوئے بغیر ثبوت کے الزام تراشی شروع کردی، ماضی میں بھی ایسا ہوتا رہا لیکن انہیں کچھ حاصل ہوا نہ ہمیں۔

انہوں نے کہا تھا کہ ’ہندوستان کو تکلیف ہے تو ہمیں بھی تکلیف ہے، بھارت کے پاس ثبوت ہے تو ہمیں پیش کرے، ہم اس کی تحقیق میں ان کی مدد کریں گے، ہم تعاون کرنے کو تیار ہیں لیکن اس طرح کی الزام تراشی سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ’بھارت کا خیال ہے کہ وہ ہمیں سفارتی طور پر تنہا کردے گا تو یہ خام خیال ہے، انہوں نے پہلے بھی کوشش کی تھی اور ناکام ہوئے تھے، اب بھی کوشش کرکے دیکھ لیں وہ ناکام ہوں گے‘۔

یہ بھی پڑھیں: مقبوضہ کشمیر دھماکا: پاکستان نے بھارتی الزام یکسر مسترد کردیا

انہوں نے کہا کہ بھارت کو دیکھنا چاہیے کہ مقبوضہ کشمیر میں کیا ہورہا ہے اور آج یہ نوبت یہاں تک کیوں پہنچی، آج کشمیری ان سے نالاں ہیں تو اس کی کیا وجہ ہے، کیا ہزاروں عورتیں جو احتجاج کرتیں ہیں، جو جنازے اٹھتے اور ہزاروں کا مجمع ہوتا تو کیا یہ پاکستان کرتا ہے؟ پاکستان ایسا کبھی نہیں کرسکتا، جب تک لوگوں کی مرضی اور منشا نہ ہوں، ہم چاہیں بھی تو یہ نہیں کرسکتے۔

ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہندوستان اپنے رویے اور اپنی پالیسیز سے کشمیر کو کھو رہا ہے۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز مقبوضہ کشمیر کے علاقے پلوامہ میں دھماکے میں 44 بھارتی فوجی ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے تھے، جس کے بعد بھارتی حکومت اور ذرائع ابلاغ نے بغیر کسی ثبوت کے پاکستان پر الزامات لگانے کا سلسلہ شروع کردیا تھا۔

تاہم پاکستان نے پلوامہ میں ہونے والے حملے کے عناصر کو پاکستان سے جوڑنے کے بھارتی الزام کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر کو دفتر خارجہ طلب کرکے احتجاج ریکارڈ کروایا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں