پاکپتن دربار اراضی کیس: نواز شریف کی جے آئی ٹی رپورٹ مسترد کرنے کی درخواست

اپ ڈیٹ 17 فروری 2019
نواز شریف کے مطابق وزیر اعلیٰ کے دفتر سے جاری ہونے والے نوٹیفکیشن اور محکمہ اوقاف کے جاری کردہ نوٹیفکیشن میں مماثلت نہیں — فائل فوٹو/اے پی پی
نواز شریف کے مطابق وزیر اعلیٰ کے دفتر سے جاری ہونے والے نوٹیفکیشن اور محکمہ اوقاف کے جاری کردہ نوٹیفکیشن میں مماثلت نہیں — فائل فوٹو/اے پی پی

اسلام آباد: سابق وزیر اعظم نواز شریف نے سپریم کورٹ سے پاکپتن میں قائم بابا فرید الدین گنج شکر کے مزار کے ساتھ وقف زمین کی غیر قانونی الاٹمنٹ کے کیس میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی رپورٹ مسترد کرنے کی استدعا کردی۔

جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب سمیت دیگر افراد کے خلاف فوجداری کارروائی کی تجویز دی تھی اور دربار کی زمین کی غیر قانونی منتقلی کا ذمہ دار اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب نواز شریف کو ٹھہراتے ہوئے بتایا تھا کہ انہوں نے ایک ہی دور میں ہجرہ شاہ مقیم اور دربار حافظ جمال کی اراضی بھی غیر قانونی طور پر دی۔

جے آئی ٹی کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ سجادہ نشین قطب الدین نے زمین کی الاٹمنٹ کے لیے وزیر اعلیٰ کو درخواست دی تھی جس میں وقف زمین کا 1969 کا نوٹیفکیشن واپس لینے کی استدعا کی گئی تھی۔

مزید پڑھیں: نواز شریف نے پاکپتن دربار اراضی غیر قانونی طور پر منتقل کی، جے آئی ٹی

حسین اصغر کی سربراہی میں جے آئی ٹی نے 15 جنوری کو سپریم کورٹ میں اپنی رپورٹ جمع کرائی تھی۔

عدالت نے سابق وزیر اعظم اور پنجاب حکومت سے رپورٹ پر رائے طلب کی تھی۔

قبل ازیں 4 دسمبر 2018 کو سابق وزیر اعظم سپریم کورٹ کے سامنے پیش ہوکر مزار کے ساتھ وقف کی 14 ہزار 394 کینال کی زمین کی الاٹمنٹ کے حوالے سے اپنا موقف پیش کیا تھا۔

نواز شریف نے اپنے وکیل ملک محمد رفیق راجوانہ کے ذریعے جے آئی ٹی کی رپورٹ کے جواب میں حسین اصغر پر الزام لگایا کہ انہوں نے اس حقیقت کو نظر انداز کیا ہے کہ وزیر اعلیٰ کے دفتر سے جاری ہونے والے نوٹیفکیشن اور محکمہ اوقاف کے جاری کردہ نوٹیفکیشن میں مماثلت نہیں جبکہ درحقیقت وزیر اعلیٰ ہاؤس سے جاری ہونے والے کسی احکامات یا سمری میں ریفرنس نمبر یا نوٹیفکیشن کی تاریخ جو جے آئی ٹی نے دعویٰ کیا ہے، موجود نہیں۔

یہ بھی پڑھیں: نواز شریف کے خلاف پاکپتن دربار اراضی کیس، جے آئی ٹی کے سربراہ تبدیل

انہوں نے کہا کہ 15 جنوری کو جے آئی ٹی کی رپورٹ عدالت میں جمع کرائی گئی جبکہ ہمیں اس کے 3 روز میں بھی اس کی کاپی فراہم نہیں کی گئی تھی۔

دفاعی کونسل کا کہنا تھا کہ ’ہم نے عدالت کے متعلقہ برانچ (ایڈیٹر آف پیپر بک برانچ) سے رپورٹ کی نقل حاصل کرنے کی متعدد کوششیں کی تاہم ناکام رہے اور انہیں جے آئی ٹی کی رپورٹ 23 جنوری کو دی گئی تھی۔

نواز شریف نے اپنے جواب میں کہا کہ جے آئی ٹی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ پنجاب اوقاف کے منتظم کلیم اللہ کی جانب سے اپنے اعلیٰ عہدیداران کو تجویز پیش کی گئی تھی، وزیر اعلیٰ سیکریٹریٹ نے سمری کو واپس کرکے وضاحت طلب کی تھی جبکہ دیوان غلام قطب الدین کی درخواست جس کی وزیر اعلیٰ سے منظوری کا الزام ہے پر نوٹیفکیشن نمبر اور تاریخ ایک دوسرے سے مماثلت نہیں رکھتے۔

بیان میں کہا گیا کہ جے آئی ٹی رپورٹ نے اس وقت کے وزیر اعلیٰ کی دیوان گروپ سے تعلقات کے شواہد بھی پیش کرنے میں ناکام رہے اور حسین اصغر نے محکمہ اوقاف کی غلطی میں نواز شریف کی ملوث ہونے کے بھی کوئی شواہد نہیں دیے۔

واضح رہے کہ جے آئی ٹی نے عدالت سے نوازشریف، سیکریٹری نواز شریف جاوید اقبال بخاری، سجادہ نشین کے ورثا کے خلاف فوجداری کارروائی کے علاوہ محکمہ اوقاف کے متعلقہ ذمہ داران اور محکمہ مال کے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کی بھی سفارش کی تھی۔


یہ خبر ڈان اخبار میں 17 فروری 2019 کو شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں