پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) سیزن 4 کے دلچسپ اور سنسنی خیز مقابلے متحدہ عرب امارات میں جاری ہیں۔ ٹورنامنٹ میں شریک ٹیمیں کامیابی کے حصول کے لیے سر ڈھڑ کی بازی لگا رہی ہیں۔ اب جبکہ سیزن 4 نصف ختم ہوچکا ہے اس لیے سوچا کہ کیوں نہ ایونٹ کے کامیاب اور ناکام کھلاڑیوں پر کچھ بات کرلی جائے۔

اب تک ٹورنامنٹ میں 15 میچ کھیلے جاچکے ہیں اور ہر ٹیم نے اپنے 5، 5 میچ کھیل لیے ہیں جن میں کوئٹہ گلیڈیئٹرز 4 میچوں میں فتوحات سمیٹ کر پوائنٹس ٹیبل پر سرِ فہرست جبکہ ملتان سلطان صرف ایک میچ جیت کر پوائنٹس ٹیبل پر سب سے نیچے ہیں۔

بیٹسمین 161 مرتبہ گیند کو 6 رنز کے لیے باؤنڈری لائن سے باہر پھینک چکے ہیں۔ یہ کارنامہ 85 مرتبہ غیر ملکی کھلاڑیوں نے جبکہ 76 مرتبہ پاکستان سے تعلق رکھنے والے کھلاڑیوں نے سر انجام دیا۔

پاکستان سپر لیگ کا کمال یہ ہے کہ یہ کھلاڑیوں کو اپنے ٹیلنٹ کو دنیا کے سامنے نمایاں کرنے کا بہترین موقع فراہم کرتی ہے۔ گزشتہ سالوں میں کھیلے گئے پاکستان سپر لیگ کے مقابلوں میں جہاں پاکستان کرکٹ کو بہت سے نئے کھلاڑی ملے وہیں چند پرانے کھلاڑیوں بشمول شرجیل خان، کامران اکمل، عثمان شنواری اور دیگر کو ٹیم میں دوبارہ واپسی کا موقع ملا۔

پی ایس ایل کے چوتھے ایڈیشن میں جہاں چند نوجوان کھلاڑی اپنی کارکردگی کے جوہر دکھا رہے ہیں وہیں آوٹ آف فارم رہنے کی وجہ سے ٹیم سے باہر ہوجانے والے کھلاڑی بھی اپنی کارکردگی کی بدولت ٹیم میں ایک بار پھر جگہ حاصل کرنے کی تگ و دو میں ہیں۔ قارئین کی دلچسپی کے لیے ہم اس ٹورنامنٹ کے کامیاب اور ناکام کھلاڑیوں کا ایک جائزہ پیش کر رہے ہیں

عمر اکمل

عمر اکمل پاکستان کرکٹ کے افق پر ایک روشن ستارے کے طور پر ابھرے۔ انہوں نے نیوزی لینڈ میں 2009ء میں اپنے ٹیسٹ ڈیبیو پر سنچری اسکور کرکے سب کو واضح پیغام دے دیا کہ وہ کتنی صلاحیت رکھتے ہیں۔ عمر اکمل واحد پاکستانی کھلاڑی ہیں جن کو ایشیا سے باہر اپنے اولین ٹیسٹ میچ میں سنچری کا اعزاز حاصل ہے۔

کرکٹ کے تجزیہ کار اور ناقدین اس بات کو مانتے ہیں کہ عمر اکمل بھرپور صلاحیتوں کے حامل کھلاڑی ہیں لیکن گزشتہ چند سالوں میں عمر اکمل درست انداز سے اپنی صلاحیتوں کو ثابت کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ پھر عمر کا مزاج بھی کچھ اس طرح کا رہا جس نے ان کے لیے مستقل پریشانیاں کھڑی کیے رکھیں۔

عمر اکمل پی ایس ایل کے تمام ہی سیزن کا حصہ رہے ہیں۔ گزشتہ 3 سال لاہور قلندرز کی جانب سے کھیلے مگر زیادہ رنز اسکور نہیں کرسکے۔ پھر ٹیم منجمنٹ سے بھی ان کے اختلافات رہے اور یوں لاہور سے ان کا راستہ جدا ہوا اور چوتھے ایڈیشن کے لیے کوئٹہ گلیڈی ایٹرز نے عمر اکمل کو اپنی ٹیم میں شامل کیا۔

ٹیم کا بدلنا تو جیسے ان کے لیے نیک شگون ثابت ہوا کیونکہ اب تک 5 میچوں میں عمر اکمل نے 66.66 کی اوسط سے سب سے زیادہ 200 رنز بناکر حنیف محمد کیپ اپنے سر پر سجا رکھی ہے۔ یہ رنز انہوں نے 136.98 کے اسٹرائیک ریٹ سے حاصل کئے ہیں۔

عمر اکمل ایونٹ میں اب تک سب سے زیادہ 10 چھکے لگانے والے پاکستانی کھلاڑی بھی ہیں۔ اس کارکردگی کے بعد یہ بات کہی جارہی ہے کہ اگر عمر اکمل کی کارکردگی اس تسلسل کے ساتھ جاری رہی تو ممکن ہے کہ انہیں واپس قومی ٹیم کے لیے بلا لیا جائے۔

عمر اکمل کے لئے میرا مشورہ یہ ہے کہ اگر وہ قومی ٹیم میں واپس آنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو ان کو چاہیئے کہ وہ اپنی ماضی کی غلطیوں سے سیکھیں۔ کرکٹ کے کھیل میں ایک اصطلاح ہے Let the bat do the talking۔ عمر کو بھی چاہیئے کہ وہ مستقبل میں اپنے قدم زمین پر رکھیں اور اپنے ناقدین کو اپنی زبان کے بجائے اپنی کارکردگی سے جواب دیں۔

حسن علی

پشاور زلمی کی دریافت حسن علی مسلسل اپنا چوتھا سیزن زلمی کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔ حسن علی وہ کھلاڑی ہیں جنہوں نے بہت ہی مختصر عرصے میں قومی ٹیم میں مستقل جگہ بنائی۔ پاکستان سپر لیگ کے حالیہ مقابلوں میں بھی حسن علی اپنی شاندار باؤلنگ کے باعث مخالفین کے لئے دردِ سر بنے ہوئے ہیں۔

حسن علی اب تک صرف 5 میچوں میں 15 وکٹیں حاصل کرچکے ہیں جس میں 3 مرتبہ اننگز میں 4 وکٹیں لینے کا کارنامہ بھی شامل ہے۔ حسن علی نے اپنی وکٹیں 7.06 کی ناقابلِ یقین اوسط سے حاصل کی ہیں۔ گزشتہ سال فہیم اشرف 18 وکٹیں لے کر سب سے زیادہ وکٹیں لینے والے باؤلر بنے تھے، مگر لگتا ہے کہ اس سال حسن علی اس تعداد سے کہیں زیادہ وکٹیں لے کر ٹورنامنٹ میں سب سے زیادہ وکٹیں لینے والے باؤلر بنیں گے۔

یہ بات ہم سبھی جانتے ہیں کہ مختصر فارمیٹ کی کرکٹ میں مخالف ٹیم کو کم اسکور تک محدود کرنے کے لیے وکٹوں کا حصول ضروری ہوتا ہے اور حسن اس مد میں اپنی ٹیم کے لئے بہترین کردار ادا کر رہے ہیں۔ اب تک حسن علی کی عمدہ باؤلنگ کے سامنے مخالفین ریت کی دیوار ثابت ہوئے ہیں۔ اگر ان کی یہی کارکردگی جاری رہی تو پشاور زلمی کو دوسری مرتبہ پاکستان سپر لیگ کا چیمپئن بننے سے روکنا بہت مشکل ہوگا۔

کولن انگرام

جنوبی افریقہ سے تعلق رکھنے والے کولن انگرام پاکستان سپر لیگ میں کراچی کنگز کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ کولن انگرام نے ٹورنامنٹ کا آغاز سُست روی سے کیا اور خیال کیا جارہا تھا کہ شاید انہیں ٹیم سے ڈراپ کردیا جائے، لیکن حیران کن طور پر اس ٹورنامنٹ کے 15ویں میچ میں انہوں نے ایسی شاندار اننگز کھیلی جس نے ان کی ٹیم کی یقینی شکست کو فتح میں بدل دیا۔

187 رنز کے ہدف کے جواب میں جب کراچی کے محض 4 رنز پر 2 کھلاڑی آوٹ ہوئے تو کراچی کی شکست یقینی نظر آرہی تھی مگر انگرام نے صرف 59 گیندوں پر 12 چوکوں اور 8 چھکوں کی بدولت پی ایس ایل کی سب سے بڑی اننگ کھیلی اور 127 رنز بناکر کراچی کو کسی حد تک مشکل سے نکال دیا۔

ایک اور ریکارڈ یہ کہ انگرام سے پہلے کسی بھی غیر ملکی کھلاڑی نے سنچری اسکور نہیں کی تھی۔ کولن انگرام ٹی ٹوئنٹی فارمیٹ کے ایک تجربہ کار کھلاڑی ہیں۔ ایک ایسے کھلاڑی جن کو سیٹ ہونے کے لئے کچھ وقت درکار ہوتا ہے۔ لہٰذا کراچی کی ٹیم اگر کولن انگرام سے فائدہ اٹھانا چاہتی ہے تو انگرام کو نمبر 3 پر بیٹنگ کروانی چاہیے۔ کیونکہ اگر انگرام اگلے میچوں میں بھی وہ اسی فارم کو جاری رکھتے ہیں اور بابر اعظم، کولن منرو، لیام لوِنگسٹن اور بین ڈنک ان کا ساتھ دے دیتے ہیں تو پھر کراچی کنگز کے لئے اپنے ہوم گراؤنڈ یعنی نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں ٹورنامنٹ کا فائنل کھیلنے کی امید روشن ہوجائے گی۔

یہ تو بات ہوگئی ان کھلاڑیوں کی جنہوں نے اپنی زبردست کارکردگی سے سب کو حیران کردیا، لیکن کچھ کھلاڑی ایسے بھی ہیں جن سے امیدیں تو بہت تھیں مگر انہوں نے سب کو مایوس کیا۔

ایسے ہی جند کھلاڑیوں کی کارکردگی کا جائزہ پیش ہے

عماد وسیم

کراچی کنگز کے کپتان عماد وسیم کی کارکردگی ابھی تک تمام ہی شعبوں نے غیر تسلی بخش رہی ہے۔ عماد نے باؤلنگ کے شعبے میں رنز تو بہت کم دیے ہیں لیکن وہ بہت زیادہ وکٹیں حاصل نہیں کرسکیں ہیں۔ اب تک 5 میچوں میں انہوں نے صرف 3 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا ہے۔ بیٹنگ کے شعبے میں بھی عماد کی کارکردگی غیر تسلی بخش رہی ہے اور انہوں نے 4 اننگز میں صرف 47 رنز ہی بنائے ہیں۔

بیٹنگ اور باؤلنگ کے شعبے کی ناکامی کے ساتھ ساتھ عماد وسیم کی کپتانی نے بھی مایوس کیا ہے۔ عماد کی کپتانی کا سب سے خراب پہلو میری نظر میں یہ ہے کہ وہ نوجوان اسپنر عمر خان کو درست طریقے سے استعمال نہیں کر رہے۔ عمر خان اس ٹورنامنٹ میں دنیائے کرکٹ کے 2 نامور کھلاڑیوں اے بی ڈیولیئرز اور شین واٹسن کو آؤٹ کرچکے ہیں، لیکن اس کے باوجود وہ کپتان کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو رہے۔

ملتان سلطان اور کوئٹہ کے خلاف عمر نے صرف 2 اوور کیے جبکہ پشاور زلمی کے خلاف تو کپتان ان کو باؤلنگ دینا ہی بھول گئے۔ دوسری طرف عماد وسیم جو قومی ٹیم کے لیے مختصر فارمیٹ کی کرکٹ میں باؤلنگ کا آغاز کرتے ہیں وہ اس ٹورنامنٹ میں خود ابتدائی اوورز نہیں کروا رہے۔ کراچی کنگز کے تھنک ٹینک میں وسیم اکرم اور مکی آرتھر جیسے تجربہ کار افراد موجود ہیں۔ امید ہے کہ یہ افراد عماد کی غلطیوں کی نشاند ہی کریں گے اور عماد کو اعتماد دیں گے تاکہ وہ میدان میں دلیرانہ انداز سے لڑ سکے۔

شاداب خان

پاکستان کے نوجوان لیگ اسپنر شاداب خان بھی اب تک ٹورنامنٹ کے ابتدائی میچوں میں بجھے بجھے نظر آئے ہیں۔ انہوں نے 5 میچوں میں صرف 4 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا جبکہ بیٹنگ کے شعبے میں وہ 3 اننگز میں صرف 21 رنز ہی بنا سکے ہیں۔

چونکہ اسلام آباد یونائیٹڈ کی کارکردگی اب تک اچھی رہی ہے اس لیے شاداب کی غیر تسلی بخش کارکردگی کا ٹیم کو نقصان نہیں ہوا ہے، لیکن جیسے جیسے ٹورنامنٹ آگے بڑھے گا، اسلام آباد کو اس کا نقصان ہوسکتا ہے۔

شاداب خان پر جو ایک اعتراض ہو رہا ہے وہ یہ ہے کہ وہ گیند کو فلائٹ کرنے کے بجائے تیز رفتار سے پھینکنے کی کوشش کررہے ہیں۔ قومی ٹیم کو عالمی کپ میں اور اس سے پہلے کھیلے جانے والی آسٹریلیا کے خلاف ایک روزہ میچوں کی سیریز کے لیے شاداب خان سے اچھی کارکردگی کی ضرورت ہوگی۔ امید ہے کہ شاداب خان جلد ہی بلے اور گیند کے ساتھ اپنی کھوئی ہوئے فارم دوبارہ حاصل کرکے اسلام آباد یونائیٹڈ کے ساتھ ساتھ قومی ٹیم کی کامیابی میں بھی کلیدی کردار ادا کریں گے۔

کامران اکمل

پاکستان سپر لیگ کی تاریخ میں سب سے زیادہ رنز بنانے کا اعزاز کامران اکمل کو حاصل ہے۔ انہوں نے پاکستان سپر لیگ کے پہلے 3 سیزنز میں مجموعی طور پر 929 رنز بنائے ہیں۔ کامران اکمل نے جب ٹورنامنٹ کے اپنے پہلے میچ میں 49 رنز کی اننگز کھیلی تو ایسا لگ رہا تھا کہ وہ جلد ہی پاکستان سپر لیگ کی تاریخ میں ایک ہزار رنز مکمل کرنے والے پہلے کھلاڑی بن جائیں گے لیکن ایسا نہیں ہوسکا کیونکہ کامران اکمل پہلے میچ کے بعد اپنی فارم کہیں کھو بیٹھے اور انہوں نے اس اولین میچ کے بعد کھیلے گئے 4 میچوں میں صرف 11 رنز ہی اسکور کئے۔

کامران اکمل 2017ء میں پاکستان سپر لیگ میں اچھی کارکردگی دکھانے کی وجہ سے قومی ٹیم میں واپس آنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ پاکستان کی ٹیم کی لڑکھڑاتی بیٹنگ کے تناظر میں ایک مرتبہ پھر یہ خیال کیا جا رہا تھا کہ کامران اکمل اپنی کارکردگی سے ٹیم میں ایک بیٹسمین کے طور پر جگہ بنالیں گے لیکن اب تک کھیلے جانے والے میچوں میں کامران اکمل کی کارکردگی غیر تسلی بخش رہی ہے۔

ویسے کامران اکمل کا ایک خاصا یہ بھی ہے کہ وہ اختتامی مقابلوں میں بڑی اننگز کھیلتے ہیں۔ ایسا ہی کچھ انہوں نے گزشتہ سال کراچی کنگز کے خلاف eliminator میں سنچری بنا کر کیا تھا۔ ابھی کامران اکمل کے پاس کم از کم 6 یا 7 میچ باقی ہیں۔ امید ہے کہ کامران جلد ہی پاکستان سپر لیگ کی تاریخ میں ایک ہزار رنز بنانے والے پہلے کھلاڑی بننے کے ساتھ ساتھ اپنی کھوئی ہوئے فارم بھی دوبارہ بحال کرلیں گے۔

پی ایس ایل کے دلچسپ اور سنسنی خیز مقابلے 10 دن بعد پاکستان منتقل ہوجائیں گے۔ پاکستان میں موجود شائقین کو اپنے پسندیدہ کھلاڑیوں کو اپنے سامنے کھیلتے دیکھنے کا شدت سے انتظار ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ اس سیزن کو اصل مقام انہی 8 میچوں میں ملے گا تو شاید یہ غلط نہیں ہوگا۔

تبصرے (0) بند ہیں