4 سال قبل جب پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کا آغاز ہوا تو توقعات صفر تھیں اور امتحان بہت بڑا، لیکن چوتھے سیزن کی شروعات بہت زیادہ امیدوں کے ساتھ ہوئی اور درحقیقت بوجھ بہت زیادہ، ایک تو ’نئے پاکستان‘ کی وجہ سے اور دوسرا 3 سال کی کامیابیوں کی بدولت۔ پھر ’سر منڈاتے ہی اولے پڑے‘ کے مصداق ایک، ایک کرکے مصیبتیں ٹوٹنا شروع ہوگئیں۔

دنیائے کرکٹ کی 10 میں سے 8 ٹیمیں انہی ایام میں مصروف تھیں کہ جن میں پی ایس ایل 4 طے شدہ تھی، یعنی بیشتر کھلاڑیوں کی عدم دستیابی کا غم سہنا پڑا۔ نہ عمران طاہر نظر آئے، نہ ایلکس ہیلز، ایون مورگن، جیسن روئے، سیم بلنگز، نہ تھیسارا پیریرا، نہ راشد خان، نہ تمیم اقبال، شکیب الحسن اور نہ ہی جیسن ہولڈر۔ اس کے بعد جو کمی رہ گئی تھی وہ مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے پلوامہ حملے نے پوری کردی جس کا نتیجہ پاک-بھارت تعلقات میں تناؤ کی صورت میں نکلا اور یہ اتنا بڑھ گیا کہ بھارتی براڈکاسٹر نے ابتدائی دنوں میں ہی پی ایس ایل کی کوریج سے ہاتھ کھینچ لیے۔

یہ بہت نازک مرحلہ تھا کیونکہ اب نشریات کے ساتھ ساتھ لیگ کی ساکھ داؤ پر لگ گئی تھی۔ یہاں انتظامیہ بہت ذمہ داری اور خوبی کے ساتھ اس مصیبت سے نکلی اور صرف 2 دن میں بہترین متبادل انتظام کیا، وہ بھی ویسا ہی جدید ترین یعنی پرانی اور نئی براڈکاسٹنگ کمپنی کی نشریات میں ذرا فرق دکھائی نہ دیا۔

پھر جیسے جیسے لیگ کے مقابلے اہم ترین مرحلے میں داخل ہوتے گئے، پاک-بھارت کشیدگی بھی بڑھتے بڑھتے سرحدی حملوں تک پہنچ گئی۔ پاکستان کی سرحدی حدود کی خلاف ورزی کرکے یہاں بمباری کرنے سے لے کر پاکستان کی جوابی دفاعی کارروائی، بھارتی لڑاکا طیارے کی تباہی اور اس کے پائلٹ کی گرفتاری، رہائی اور اس کے بعد جنگی صورت حال نے سب کو پریشان کردیا لیکن اس سارے ہنگامے سب سے دُور متحدہ عرب امارات کے میدانوں پر پی ایس ایل 4 کے میچز جاری رہے اور کیا کمال کے میچز دیکھنے کو ملے۔

اب امارات میں ہونے والا مرحلہ اپنے اختتام کو پہنچ چکا ہے اور پہلی بار پاکستان میں 8 میچز کھیلے جائیں گے۔ سرحدی حالات کشیدہ ہونے کی وجہ سے لاہور میں ہونے والے میچز بھی کراچی منتقل کردیے گئے ہیں۔ پہلے مرحلے کے آخری 4 مقابلے اور ان کے بعد پلے آف اور فائنل میچز کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم میں ہوں گے جو تزئین و آرائش کے بعد اپنے نئے رنگ و روپ میں ان مقابلوں کی میزبانی کے لیے مکمل طور پر تیار ہے۔

اس بار بھی کوئٹہ گلیڈی ایٹرز اور پشاور زلمی سب سے پہلے پلے آف مرحلے تک پہنچے ہیں اور 3 ٹیمیں دفاعی چیمپئن اسلام آباد یونائیٹڈ، کراچی کنگز اور لاہور قلندرز کی دوڑ اب بھی جاری ہے۔ ان 3 میں سے ایک ٹیم باہر ہوگی اور وہ ملتان سلطانز کی طرح تماشائی بن کے میچز دیکھے گی۔

ویسے تمام تر کشیدہ اور سنگین حالات کے باوجود ہمیں پی ایس ایل جنون میں کوئی کمی نظر نہیں آئی۔ اتنے ہی شاندار میچز ہوئے جتنے ہوتے ہیں اور ہونے چاہئیں۔ یہی وجہ ہے کہ کراچی میں ہونے والے پہلے مرحلے کے آخری چاروں میچز میں سخت مقابلہ دیکھنے کی امید ہے۔

سلطانز بمقابلہ قلندرز

متحدہ عرب امارات میں ہونے والے مرحلے کی کئی یادیں ایسی ہیں جو کافی عرصے تک برقرار رہیں گی جیسا کہ ملتان سلطانز کے خلاف لاہور قلندرز کا 201 رنز کا ہدف حاصل کرنا۔ صرف ایک دن پہلے 78 رنز پر آل آؤٹ ہونے والے قلندرز نے اس میچ میں اے بی ڈی ویلیئرز اور ڈیوڈ ویزے کی ناقابلِ یقین کارکردگی کی بدولت کامیابی حاصل کی۔ جب 43 گیندوں پر 93 رنز کی ضرورت تھی تو انہی دونوں نے میدان سنبھالا اور آخری گیند پر ویزے کے چھکے کے ذریعے کامیابی حاصل کی۔

یونائیٹڈ بمقابلہ زلمی

اسی دن ہم نے اسلام آباد یونائیٹڈ کو پشاور زلمی پر قابو پاتے ہوئے دیکھا۔ ایک مرتبہ کیرون پولارڈ کی دھواں دار اننگز کے سامنے بند باندھنے کے بعد یونائیٹڈ کے باؤلرز مقابلے پر چھا گئے۔ آخری اوور میں محمد سمیع کی ہیٹ ٹرک کے ذریعے یونائیٹڈ نے میچ کا خاتمہ کردیا۔

گلیڈی ایٹرز بمقابلہ قلندرز

یہی نہیں اگلے دن کوئٹہ نے لاہور قلندرز کے خلاف وہی کیا، جو پچھلے دن اس نے ملتان کے مقابلے میں کیا تھا، یعنی آخری گیند پر چھکا! اس مرتبہ ہیرو تھے سرفراز احمد۔ صرف 144 رنز کے تعاقب میں کوئٹہ کو کافی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا یہاں تک کہ اس کی 5 وکٹیں صرف 81 رنز پر گرگئیں۔ یہاں سرفراز احمد نے میدان سنبھالا اور قسمت کے بل بوتے پر چلتے چلے گئے یہاں تک کہ آخری گیند پر چھکا لگا کر میچ کا فیصلہ کردیا۔ یہ چھکا انہی ڈیوڈ ویزے کو لگا جنہوں نے پچھلے دن چھکا لگا کر میچ جیتا تھا۔

قلندرز بمقابلہ کنگز

کوئٹہ لاہور سے تو بچ گیا لیکن حیران کن طور پر کراچی سے نہیں بچ پایا، وہ بھی 186 رنز بنانے کے باوجود۔ یہ بہت شاندار مقابلہ تھا کہ جس میں کراچی 187 رنز کے تعاقب میں صرف 4 رنز پر 2 وکٹوں سے محروم ہوچکا تھا۔ تب کولن انگرام نے میدان سنبھالا اور ایسی باری کھیلی جسے ہم پی ایس ایل 4 کی سب سے شاندار اننگز کہہ سکتے ہیں۔ 59 گیندوں پر 12 چوکوں اور 8 چھکوں کی مدد سے ناٹ آؤٹ 127 رنز۔ یہ مکمل طور پر وَن مین شو تھا کیونکہ دوسرے اینڈ سے کسی بیٹسمین نے 20 رنز بھی نہیں بنائے۔

گلیڈی ایٹرز بمقابلہ قلندرز

کوئٹہ پہلی بار تو بچ گیا لیکن دوسری مرتبہ لاہوریوں کے ہتھے چڑھ گیا اور اس بار صرف 106 رنز پر ڈھیر ہوا۔ لاہور نے باآسانی یہ مقابلہ جیتا لیکن لاہور کی کامیابی سے زیادہ حیرانی کی بات یہ ہے کہ پورے سیزن میں اب تک کوئٹہ نے 9 میں سے صرف 2 میچز ہارے ہیں اور دونوں ان ٹیموں سے جو پوائنٹس ٹیبل پر نیچے نیچے رہیں، یعنی کراچی اور لاہور سے۔

یونائیٹڈ بمقابلہ زلمی

ایک اور دلچسپ مقابلہ اسلام آباد اور پشاور زلمی کا تھا کہ جہاں آل راؤنڈر لیام ڈاسن نے آخری گیند پر پشاور کی نیّا پار لگائی۔ 177 رنز کا ہدف معمولی نہیں تھا، وہ بھی اس وقت جب سامنے اسلام آباد کا باؤلنگ اٹیک ہو۔ 84 رنز پر پانچ آؤٹ ہو جائیں تو اچھی بھلی ٹیم کا دم نکل جاتا ہے تب لیام ڈاسن اور کپتان ڈیرن سیمی نے میدان سنبھالا اور چھٹی وکٹ پر 89 رنز کا اضافہ کیا یہاں تک کہ معاملہ آخری گیند تک پہنچ گیا۔ آخری 3 گیندوں پر 10 رنز درکار تھے جو گھٹتے گھٹتے آخری گیند پر 4 رنز رہ گئے۔ یہاں ڈاسن نے محمد سمیع کو چوکا رسید کرکے میچ کا فیصلہ کیا، انہی سمیع کے خلاف جنہوں نے آخری پشاور-اسلام آباد مقابلے میں آخری 3 گیندوں پر ہیٹ ٹرک کی تھی۔ یعنی بدلہ لیا، پورے کا پورا!

قلندرز بمقابلہ زلمی

گزشتہ روز لاہور قلندرز اور پشاور زلمی کا مقابلہ بھی ایسا ہی دلچسپ تھا۔ اس میں رنز تو زیادہ نہیں بنے لیکن یہ ’لو-اسکورنگ تھرلر‘ تھا۔ لاہور پہلے کھیلتے ہوئے صرف 124 رنز بنا پایا۔ لگ تو یوں رہا تھا جیسے پشاور باآسانی جیت جائے گا لیکن یہ کیا؟ صرف 20 رنز پر پشاور کی 5 وکٹیں گرگئیں۔ لاہور کی کامیابی اب یقینی تھی لیکن راہ میں حائل ہوگئے مصباح الحق اور ڈیرن سیمی۔ مصباح نے سیزن میں محض دوسرا میچ کھیلا تھا اور ایک مرتبہ پھر ثابت کیا کہ وہ ’مردِ بحران‘ ہیں۔ ایک اینڈ سے جہاں سیمی نے 36 گیندوں پر 46 رنز بنائے وہیں مصباح نے 55 گیندوں پر 59 رنز کی ناقابلِ شکست اننگز کھیلی اور آخری اوور میں میچ کا فیصلہ کیا۔ اس کارکردگی پر نہ صرف انہیں میچ کے بہترین کھلاڑی کا اعزاز ملا بلکہ پورے زلمی اسکواڈ کی جانب سے شاندار سلیوٹ بھی۔

پہلے مرحلے آخر چند اہم ترین مقابلے

اب پہلے مرحلے میں کراچی اور لاہور کے 2، 2 میچز باقی ہیں۔ لاہور کو اسلام آباد یونائیٹڈ اور ملتان سلطانز کا مقابلہ کرنا ہے جبکہ کراچی کا امتحان بہت بڑا ہے کہ جس کے آخری دونوں میچز مضبوط ترین ٹیموں کوئٹہ اور پشاور کے خلاف ہیں۔ لیکن یاد رکھیں کہ کراچی کے پوائنٹس لاہور سے زیادہ ہیں جس نے 8 میچز میں 8 پوائنٹس سمیٹے ہیں جبکہ لاہور کے اتنے ہی مقابلوں میں صرف 6 پوائنٹس ہیں۔ اسلام آباد کا صرف ایک میچ باقی ہے اور اس نے 8 پوائنٹس حاصل کر رکھے ہیں یعنی کہ ان تینوں کے درمیان زبردست رسہ کشی دیکھنے کو ملے گی۔

امارات میں چاہے جتنے شاندار میچز ہوئے لیکن حقیقت یہ ہے کہ جو ماحول ہمیں نیشنل اسٹیڈیم میں دیکھنے کو مل سکتا ہے، وہ شاید کہیں نہیں ہوگا۔ افسوس اس بات کا ہے کہ پاک-بھارت کشیدگی کی وجہ سے اس مرتبہ لاہور میزبانی سے محروم رہے گا، لیکن امید ہے کہ لاہور قلندرز اپنی کارکردگی سے لاہوریوں کو خوش کردیں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں