راجن پور تم خوش رہو، آباد رہو

راجن پور تم خوش رہو، آباد رہو

رمضان رفیق

2019ء کے میرے پاکستان کے سفر کی پہلی سیاحتی منزل ’راجن پور‘ ہے، جسے صوبہ پنجاب کا آخری کنارہ بھی کہا جاسکتا ہے۔ میرا ماننا ہے کہ شہر بھی لوگوں کی طرح ہوتے ہیں، جو دیکھنے میں ایک ہی جیسے دکھائی دیتی ہیں، جیسی انسانوں کی آنکھیں، ناک اور کان ویسے ہی شہروں کے چوک، چوراہے اور راستے، لیکن ان میں ڈھونڈنے والوں کو انفرادیت کا احساس اپنی اپنی بساط کے مطابق ہوتا ہے۔

زندگی کے اتنے سالوں میں کبھی ملتان سے آگے کا سفر نہیں کیا، اب جبکہ دنیا کے 2 درجن سے زائد ممالک دیکھ چکا ہوں تو میرے دیس کے ان شہروں کا بھی حق ہے کہ میں ان کی گلیوں کا بھی حق ادا کروں۔ میرے ایف ایس سی کے روم میٹ فرحان اور حسن بھی اسی علاقے سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کی زبانی جو تصویر میرے ذہن میں بنی تھی وہ ایک اجڑے شہر اور پسماندہ سے علاقے کی تھی، لیکن آج کا راجن پور 22 سال پہلے کے راجن پور سے بہت مختلف تھا۔

رات گئے جب ہم ملتان سے راجن پور کے لیے نکلے تو ایک خوشگوار حیرت دامن گیر ہوئی۔ تقریباً سارا راستہ ہی ہموار اور کشادہ تھا۔ اس شہر میں میری میزبانی کے فرائض ہمارے یونیورسٹی کے دوست اور ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر راجن پور نے سرانجام دیے، بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ انہی کی وجہ سے میں یہ شہر دیکھنے چلا آیا تھا۔

آفیسرز کالونی سے ملحقہ ایک چھوٹے سے پارک سے میں نے شہر دیکھنے کا آغاز کیا۔ یہ ایک چھوٹا سا پارک تھا، دیکھنے سے لگتا تھا کہ جیسے ابھی نیا ہی بنا ہے، کیونکہ سب جھولے اور بنچ سلامت تھے، وگرنہ اتنی دُور کے اضلاع اور شہروں کے پارک صحرا کو دیکھ کر گھر یاد آیا کی تصویر نظر آتے ہیں۔ ساڑھے 10 یا 11 بجے کے اس وقت میں کوئی 15 سے 20 افراد ہی اس پورے پارک میں موجود تھے، جن میں اکثریت طالب علموں کی تھی جو 2، 2 اور 3، 3 کی ٹولیاں بنا کر پڑھائی میں مصروف تھے۔

راجن پور کا فخر جہاں پارک—تصویر رمضان رفیق
راجن پور کا فخر جہاں پارک—تصویر رمضان رفیق

راجن پور کا پارک—تصویر رمضان رفیق
راجن پور کا پارک—تصویر رمضان رفیق

راجن پور کی ایک مصروف سڑک—تصویر رمضان رفیق
راجن پور کی ایک مصروف سڑک—تصویر رمضان رفیق

راجن پور کا پارک—تصویر رمضان رفیق
راجن پور کا پارک—تصویر رمضان رفیق

اس علاقے سے آنے والے طالب علم کتنے محنتی ہوتے ہیں یہ میں ایف ایس سی کے زمانے میں دیکھ چکا تھا۔ اگر طالب علموں کو ابتدا سے ہی مساوی سہولیات و مواقع دستیاب ہوں اور محنت کو کسوٹی مان لیا جائے تو ان دُور دراز کے علاقوں کے طالب علم اس دوڑ میں کسی کو پاس بھی بھٹکنے تک نہ دیں۔

پارک سے نکل کر میں سامنے لائبریری والے چوک کی طرف چلا آیا۔ یہ وہی سڑک ہے جس پر راجن پور کا سول ہسپتال، کچہری اور بازار آتا ہے۔ سڑک پر زندگی اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ رواں دواں تھی، بے ترتیب لائنوں میں لیکن چلتی ہوئی گاڑیاں، شور مچاتے چنگ چی رکشے، ٹیں ٹیں کی آوازیں دیتے ہوئے موٹر سائیکل، کہیں کہیں کوئی سائیکل والا، ریڑھی بان، لوڈر رکشے، ہر طرح کا ٹریفک اپنی اپنی منزل کے راستے پر گامزن تھا، اور میں یورپ کے کسی بھی شہر کے تصور سے اس تصویر کو ملا رہا تھا، ہاں یہاں بس سڑک میں ایک قطار کی کمی تھی، ہارن کی آوازیں مائنس کردی جائیں تو شاید تصویر میں کچھ جان پڑے۔ اچانک میرا دھیان فٹ پاتھ کی صفائی کی طرف گیا، کیونکہ وہ اتنا صاف تھا کہ حیرت ہوئی، اتنا صاف تو مجھے ملتان بھی نہیں لگا تھا۔

شہر میں میرا تجسس اور بڑھنے لگا۔ سول ہسپتال کے دروازے کے سامنے کھڑے سپاہی نے میرے ہاتھ میں کیمرا دیکھا تو وہ نہ صرف مسکرایا بلکہ آگے بڑھ کر ہاتھ بھی ملایا اور پوچھا کہ کون سے میڈیا ادارے کی طرف سے آئے ہیں؟ میں نے کہا بس اپنے لیے ہی لکھتا ہوں، اس کے سوال میں اپنا پن تھا اور ایک طرح کا خوش آمدید کا پیغام تھا۔ سامنے ہی ایک گنڈیریاں بیچنے والا مجھے دیکھ کر مسکراہٹ نچھاور کررہا تھا۔ یہیں چند قدموں پر ایک چوک تھا جس میں ایک ڈولفن کا مجسمہ نصب کیا گیا تھا، اس سے چند قدم آگے مقامی کچہری اور کورٹس کا دروازہ تھا، جہاں پر معلوماتی بورڈ پر الیکشن کے امیدواروں کے اشتہارات کا قبضہ تھا۔

چوک پر ایستادہ ڈولفن کا مجسمہ—تصویر رمضان رفیق
چوک پر ایستادہ ڈولفن کا مجسمہ—تصویر رمضان رفیق

کچہری کا داخلی دروازہ—تصویر رمضان رفیق
کچہری کا داخلی دروازہ—تصویر رمضان رفیق

فٹ پاتھ کی صفائی ملاحظہ ہو—تصویر رمضان رفیق
فٹ پاتھ کی صفائی ملاحظہ ہو—تصویر رمضان رفیق

یورپ بھر میں ایک خاص منظور شدہ معیارات کے حامل انتخابی اشتہارات لگائے جاتے ہیں، الیکشن ختم ہونے کے بعد محدود دنوں کے اندر اندر ہر سیاسی جماعت کے متعلقہ نمائندے کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنے بینر لازمی طور پر اتروائے گا، اگر پاکستان میں بھی اس اصول کی پیروی کی جائے تو شہروں میں آدھے اشتہارات کم ہوجائیں۔

اس سڑک پر کچھ آگے چلیں تو بائیں جانب بازار واقع ہے۔ یہ بازار یہاں کی واکنگ اسٹریٹ ہی سمجھیے کیونکہ اس میں گاڑی کا داخلہ منع ہے، لیکن موٹر سائیکل اور سائیکل سوار نظر آ رہے تھے۔

بازار میں داخل ہوتے ہی بیروں والی ایک ریڑھی پر میری نظر پڑی۔ میں نے بیر فروش سے ایک تصویر بنانے کی اجازت چاہی اور اس نے خوشدلی سے اجازت دے دی۔ بازار کی گہما گہمی اپنے عروج پر تھی، کہیں کہیں سے سامان بیچنے والوں کی آوازیں بلند ہو رہی تھیں، لیکن عمومی طور پر دکاندار خاموش مسکراہٹ سے گاہکوں کے منتظر تھے۔

ایک بیر فروش—تصویر رمضان رفیق
ایک بیر فروش—تصویر رمضان رفیق

یہاں بیر کی مختلف اقسام پائی جاتی ہیں—تصویر رمضان رفیق
یہاں بیر کی مختلف اقسام پائی جاتی ہیں—تصویر رمضان رفیق

اس بازار میں میرے لیے خاص کشش کا باعث بلوچ ڈریس کوڈ اور مخروطی ٹوپی والے برقعے تھے۔ اس طرز کا لباس عام طور پر آپ کو پنجاب کے علاقوں میں نظر نہیں آتا لیکن پنجاب کی سرحد اور بلوچ قبائل کے اس علاقے میں رہنے کی وجہ سے یہاں کئی ایک کلچر کی نمائندگی کرتے لوگ چلتے پھرتے نظر آتے ہیں۔

اہلِ بازار کا رویہ قابلِ تعریف تھا، مجھے تصاویر بنانے میں کوئی دشواری نہیں ہوئی۔ میں نے جان بوجھ کر خواتین کی تصاویر بنانے سے احتراز کیا، کیونکہ پردے کی عزت اور لوگوں کی پرائیویسی کی قدر مجھے سب سے زیادہ عزیز تھی۔ ایک موچی اپنے کام میں مگن تھا، اس نے ایک والہانہ مسکراہٹ سے میرا استقبال کیا۔ ایک قدم کے فاصلے پر ایک سبزی فروش سہانجنے کے پھول بھی بیچ رہا تھا، کسی یورپی ملک کی سبزی کی دکان پر اس سبزی کا نشان کم کم ہی ملتا ہے، اس لیے میں پہلی نظر میں اس کو پہچان ہی نہیں پایا۔

سہانجنے کے پھول بطور سبزی استعمال کیے جاتے ہیں—تصویر رمضان رفیق
سہانجنے کے پھول بطور سبزی استعمال کیے جاتے ہیں—تصویر رمضان رفیق

اپنے کام میں مگن ایک موچی—تصویر رمضان رفیق
اپنے کام میں مگن ایک موچی—تصویر رمضان رفیق

دکاندار سے استفسار کیا تو اس نے بتایا کہ یہ سہانجنا ہے، سامنے ایک کھیرے بیچنے والے نے اپنی ریڑھی کو شاندار انداز میں سجا رکھا تھا۔ ایک طرف ایک شخص کھلے بسکٹ بیچ رہا تھا، مجھے اس کے اس طرح کھلے بسکٹ بیچنے پر اعتراض تھا کیونکہ یہاں پر دھول، مٹی اور مکھیاں ان بسکٹس کا معیار خراب کردیتی ہوں گی۔ میں نے اس سے پوچھا کہ تم کتنے بسکٹ روز بیچتے ہو، کہنے لگا کہ 4 سے 5 پیٹی بسکٹ بک جاتے ہیں، جس سے مجھے اندازہ ہوا کہ یہاں ماٹھی کوالٹی کے بہت خریدار موجود ہیں۔

چند قدم آگے ایک آواز نے میرا دامن تھاما کہ ایک کلک اس طرف بھی۔ سامنے فروٹ کی ریڑھی پر 2 نوجوان میری طرف دیکھ کر مسکرا رہے تھے۔ میں نے فوراً ان کی تصاویر لے لیں۔ اسی بہانے ان سے بات چیت کا موقع بھی ملا۔ کہنے لگے کہ راجن پور بہت پُرسکون شہر ہے، یہاں جرائم کی وارداتیں نہ ہونے کے برابر ہیں، بازار کے لوگ بہت اچھے ہیں، یہاں کوئی کسی پر حملہ نہیں کرسکتا نہ ہی ایذا پہنچا سکتا ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں لوگ بیچ میں آکر لڑائی کرنے والے کا ہاتھ روک دیتے ہیں۔ اتنے میں ایک دو اور دکاندار بھی اس گفتگو میں شریک ہوگئے اور راجن پور کے امن اور بھائی چارے کے تعریفی جملے کہنے لگے، ان کی باتوں سے زیادہ مجھے اس چیز کی خوشی تھی کہ وہ مجھے والہانہ انداز میں اپنی سوچوں میں شریک کر رہے تھے۔

’ایک کلک اس طرف بھی‘—تصویر رمضان رفیق
’ایک کلک اس طرف بھی‘—تصویر رمضان رفیق

کھلے بسکٹ بیچے جا رہے ہیں—تصویر رمضان رفیق
کھلے بسکٹ بیچے جا رہے ہیں—تصویر رمضان رفیق

کھیرے والا—تصویر رمضان رفیق
کھیرے والا—تصویر رمضان رفیق

میں اس بازار میں سیدھا ہی چلتا چلا آیا، حتیٰ کہ بازار کی چوڑائی اور بھی کم ہوگئی اور یہ بازار عام بازار سے ہٹ کر کپڑوں اور میناری طرز کی دکانوں کے سلسلے پر مشتمل ہوگیا۔ اس حصے میں خواتین کی خاصی تعداد تھی، اس لیے میں نے یہاں تصاویر بنانا ٹھیک نہیں سمجھا۔ میں اپنے خیالوں میں مگن دکانوں کے شوکیس اور اشیا کو دیکھ رہا تھا کہ ایک اجنبی سلام نے مجھے اپنی طرف متوجہ کیا۔ یہ ایک 20 سے 22 سال کا ایک نوجوان ہوگا، کہنے لگا آپ ویسے ہی فوٹو گرافی کر رہے ہیں یا کوئی اسائنمنٹ ہے؟ میں نے کہا ویسے ہی۔ اس نے بہت اچھے انداز میں اپنا تعارف کروایا اور بتایا کہ اسے بھی فوٹو گرافی کا شوق ہے اور وہ بی زیڈ یو میں پڑھ بھی رہا ہے۔ اس کو سیاست میں آنے کا شوق ہے کیونکہ اس کے والد بھی سیاست میں سرگرم تھے۔ وہ نوجوان ایک این جی او کا قیام عمل میں لاکر اپنے علاقے کی مصنوعات کو دنیا میں دکھانے کا خواب رکھتا ہے۔

اس کی باتوں میں تمیز اور اخلاق رچا بسا تھا اور مجھے وہ بالکل بے ضرر سا لگا۔ اس نے یہاں کی مقامی سیاست اور مزاروں کے متعلق مجھے اپنی معلومات سے آگاہ کیا۔ میرے پوچھنے پر اس نے مقامی طور پر بنائی جانے والی چند اشیا دکھانے کی بھی حامی بھری۔ وہاں سے میں اس کی ہمراہی میں ایک کپڑے کی دکان پر چلا آیا، جہاں اس کے بقول مقامی کڑھائی کے چند نمونے اور لباس موجود تھے۔ لیکن حقیقت میں اس کڑھائی نے مجھے اتنا متاثر نہیں کیا۔ میرا خیال ہے کہ یہاں پر مقامی صنعت پر اس طرح سے کام نہیں کیا جا رہا جس طرح سے اس پر کام ہونا چاہیے۔

مستقبل کا ایک سوشل ورکر—تصویر رمضان رفیق
مستقبل کا ایک سوشل ورکر—تصویر رمضان رفیق

مقامی سطح پر کی جانے والی کڑھائی کا ایک انداز—تصویر رمضان رفیق
مقامی سطح پر کی جانے والی کڑھائی کا ایک انداز—تصویر رمضان رفیق

مقامی سطح پر کی جانے والی کڑھائی کا ایک انداز—تصویر رمضان رفیق
مقامی سطح پر کی جانے والی کڑھائی کا ایک انداز—تصویر رمضان رفیق

رنگ برنگی دھاگے جو کبھی کڑھائی میں استعمال کیے جائیں گے—تصویر رمضان رفیق
رنگ برنگی دھاگے جو کبھی کڑھائی میں استعمال کیے جائیں گے—تصویر رمضان رفیق

ابھی وہ مجھے شہر کے مزید مقامات دکھانے کی خواہش کا اظہار کر ہی رہا تھا کہ میرا فون بجنے لگا۔ جب میں نے اس سے اجازت چاہی تو اس نے مجھ سے میرا موبائل نمبر چاہا جو میرے ذہن میں محفوظ ہی نہیں تھا۔ فیس بک پیج کا رابطہ اسے ادھورا دکھائی دے رہا تھا، دراصل چند دنوں کے لیے پاکستان آنا ہوا تھا سو میں نے موبائل نمبر یاد کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی تھی۔

میں نے مقامی صنعتوں کی ترویج کے لیے کام کرنے کے لیے موٹی ویشنل الوادعی جملے کہے اور واپس اسی سڑک کی طرف چلا آیا جس طرف سے میں نے سفر کا آغاز کیا تھا۔ اتنے میں میرے میزبان بھی مجھے ڈھونڈتے ہوئے میرے پاس آ پہنچے۔ ڈولفن والے چوک سے گاڑی نے مجھے پک کیا اور میں اپنی قیام گاہ کی طرح چلا آیا۔

عملی طور پر ساڑھے 3 گھنٹے کی یہ واک راجن پور کو دیکھنے کے لیے ناکافی تھی، لیکن میرے اندر کے مسافر کی ایک خواہش پوری ہونے کی خوشی تھی کہ پنجاب کا یہ ایک ضلع بھی دیکھ لیا۔

میں نے یہاں کے لوگوں کی سادہ مزاجی، مہمانوں کے استقبال میں والہانہ پن اور اپنائیت بھری مسکراہٹیں، اس شہر کی یادگار سمجھ کر جیب میں بھرلیں۔ ہوسکتا ہے کہ اب اس طرف آنا نہ ہو لیکن ایک خوشگوار سفر کی سنہری یاد دل میں پھول کھلاتی رہے گی، راجن پور تم خوش رہو، آباد رہو۔


رمضان رفیق دنیا گھومنے کے خواہشمند ہیں اور اسی آرزو کی تکمیل کے لیے آج کل کوپن ہیگن میں پائے جاتے ہیں۔ وہ پاکستان میں شجر کاری اور مفت تعلیم کے ایک منصوبے سے منسلک ہیں۔ انہیں فیس بک پر یہاں فالو کریں اور ان کا یوٹیوب چینل یہاں سبسکرائب کریں۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔