لکھاری  اسلام آباد میں واقع لیڈ پاکستان نامی ماحولیات اور ترقیاتی مسائل پر خصوصی طور پر کام کرنے والی تھنک ٹینک کے سی ای او ہیں۔
لکھاری اسلام آباد میں واقع لیڈ پاکستان نامی ماحولیات اور ترقیاتی مسائل پر خصوصی طور پر کام کرنے والی تھنک ٹینک کے سی ای او ہیں۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان آبی تعلقات ’نیو نارمل‘ (نیا معمول) کی طرف بڑھنا شروع ہوچکے ہیں۔ ہم اس سے انکار تو کرسکتے ہیں لیکن اسے رفع دفع نہیں کرسکتے۔

دونوں ممالک اس تعلقات کے خط و خال اور طول و عرض کو پوری طرح سے برقرار رکھنے میں ناکام ہوئے ہیں اور اپنے آبی تعلقات کو مسلسل 1961ء کے بڑی حد تک غیر واضح سندھ طاس معاہدے کی روشنی میں دیکھتے رہے ہیں۔ وہ اپنے آبی تعلقات کو فقط معاہدے کی متنازع تشریحات تک محدود نہیں کرسکتے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ نہ صرف پاکستان کی آبی معیشت کے لیے خطرناک ہے بلکہ یہ صدیوں سے انڈو گینگیٹک کے نام سے پکارے جانے والے خطے کی بنیاد کے لیے مضرر ثابت ہوگا۔

سندھ طاس معاہدے نے دونوں ملکوں کے درمیان دریاؤں کو تقسیم کیا ہے۔ مشرقی دریاؤں، راوی، ستلج اور چناب، کے پانی پر ہندوستان کا حق ہے، اس حق کو پاکستان نے کبھی متنازع نہیں بنایا۔ مگر حالیہ برسوں میں موجودہ ہندوستانی حکومت نے ہمارے دوطرفہ آبی خیالات میں ایک نئے بیانیے کو جنم دینا شروع کردیا ہے۔

بھارتی کابینہ کے ایک رکن نے وزیراعظم نیرندر مودی کے کچھ عرصہ قبل پیش کردہ تند و تیز مؤقف کو اپناتے ہوئے یہ بیان دیا کہ ہندوستان نے پاکستان کو جانے والے مشرقی دریاؤں کے پانی کو روک لیا ہے۔ پاکستان نے اس بیان کو انتخابی مہم کا حصہ سمجھتے ہوئے مسترد کردیا ہے اور یہ کہہ کر اس اہم معاملے کو اہمیت نہیں دی کہ اول) ویسے بھی ان دریاؤں کا پانی ہندوستان کا ہے اور دوم) ان سے تقریباً صفر اعشاریہ 5 ایم اے ایف کی معمولی سی مقدار میں پانی ملتا ہے، یعنی یہ 140 ایم ایف ایف مقدار رکھنے والے انڈس ریور سسٹم کے لیے بہت ہی حقیر مقدار ہے۔

اگرچہ دونوں ممالک میں سے کوئی ایک بھی تکنیکی طور پر غلط نہیں مگر یہ دونوں حقیقی صورتحال کو بہت ہی سرسری نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ یہ مانا کہ معاہدے کے تحت ہندوستان مشرقی دریاؤں کے پورے پانی پر حق رکھتا ہے، لیکن یہ دریاؤں کی زندگی پر حق نہیں رکھتا۔ کسی بھی زندہ وجود کی طرح دریاؤں کو بھی جینے کا حق حاصل ہے، ٹھیک اسی طرح نچلے دریائی ماحولیات،ڈیلٹاؤں، ثقافتوں اور ورثے کو بھی زندہ رہنے کا حق ہے۔

معاہدے کے دونوں فریقین دریاؤں سے جتنا چاہے اتنا پانی لے سکتے ہیں، مگر دریاؤں کا بہاؤ قطعی طور پر جاری رکھنا ہوگا اور دریاؤں کے دونوں بالائی اور ذیلی بہاؤ سے منسلک فطری ماحولیات کو برقرار رکھنے میں ہر ممکن مدد فراہم کرنی ہوگی۔ آنے والی نسلوں کے حقوق کو تلف اور مفادات کو متاثر کیے بغیر ہائیڈرو پاور منصوبوں کو، خاص طور پر بین السرحدی دریائی نظاموں اور بیسن پر، ڈیزائن کرنے کے بہتر طریقوں کے لیے موجود اچھے خاصے عالمی تجربے سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔

پانی کی مقدار کو معمولی قرار دینے کی پاکستانی دلیل درست نہیں۔

پاکستان خریف کے لیے اوسطاً 3 اعشاریہ 5 ایم اے ایف کے قریب پانی اور 1 ایم اے ایف سے کچھ کم مقدار میں پانی ربی کے سیزن میں راوی میں حاصل کرتا ہے جبکہ ستلج میں ربی سیزن کے لیے تقریباً 3 ایم اے ایف پانی حاصل کرتا ہے۔

یہ پانی زیر زمین پانی کی مقدار کو بحال رکھنے کے لیے قطعی طور پر ضروری ہے، خاص طور پر ربی سیزن یا مون سون سے عاری عرصے میں ملنے والا پانی۔

یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ چناب، راوی اور ستلج دریا سے بعض اوقات مرالا، مدھوپور اور فیروز پور کے مقامات پر بہت زیادہ مقدار میں پانی حاصل ہوتا ہے، مذکورہ اسٹیشنز وہ ہیں جہاں پاکستان میں داخل ہونے والے پانی کی مقدار کو سب سے پہلے ناپا جاتا ہے۔

پانی کی یہ مقداریں زیر زمین پانی کو دوبارہ بھرنے کے لیے ضروری ہیں۔ جیسا کہ لاہور میں زمینی پانی میں تیزی سے آتی کمی کو دیگر وجوہات کے ساتھ اکثر و بیشتر روای کی خشکی کے ساتھ بھی جوڑا جاتا ہے، کہ مون سون بارشوں سمیت راوی کا پانی ایک وقت میں وہاں کے زمینی پانی کو دوبارہ بھرنے کا اہم ذریعہ تھا۔

یہ معمولی سی مقداریں آف سیزن میں بھاری دھاتوں اور ماحول دشمن نامیاتی ذرات کو بہا لے جانے کے لیے بھی ضروری ہیں۔ نلہ ایک، نلہ دیک اور نلہ ہدیرا جیسی موسمیاتی تازہ پانی کی پاکستان میں داخل ہونے والی نہروں، اور مقامی صنعتوں اور میونسپلٹیز کے ہاتھوں آلودہ ہوچکے شاہدرہ اور بابو صابو کے ذریعے ستلج اور راوی کی شاخوں میں یہ دھاتیں و ماحول دشمن عناصر شامل ہوجاتے ہیں۔ انہیں وقتاً فوقتاً بہائے جانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ کم سے کم بہاؤ کی عدم دسیتابی کے باعث زمینی پانی کی ان ماحول دشمن ذرات والے پانی کی زمینی آب اندوخت (aquifers) میں ٹپکنے کی رفتار بڑھ جائے گی اور آبی نظام کو خود سے ان ذرات کو بہا لے جانے اور صفائی کرنے کی صلاحیت سے محروم کردے گا۔

درحقیقت ان دریاؤں کا آبی اخراج (discharges) غیرمعمولی حد تک زیادہ ہے اور انڈس بیسن سسٹم کی مجموعی آبی دستیابی میں ان کی حصہ داری کو بالکل بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ یہ بہاؤ پاکستان میں 3 مشرقی دریاؤں پر موجود تقریباً 12 پیمائشی مقامات پرآبی اخراج کی گنجائش کے قریب قریب یا اس سے بھی زیادہ مقدار میں پانی کا اخراج ہوتا ہے۔ ان ’برائے نام بہاؤ‘ کی عدم دستیابی سے موجودہ حکومت کی ’ریچارج پاکستان‘ منصوبہ چند علاقوں میں بری طرح سے متاثر ہوں گا۔

ہندوستان میں ان دریاؤں کے بالائی بہاؤ پر انفرااسٹریکچرل منصوبوں کے سلسلے کے نتیجے میں بہاوؤں میں کافی کمی واقع ہوئی ہے۔

دریائے راوی میں 1976-1977 کے دوران جو پانی کا بہاؤ 11 ایم اے ایف تھا وہ 2017-2018 میں گھٹ کر 3 ایم اے ایف ہوچکا ہے جبکہ مذکورہ عرصوں کے دوران ہی ستلج میں 9 ایم اے ایف سے گھٹ کر 3 ایم اے ایف ہوچکا ہے۔ چونکہ پاکستان اور بھارت مشرقی دریاؤں پر بننے والے اہم منصوبوں کو لے کر شاذو نادر ہی بات چیت کرتے ہیں، اس لیے ان منصوبوں کی توانائی کی زیادہ سے زیادہ اور کم سے کم توانائی کی فراہمی کے بدلتے رجحانات اور ان سے پڑنے والے بین السرحدی اثرات پر ان دونوں میں سے کسی ملک کی جانب سے نہ تو مکمل طور پر مباحثہ ہوا ہے اور نہ ہی تجزیہ کیا گیا ہے۔ ان سے مرتب ہونے والے مجموعی اثرات پر کسی کی نگاہ ہی نہیں پڑی اور اس کے نتیجے میں دریاؤں کے نچلے بہاؤ کے فطری ماحولیات، پودوں اور جانوروں کے مسکن اور انسانی آبادیوں کو مسلسل نقصان پہنچا۔

پانی کی مقداروں میں کمی صرف حال ہی میں کھڑے کیے گئے منصوبوں کی وجہ سے نہیں آئی ہے بلکہ گزشتہ 50 سالوں کے دوران بھارت کی شمالی اور مشرقی ریاستوں میں ماحولیاتی تبدیلی کے باعث محدود مون سون بارشیں بھی اس کمی کی وجوہات میں شامل ہیں۔

بھارتی ریاست ہریانہ اور پنجاب میں یکے بعدیگر آنے والے قحط، زیر زمین پانی کو بڑی مقدار میں نکالے جانے اور پانی کی بڑھتی ہوئی قلت کا ایک سلسلہ سب کے سامنے ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بجلی کی بھاری سبسڈیز کو بھی یہاں شامل کیا جاسکتا ہے۔

یہ دونوں ریاستیں زیر زمین پانی اتنا نکال لیتے ہیں جتنا کہ مون سون بارشیں اسے دوبارہ اتنا بھر بھی نہیں پاتا، نتیجتاً انتخابی سیاست کی مانگ کو پورا کرنے کی خاطر کھیتی باڑی کرنے والی برادریوں کو خوش کرنے کے لیے پانی کا رخ انڈس بیسن سے موڑ دینے کا دباؤ بڑھ جاتا ہے۔ ان دو ریاستوں میں پانی کا جتنا زیادہ غیر مؤثر استعمال ہوتا ہے اتنا ہی زیادہ پانی کا رخ بیسن سے موڑ دینے کا دباؤ مرکزی حکومت پر بڑھتا جاتا ہے۔

کئی حکومتوں کے لیے نئے انفرااسٹریکچرل منصوبے شروع کرنے یا پانی کا بیسن سے رخ موڑ دینے کے وعدے سے شاید آسان کام سبسڈیز کے خاتمہ، قیمتوں کے تعین کے طریقے لانا یا کھیتی باڑی کرنے والے برادریوں کو پانی کو محفوظ کرنے پر قائل کرنا اور زیر زمین پانی کی قیمت لاگو کرنا ثابت ہوگا۔

مقامی سیاست، پانی کے استعمال کے طریقے، ماحولیاتی تبدیلی اور انتخابی سیاسی عناصر وہ تمام اہم باتیں ہیں جن کی روشنی میں نئے معمول کو شکل دینا ہوگا۔ کیا دونوں ملک پانی کو صرف کیوسک میں ناپنے کے بجائے اپنے اپنے فطری ماحولیاتی بقا کو مد نظر رکھتے ہوئے بین السرحدی پانیوں کا جائزہ نہیں لے سکتے اور نئے معمول کو ایک نئی شکل نہیں دے سکتے؟

یہ مضمون 17 مارچ 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں