ناولٹ کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ فکشن نگار سرکاری، مذہبی اور نسلی نعروں پر مشتمل سطحی جذباتیت اور اپنے تمام کرداروں سے کسی بھی (ظاہری یا چھپے) تعصب کا شکار ہوئے بغیر مکمل انصاف کرنے میں کامیاب رہا۔

ایک (غیر سرکاری) ادیب کا سب سے پہلا سروکار انسان، انسانیت اور اس سے جڑے قیمتی تجربات اور محسوسات سے ہوتا ہے، اگر وہ انہی احساسات کو بیان کرنے میں ڈنڈی مار جائے تو اپنے عظیم وطن کی محبت سے مملو، چاہے جتنے بھی ایمان افروز اور نسلی تفاخر میں ڈوبی تشبیہات اور استعاروں کا سہارا پکڑلے، اس کی نثر سے اٹھتا تعفن حساس اور درد مند قاری کو ناک پر معطر رومال رکھنے پر مجبور کردیتا ہے۔

ترکی کے ادیب اورحان پامُک نے جب اپنی زندگی کا پہلا اور آخری سیاسی ناول ’برف‘ لکھا تو ملک کے سیکولر اور قدامت پسند مذہبی طبقوں نے، الگ الگ وجوہات کی بنا پر، ایک ساتھ شدت سے ناک چڑھایا۔ پامُک کے اپنے الفاظ کے مطابق، ’ترکی کے سیکولروں کو یہ بات پسند نہیں آئی کہ میں نے اسلامیوں کو بطور انسان پیش کیا‘ جبکہ اسلامیوں کا مقدس گروہ اس لیے ناراض تھا کہ ’میں نے ان کے ایک لیڈر کے بارے میں لکھا جو شادی کے بغیر جنسی عمل سے لطف اندوز ہوتا تھا‘۔ ایک گروپ جیتے جاگتے سانس لیتے وجودوں کو انسان ماننے سے انکاری جبکہ دوسرا خود کو فرشتوں سے کم کہنے کہلانے پر راضی نہ تھا۔

اقبال خورشید کا کردار جنگجو، شدت پسند اور دہشت گرد ہونے کے باوجود، اپنے سینے میں انسانی جذبات و احساسات کا بہاؤ رکھتا ہے۔ دجالی پرندوں (ڈرون یا جنگی جہاز) نے اس کے گھر آنگن میں تباہی اتار دی۔ خون، آنسوؤں اور بارود کی بُو اس کے وجود میں اترگئی، اور وہ نہ چاہتے ہوئے بھی جنگ کی آگ میں کود پڑا۔ ناولٹ کے ایک کردار کی زبان میں، ’میں نہیں جانتا کہ یہ جنگ ہماری ہے یا نہیں، مگر اتنا ضرور جانتا ہوں کہ ہمارے بدن اس کا ایندھن ہیں، یہ کرب کی فصل بو رہی ہے، ہم اپنے گیت بھول چکے ہیں‘۔

ناولٹ روایتی 'لو اسٹوری' بالکل نہیں ہے، بلکہ اس کے 3 مرکزی کردار، مرد (مغوی شوہر)، عورت (حاملہ بیوی) اور جنگجو ( مغوی کی بیوی کا سابقہ یکطرفہ عاشق) ایک تکون بناتے ہیں، ایک ایسی تکون جس کی چوتھی جہت بقیہ جہات پر حاوی نظر آتی ہے۔

وقت کی جہت، تینوں کرداروں کو ایک ایسی وجودی صورتحال میں ڈال دیتی ہے جہاں صرف اسی کا سکہ چلتا ہے۔ ’وہ ٹھہرا ہوا ہے اور بیت رہا ہے‘۔ کردار وقت کے لامحدود سکوت اور ناقابلِ فراموش گزران کو اپنے وجود کی گہرائیوں میں محسوس کرتے ہیں لیکن خود میں اتنی طاقت نہیں پاتے کہ وہ اس جبر کی تکون سے آزادی حاصل کرسکیں۔

ناولٹ کا یہ تھیم ہمیں عظیم ادیب میلان کنڈیرا کے شہرہ آفاق ناول ’وجود کی ناقابلِ برداشت لطافت‘ کے کرداروں کی یاد دلاتا ہے۔ اس ناول میں 2 مرکزی کرداروں ٹیریزا اور ٹامس کی جسمانی خدوخال اور کپڑوں کے متعلق کوئی معلومات موجود نہیں ہے، قاری اپنے تخیل کے حساب سے کچھ بھی فرض کرسکتا ہے۔ وہ کردار بطور انسان وجود کی ناقابلِ برداشت صورتحال کا شکار ہیں، سنگینی اور ہلاکت ان کا مقدر ہے اور وہ اس بدترین انجام کی طرف نہ چاہتے ہوئے بھی بھاگے چلے جاتے ہیں۔

اقبال خورشید بھی اپنے کرداروں عورت، مرد اور جنگجو کے مخصوص جسمانی اور لباسانہ کردار سازی نہیں کرتے بلکہ اس کو قاری کے تخیل کے بھروسے پر چھوڑ دیتے ہیں۔ وہ جسمانی اور رنگی امتیازات سے پہلے جس شے کو ترجیح دیتے ہیں وہ ہر کردار کا انسان ہونا ہے۔ جنگوں میں، ہماری سرکاری پریس ریلیزوں کے مطابق دشمن اور دوست، کس قسم کی ذہنی کوفت، مصیبت اور اذیت کا شکار ہوتے ہیں، ناولٹ انہی پہلوؤں کا درد مندی اور فنکارانہ نغمگی کے ساتھ احاطہ کرتا ہے۔

ناولٹ کی فضا شدید بوجھل ہے، ہر کردار حزن و ملال کا شکار ہے، فضا کہر آلود، موسم ابر آلود اور کرداروں کے خیالات غم آلود ہیں۔

فکشن لکھنے کا روایتی بیانیہ انداز اپنانے کے بجائے مختلف باب نظیمہ انداز میں رقم کیے گئے ہیں۔ کچھ باب نثری نظم کا تاثر دیتے ہیں۔ شاید یہ ناول کی ضرورت تھی، ناول کی کہانی جن گرے ایریاز کے درمیان وقوع پذیر ہوتی ہے، اس کے لیے شاعرانہ ابہام کی ضرورت بہرحال موجود تھی۔ ویسے بھی ناولٹ کا موضوع سیاست یا جنگ نہیں ہے بلکہ میری نظر میں یہ اعلیٰ طبقے کی جانب سے نچلے طبقے کے لیے بنائی جانے والی جنگی جہنم میں انسانیت کی تباہی کا حزنیہ تحریر کرنا تھا۔

عورت، جس کا شوہر شمالی علاقات جات میں دہشت پسندوں کے نرغے میں پھنس گیا، اس کے پیٹ میں اپنے مغوی شوہر کی یادگار سانسیں عورت کے جسم میں حوصلے اور توانائی کی لہریں پیدا کرتی ہیں۔ گھٹن زدہ ماحول میں دھڑکتا وجود، عورت کی زندگی کا سہارا اور شوہر کی محبت اور شفقت کی محرومی کا مداوا بنتا ہے۔ یہ لازوال محبت کا وہ بیج ہے جو اس کے جسم میں اپنی جڑیں پکڑ رہا ہے۔

مرد، اپنی حاملہ بیوی سے بے خبر، آنکھوں میں پٹی بندھے، نامعلوم اغوا کاروں کے رحم و کرم پر اپنی آخری سانسیں گن رہا ہے۔ بیوی سے جدائی اور اپنے خاندانی بیج کی نشونما کی فکر اس کے وجود کو کچوکے لگاتی رہتی ہے۔ اس کی امید اور آس کا دار و مدار بھی وہ ننھا پھول ہی ہے جو اس کے گھر کو اپنی خوشبو سے مہکانے کے لیے بارود زدہ معاشرے میں آنے کے لیے تیار ہے۔

جنگجو، جس کا دل پنڈولیم کی طرح ناکام عاشق، کامیاب دہشت گرد، دہشت اور محبت کے درمیان ڈول رہا ہے، محبت کا متلاشی ہے لیکن نفرت اور حقارت کی فصل کاٹنے پر مجبور ہے۔ اسے جنگ لڑنی ہے ان بھائیوں، بہنوں، بچوں اور بوڑھوں کے لیے جنہیں جنگ کا ایندھن بنادیا گیا۔ اس وادی کے لیے جس کا سبزہ سوکھ گیا اور اس دریا کے لیے جس کے پانی میں دراڑیں ابھر آئیں۔

وہ معاشرے میں رائج معیار کے مطابق اچھا انسان بننا چاہتا ہے لیکن معاشرے کے تصدیق یافتہ اچھے انسانوں کی سیاسی تخریب کاری کا شکار ہوکر معصوم انسانوں کے ذہنوں میں کرب اور اذیت کے بیج بونے پر مجبور ہے۔

اتنی شدید ٹریجڈی کے باوجود، اقبال خورشید مایوس نظر نہیں آتا۔ جس تکون نے کرداروں کو محرومیوں اور اذیتوں کے راستے پر ڈالا، ان میں ایک دوسرے کے لیے محبت کے جذبات جگائے، نفرت کا مفہوم سمجھایا، اس تکون کا انہدام خود اپنے ہاتھوں ہی ہوتا ہے۔ چادر میں لپٹا، گیلے زیرِجامے میں، ٹانگیں چلاتا، کلکاریاں مارتا نومولود جبر کی تکون کے خاتمے اور فصلِ مسرت کے آغاز کا اعلان کرتا ہے۔


کتاب کا نام: تکون کی چوتھی جہت (دو ناولٹ)

فکشن نگار: اقبال خورشید

صفحات: 142

اشاعت: 2019

ناشر:رواں، کراچی

قیمت: 400 روپے

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

یمین الاسلام زبیری Apr 01, 2019 07:57pm
اچھا تبصرہ ہے، یقیناً اچھی ناول ہوگی۔