عروج ممتاز نے پاکستان وومین کرکٹ کو بھلے ہی کافی وقت پہلے خیرباد کہہ دیا لیکن کئی باتوں کی وجہ سے لوگوں کو وہ آج بھی یاد ہیں۔

انہوں نے بطور آل راؤنڈر اپنی ٹیم کی ہمیشہ آگے بڑھ کر قیادت کی۔ وہ ذہین ہیں، تعلیم یافتہ ہیں (وہ پیشہ ورانہ اعتبار سے ڈینٹل سرجن ہیں۔)، توانائی سے بھرپور، قابل بھروسہ، قابل اعتماد، قابل احترام، نفیس اور باوقار شخصیت کی مالک ہیں، مگر ہمیشہ عاجز رہیں اور ابتدا سے ہی اچھے کھیل کا مظاہرہ کیا۔ بطور کھلاڑی انہوں نے اپنی کارکردگی سے وومین کرکٹ پر انمٹ نشان چھوڑے، اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے کیونکہ پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) نے 20 مارچ کو انہیں نئی 3 رکنی سلیکشن کمیٹی کی پہلی خاتون چیف سلیکٹر نامزد کیا ہے۔

خواتین کرکٹ کو مزید تقویت بخشنے کی حکمت عملی کے حصے کے طور پر پی سی بی نے یہ 3 رکنی سلیکشن کمیٹی تشکیل دی جس کی قیادت سابق کپتان کو سونپی جبکہ سابقہ کھلاڑیوں اسماویہ اقبال اور مرینہ اقبال کو بطور کمیٹی رکن نامزد کیا۔

عروج ممتاز نے اپنی کارکردگی سے وومین کرکٹ پر انمٹ نشان چھوڑے
عروج ممتاز نے اپنی کارکردگی سے وومین کرکٹ پر انمٹ نشان چھوڑے

کچھ عرصہ قبل بورڈ کے مینجینگ ڈائریکٹر وسیم خان نے نئی سلیکشن کمیٹی کے بارے میں اپنی گفتگو میں بتایا کہ بورڈ نے خاص طور پر ان کھلاڑیوں کو کمیٹی کے منتخب کیا ہے جو وائٹ بال کرکٹ میں شامل رہ چکی ہوں اور انہیں کرکٹ چھوڑے زیادہ وقت نہ گزرا ہو۔

’پی سی بی کا وژن ہے کہ ملک میں ایک ایسا ماحول فراہم کیا جائے جہاں خواتین کرکٹ نہ صرف پنپ سکے بلکہ جہاں ہم اپنے کھلاڑیوں کے پول میں اضافہ کرنے کے بھی قابل بن سکیں تاکہ یہ کھیل مزید آگے بڑھے اور ترقی کرے۔ اور یہ اقدام اس وژن کی ترجمانی کرتا ہے.‘

گزشتہ ماہ سابق مینز کرکٹ کے کھلاڑی جلال الدین اور سابق بین الاقوامی کرکٹ کھلاڑی اختر سرفراز کے زیرِ قیادت پینل کی مدت پوری ہونے کے بعد اس نئی کمیٹی کو تشکیل کیا گیا۔

خان کہتے ہیں کہ، ’اس نئی کمیٹی کو تشکیل کرتے وقت سب سے زیادہ اس بات کا خیال رکھا گیا کہ ایسی خواتین کو متوجہ کیا جائے جو متعلقہ صلاحیتیں اور کرکٹ کے لیے جوش رکھتی ہوں۔ کچھ ایسی زبردست کرکٹ ٹیلنٹ سے بھرپور خواتین کے لیے میرٹ بنیادوں پر مواقع فراہم کیے جائیں جو اس کھیل کو آگے لے کر جانے میں مدد کرسکتی ہوں اور پی سی بی میں ایک نئے اور ولولہ خیز دور کے آغاز میں اپنا بھرپور حصہ ڈال سکیں‘

بطور چیف سلیکٹر ملنے والی ذمہ داری کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے عروج بتاتی ہیں کہ، 5 رکنی مینز کرکٹ سلیکشن کمیٹی کے برعکس وومین کرکٹ کے لیے 3 رکنی کمیٹی کافی ہونی چاہیے۔ ’یہاں اب بھی خواتین کے لیے اتنی زیادہ کرکٹ سرگرمیاں نہیں ہو رہی ہیں جتنی مردوں کے لیے ہو رہی ہیں۔‘

وہ مزید بتاتی ہیں کہ، ’بطور چیف سلیکٹر جہاں جہاں بھی کیمپ کا انعقاد کیا جائے گا میں وہاں وہاں خود جاؤں گی کیونکہ محض اسکور شیٹ دیکھنے سے صلاحیتوں کا پتہ نہیں چلتا۔ کسی کے 20 رنز کسی کے 50 رنز سے بھی زیادہ بہتر ہوسکتے ہیں کیونکہ ممکن ہے کہ اس لڑکی نے انتہائی مشکل صورتحال میں وہ قیمتی رنز جوڑے ہوں۔ لہٰذا اسکور شیٹ سے کھلاڑیوں کی طبیعت یا مزاج کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔‘

خواتین کی نئی سلیکشن کمیٹی کی سربراہ ہونے کے ساتھ وہ پی سی بی کرکٹ کمیٹی کا بھی حصہ ہیں جس کے سربراہ محسن حسن خان ہیں جبکہ اس کمیٹی کے دیگر ممبران میں وسیم اکرم اور مصباح الحق شامل ہیں۔ وہ اس کمیٹی کی واحد خاتون رکن ہیں لیکن وومین کرکٹ ہر پی سی بی جو وژن رکھتا ہے اسے آگے لے کر چلنے کے لیے مفید شخصیت ہیں۔

اس کمیٹی کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ یہ ایک مشاورتی کمیٹی ہے جو کہ گزشتہ سال نومبر میں تشکیل دی گئی تھی۔ وہ مزید کہتی ہیں کہ، ’اپنے مشاہدات کی بنیاد پر ہم ملک میں کرکٹ کے تمام تر ڈھانچے کے بارے میں تجاویز دیتے ہیں، اور بے شک مجھے خصوصی طور پر وومین کرکٹ سے منسلک مسائل کا جائزہ لینے کے لیے اس کمیٹی کا حصہ بنایا گیا۔‘

ٹیم چھوڑنے کے بعد عروج نے بطور کل وقتی دندان سازا پنے کیریئر اور اس کے ساتھ ساتھ گھر پر اپنی توجہ مرکوز کی۔ وہ ٹی وی پر ایک اسپورٹس شو کی میزبانی بھی کرتی ہیں اور ایک بیوی ہونے کے ساتھ ایک چھوٹی بچی کی والدہ بھی ہیں۔ 3 سالہ حیا بھی اپنی والدہ کی طرح چست و تواناں ہیں لیکن اپنی والدہ کے برعکس وہ فٹ بال اور سائیکلنگ میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہیں۔

عروج ممتاز اسپورٹس شو کی میزبان بھی ہیں
عروج ممتاز اسپورٹس شو کی میزبان بھی ہیں

عروج اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے حوالے سے کافی پراعتماد نظر آتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ، ’مجھے معلوم ہے کہ میں ایک ہی وقت میں کئی ذمہ داریاں سنبھال رہی ہوں لیکن میں اپنی پوری زندگی اسی طرح سے ایک ساتھ 10 مختلف کام کرتی آئی ہوں۔ یہاں میں پی سی بی چیئرمین احسان مانی صاحب اورمینجنگ ڈائریکٹر وسیم خان کا لازمی شکریہ ادا کرنا چاہوں گی جنہوں نے میری صلاحیتوں پر یقین کیا۔ یہ ان کا مجھ پر اعتماد ہی ہے کہ جس کی وجہ سے مجھ جیسے ایک ہی وقت میں کئی کام کرنے والے انسان کو آگے آنے میں مدد ملی ہے۔‘

(33 سالہ) نوجوان عروج کہتی ہیں کہ انہیں خوشی ہے کہ انہوں نے ایک معقول عرصے تک کرکٹ کھیلی۔ وہ مزید کہتی ہیں کہ، ’2004ء میں جب میں قومی ٹیم میں شامل ہوئی تب میری عمر اتنی زیادہ نہیں تھی اور میں جانتی ہوں کہ 2010ء میں جب میں نے کرکٹ کو خیرباد کہا اس وقت اگر میں چاہتی تو مزید چند برسوں تک ٹیم کا حصہ رہ سکتی تھی مگر 10 یا 15 برس تک کھیلنے کا میرا کبھی ارادہ ہی نہیں رہا کیونکہ میرا ماننا تھا کہ ایک طرف ہو کر نئے کھلاڑیوں کو موقع فراہم کیا جائے۔‘

آج کل کس قسم کا ٹیلنٹ سامنے آرہا ہے؟ وہ کہتی ہیں کہ ’وہ لڑکیاں جو اس کھیل کے لیے جوش جذبہ رکھتی ہیں انہیں والدین کی حمایت یا پیسے کی کمی کے باوجود بھی آگے آنا چاہیے۔ میں ایسی لڑکیاں بھی دیکھ چکی ہوں جو ڈومیسٹک سطح پر تو پہنچ جاتی ہیں لیکن چونکہ اس میں پیسے نہیں ہیں اس لیے وہ اکثر و بیشتر کھیلنا چھوڑ دیتی ہیں جو کہ بہت ہی مایوس کن بات ہے۔‘

وہ مزید کہتی ہیں کہ، ’یہی وجہ ہے کہ میں ڈومیسٹک کرکٹ کو لڑکیوں کے لیے پروفیشنل بنانا چاہتی ہوں، جہاں انہیں ان کی کارکردگی کے لیے پیسے دیے جائیں۔ پروفیشنل اور ڈومیسٹک کرکٹ کے درمیان حائل خلیج کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم کرکٹ سے دیوانہ وار محبت کرنے والی قوم ہیں، لہٰذا ایسا ممکن ہے۔ ہمیں5 سے 10 سالہ پلان کے ذریعے کرکٹ میں زیادہ لڑکیاں لانے کے لیے راہیں ہموار کرنے کی ضرورت ہے۔‘

دھواں دار بلے بازی کرنے والی کھلاڑی
دھواں دار بلے بازی کرنے والی کھلاڑی

کھیلوں میں ہمیشہ سے دلچسپی رکھنے والی عروج ٹائیکونڈو میں بلیک بیلٹ ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ کراچی جیم خانہ کی ٹیبل ٹینس چیمپئن ہیں اور انہیں گالف کھیلنا بھی پسند ہے۔ جیم خانہ میں اپنے والد اور ماموں کو کرکٹ کھیلتا دیکھ کر انہیں کرکٹ میں دلچسپی پیدا ہوئی۔

وہ بتاتی ہیں کہ ’میرے والد جو پیشے کے اعتبار سے ڈینٹل سرجن ہیں، کلب میں ویٹرن کرکٹ کھیلا کرتے تھے۔ جب میں 6 یا 7 برس کی تھی تب میں نے وہاں لڑکوں کی انڈر 7 کرکٹ ٹیم میں شمولیت اختیار کی، ابتدائی طور پر میرے ساتھی کھلاڑیوں کو یہ بات پسند نہ آئی۔‘ وہ ان دنوں کو یاد کرتے ہوئے ہنس دیتی ہیں اور اپنی گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے بتاتی ہیں کہ، ’مگر چونکہ میں ایک اچھی کھلاڑی تھی اس لیے انہوں نے مجھے ٹیم کا حصہ بنائے رکھا۔‘

انڈر 7 کرکٹ ٹیم سے عروج نے انڈر 9 ٹیم کا سفر شروع کیا اور آگے جا کر انڈر 15 ٹیم کا حصہ بنیں، بعدازاں وہ لڑکوں کی انڈر 17 کی کپتان بھی بن گئیں۔ وہ مسکراتے ہوئے بتاتی ہیں کہ، ’بطور کپتان میں نظم و ضبط ور فٹنس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا کرتی تھی اور یہی وجہ ہے کئی موقعوں پر میری ٹیم کے کئی کھلاڑی کھیل سے باہر ہوا کرتے۔ ماضی میں تو وہ مجھ سے اس بات پر خفہ ہوتے ہوں گے، مگر آج وہ میرے سب سے بڑے مداح ہیں۔‘

لڑکوں کے ساتھ کرکٹ کھیلنے کی وجہ سے قومی وومین ٹیم تک ان کی راہ کافی آسانی سے ہموار ہوئی، مگر عروج کہتی ہیں کہ ان دنوں کہ وومین کرکٹ کے ساتھ کافی غیر پیشہ ورانہ سلوک برتا جاتا تھا۔ وہ بتاتی ہیں کہ، ’یہ بات مجھے انگلینڈ میں کاؤنٹی کرکٹ کھیلنے کے دوران اور بھی زیادہ محسوس ہوئی۔ ہمیں یہاں وومین کرکٹ کے پورے ڈھانچے کو نئے سرے سے مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں زیادہ سہولیات، کوچنگ پروگرامز اور امپائرنگ پروگرامز کی ضرورت ہے۔‘

وہ خبردار کرتی ہیں کہ، ’آج وومین کرکٹ کی تبدیلی کا جو سلسلہ جاری ہے اگر اسے اسی طرح جاری نہ رکھا گیا تو ہم اس کھیل میں کافی پیچھے رہ جائیں گے۔‘

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں