سانحہ جلیانوالہ باغ کی صد سالہ برسی

سانحہ جلیانوالہ باغ کی صد سالہ برسی

ویب ڈیسک


سانحے کو 100 سال گزرنے پر جلیانوالہ باغ میں تقریب منعقد کی گئی—فوٹو: اے پی
سانحے کو 100 سال گزرنے پر جلیانوالہ باغ میں تقریب منعقد کی گئی—فوٹو: اے پی

آج سے 100 سال قبل برٹش انڈیا کے مشرقی صوبے پنجاب کے شہر امرتسر میں جلیانوالہ باغ میں انگریز فوج کی جانب سے کی جانے والی فائرنگ کے واقعے کو 100 سال گزر گئے۔

سانحہ جلیانوالہ باغ کو 100 سال گزرنے پر جائے وقوع پر تقریب کا انعقاد بھی کیا گیا، جس میں ہزاروں شہریوں، سماجی رہنماؤں اور سیاستدانوں نے شرکت کرکے انگریز فوج کی گولیوں کا نشانہ بننے والے افراد کو خراج عقیدت پیش کیا۔

یہی نہیں بلکہ سانحے کو 100 سال گزرجانے کے موقع پر بھارت کی دوسری بڑی سیاسی جماعت ’کانگریس‘ کے صدر راہول گاندھی نے بھی جلیانوالہ باغ کا دورہ کیا اور یادگار پر پھول چڑھائے۔

اسی طرح بھارت میں تعینات برطانیہ کے ہائی کمشنر ڈومنک ایسویتھ نے بھی جلیانوالہ باغ کا دورہ کیا اور یادگار پر پھول چڑھائے۔

ڈومینک ایسویتھ نے اس موقع پر سانحے کو غلطی قرار دیتے ہوئے اس پر اظہار افسوس بھی کیا اور ساتھ ہی انہوں نے ملکہ برطانیہ کا خصوصی پیغام بھی پڑھ کر سنایا۔

راہول گاندھی نے یادگار پر پھول چڑھائے—فوٹو: اے ایف پی
راہول گاندھی نے یادگار پر پھول چڑھائے—فوٹو: اے ایف پی

برطانوی ہائی کمشنر کی جانب سے ملکہ برطانیہ کے پیغام میں بتایا گیا کہ ’تاریخ کو دہرایا نہیں جاسکتا بلکہ اس سے سبق سیکھا جا سکتا ہے‘

بھارتی ریاست پنجاب کے وزیر اعلیٰ سمیت دیگر سیاسی شخصیات نے بھی جلیانوالہ باغ کا دورہ کیا اور یادگار پر پھول چڑھاتے ہوئے 100 سال پہلے ہونے والے واقعے کو وحشت ناک قرار دیا۔

جلیانوالہ سانحے کو 100 سال گزرنے پر ہونے والی تقریب میں شرکت کرنے والے افراد نے ایک بار پھر برطانیہ سے مطالبہ کیا کہ وہ اس وحشت ناک واقعے پر باضابطہ طور پر معافی مانگے۔

بھارت میں تعینات برطانوی ہائی کمشنر نے بھی جلیانوالہ باغ کا دورہ کیا—فوٹو: اے پی
بھارت میں تعینات برطانوی ہائی کمشنر نے بھی جلیانوالہ باغ کا دورہ کیا—فوٹو: اے پی

عوام کا کہنا تھا کہ برطانیہ کی جانب سے ’جلیانوالہ باغ سانحے‘ کو صرف افسوس ناک قرار دینے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔

برطانیہ نے اگرچہ ماضی میں بھی اس سانحے کو تاریخ کا افسوس ناک واقعہ قرار دیا تھا، تاہم حال ہی میں برطانوی وزیر اعظم تھریسامے نے بھی ایک بار پھر اس واقعے کو افسوس ناک قرار دیا۔

تھریسامے نے جلیانوالہ باغ سانحے کی صد سال برسی سے 3 دن قبل برطانوی پارلیمنٹ میں خطاب کرتے ہوئے سانحے پر افسوس کا اظہار کیا تھا۔

برطانوی ہائی کمشنر نے سانحے پر افسوس کا اظہار کیا—فوٹو: اے ایف پی
برطانوی ہائی کمشنر نے سانحے پر افسوس کا اظہار کیا—فوٹو: اے ایف پی

تھریسامے کا کہنا تھا کہ ’سانحہ جلیانوالہ باغ‘ برٹش انڈیا کا شرمناک واقعہ ہے اور اس پر برطانیہ کو افسوس ہے، تاہم انہوں نے باضابطہ طور پر معافی نہیں مانگی تھی۔

برطانوی وزیر اعظم کے خطاب کے بعد جیریمی کوربن نے خطاب کرتے ہوئے اپنی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا اور مطالبہ کیا کہ برطانیہ سانحہ جلیانوالہ باغ پر باضابطہ طور پر معافی مانگے۔

لیکن یہ پہلا موقع نہیں کہ برطانیہ سے اس واقعے پر باضابطہ معافی مانگے جانے کا مطالبہ کیا جا رہا ہو، اس سے قبل بھی بھارت اور پاکستان کے متعدد سیاستدان، سماجی رہنما اور تاریخ نویس یہ مطالبہ کرتے آئے ہیں کہ برطانیہ کو اس سانحے پر معافی مانگنی چاہیے۔

ماضی میں بھی پاکستانی اور ہندوستانی عوام اور رہنماؤں کے مطالبے پر برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون اس سانحے پر افسوس کا اظہار کیا تھا، تاہم انہوں نے بھی باضابطہ طور پر معافی نہیں مانگی تھی۔

سابق برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے 2013 میں جلیانوالہ باغ کا دورہ بھی کیا تھا اور سانحے پر افسوس کرتے ہوئے گولیوں کا نشانہ بننے والے افراد کے خاندان سے تعزیت بھی کی تھی۔

ان کے ہندوستانی دورے کے دوران ہی پہلی بار یہ مطالبہ بڑے پیمانے پر سامنے آیا تھا کہ برطانیہ سانحہ جلیانوالہ باغ پر معافی مانگے۔

برٹش انڈیا کی تاریخ کا یہ وحشت ناک واقعہ 13 اپریل 1919 کو پیش آیا تھا، جس میں کم سے کم 370 افراد گولیوں کا نشانہ بنے تھے اور نشانہ بننے والے افراد میں بزرگ، ادھیڑ عمر، نوجوان اور کم عمر لڑکے بھی شامل تھے۔

برطانوی میڈیا کی رپورٹس میں کہا گیا کہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس واقعے میں 379 افراد گولیوں کا نشانہ بنے تھے، تاہم بعض مؤرخین کے مطابق اس سانحے میں نشانہ بننے والے افراد کی تعداد اس سے ڈھائی گنا زیادہ تھی۔

بعض مؤرخین کے مطابق جلیانوالہ باغ سانحے میں انگریز فوج کی گولیوں کا نشانہ بننے والے افراد کی تعداد ایک ہزار سے زائد تھی۔

یہ واقعہ ایسے وقت میں پیش آیا تھا جب برٹش انڈیا میں انگریز سرکار نے مارشل لا نافذ کر رکھا تھا اور لوگوں کے ہجوم سمیت ہر طرح کے سیاسی اجتماع اور جلوس پر پابندی عائد تھی۔

تاہم جلیانوالہ باغ میں اکٹھے ہونے والے افراد کسی سیاسی جلسے میں نہیں بلکہ ایک مذہبی و ثقافتی تقریب کے لیے جمع ہوئے تھے۔

لندن کے میئر صادق خان نے بھی دسمبر 2017 میں جلیانوالہ باغ کا دورہ کیا تھا—فائل فوٹو: اے ایف پی
لندن کے میئر صادق خان نے بھی دسمبر 2017 میں جلیانوالہ باغ کا دورہ کیا تھا—فائل فوٹو: اے ایف پی

بتایا جاتا ہے کہ جلیانوالہ باغ میں مذہبی و ثقافتی تقریب کے لیے جمع ہونے والے ان ڈیڑھ ہزار سے زائد افراد کو اس بات کا علم نہیں تھا کہ لوگوں کے اجتماع پر پابندی ہے۔

ایک ساتھ اتنے لوگوں کے جمع ہونے کے بعد انگریز فوج کے افسر برگیڈیئر جنرل ریجنالڈ ایڈورڈ ہیری ڈائر متعدد اہلکاروں کے ساتھ جلیانوالہ باغ پہنچے اور لوگوں کے ہجوم پر اہلکاروں کو سیدھی فائرنگ کرنے کا حکم دیا۔

بتایا جاتا ہے کہ انگریز فوج نے لوگوں کے ہجوم پر ایک ایسے وقت میں باغ کے مرکزی دروازے پر کھڑے ہوکر فائرنگ کی جب لوگ مذہبی و ثقافتی رسومات نبھانے میں مصروف تھے۔

سابق برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے 2013 میں جلیانوالہ باغ کا دورہ کیا تھا—فائل فوٹو: اے ایف پی
سابق برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے 2013 میں جلیانوالہ باغ کا دورہ کیا تھا—فائل فوٹو: اے ایف پی

مؤرخین کے مطابق انگریز فوج کے اہلکار اس وقت تک لوگوں کو گولیوں سے نشانہ بناتے رہے جب تک ان کی گولیاں ختم نہ ہوئیں۔

اس واقعے کے بعد برگیڈیئر جنرل ریجنالڈ ایڈورڈ ہیری ڈائر کو عہدے سے ہٹادیا گیا تھا لیکن تب تک وہ برطانوی فوج کے اعلیٰ افسران اور انگریز حکومت کے شاطر حکمرانوں کی نظر میں ہیرو بن چکے تھے۔

جنرل ریجنالڈ ایڈروڈ ہیری ڈائر کو اس سانحے سے محض چند ماہ قبل ہی برگیڈیئر جنرل کے عہدے پر عارضی طور پر تعینات کیا گیا تھا، وہ 1915 میں کرنل بنے تھے۔

واقعے کے بعد جلیانوالہ باغ میں گولیوں کا نشانہ بننے والے افراد کے اہل خانہ کی جانب سے احتجاجی مظاہرے کیے جاتے رہے—فائل فوٹو: ٹائمز آف انڈیا
واقعے کے بعد جلیانوالہ باغ میں گولیوں کا نشانہ بننے والے افراد کے اہل خانہ کی جانب سے احتجاجی مظاہرے کیے جاتے رہے—فائل فوٹو: ٹائمز آف انڈیا

انہیں عام طور پر جنرل ڈائر کہ کر پکارا جاتا تھا، وہ متحدہ بھارت کے افراد پر سختی کرنے والے فوجی افسر کے طور پر مشہور تھے۔

ایسی اطلاعات بھی تھیں کہ جنرل ڈائر نے انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کی جدوجہد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے افراد کے لیے نجی عقوبت خانے بھی بنا رکھے تھے۔

جنرل ڈائر زیادہ تر لاہور اور امرتسر کے قریبی علاقوں میں اٹھنے والی بغاوت کو کچلے میں پیش پیش تھے۔

جلیانوالہ باغ سانحے کی یادگاروں کو محفوظ کیا جا چکا ہے، دیواروں پر گولیوں کے نشان بھی محفوظ کیے جا چکے ہیں—فائل فوٹو: ڈی این اے انڈیا
جلیانوالہ باغ سانحے کی یادگاروں کو محفوظ کیا جا چکا ہے، دیواروں پر گولیوں کے نشان بھی محفوظ کیے جا چکے ہیں—فائل فوٹو: ڈی این اے انڈیا

انہوں نے کمیشن پاس کرکے برٹش فوج میں شمولیت اختیار کی تھی جس کے بعد انہیں ابتدائی طور پر بنگال برٹش فوج اور بعد ازاں برٹش انڈیا فوج میں بھیج دیا گیا۔

جنرل ڈائر سانحہ جلیانوالہ باغ پر کئی سال تک نفرت انگیز گفتگو کرتے رہے اور اسے جائز عمل قرار دیتے ہوئے ہندوستانیوں کو برا بھلا کہتے رہے۔

جنرل ڈائر 1927 میں برین ہیمبرج سے چل بسے، موت سے قبل وہ چند سال تک انتہائی علیل رہے اور انہیں فالج کے کئی دورے بھی پڑے۔

جنرل ڈائر نے کبھی بھی اپنی غلطی پر معذرت نہ کی بلکہ وہ فائرنگ کے احکامات کو جائز قرار دیتے رہے—فائل فوٹو: ہندوستان ٹائمز
جنرل ڈائر نے کبھی بھی اپنی غلطی پر معذرت نہ کی بلکہ وہ فائرنگ کے احکامات کو جائز قرار دیتے رہے—فائل فوٹو: ہندوستان ٹائمز