ٹرمپ نے یمن جنگ میں سعودی عرب کی حمایت ختم کرنے کی قرارداد ویٹو کردی

اپ ڈیٹ 17 اپريل 2019
یہ قرارداد میرے آئینی اختیارات کو کمزور کرنے کی خطرناک کوشش ہے، ڈونلڈ ٹرمپ — فوٹو: اے پی
یہ قرارداد میرے آئینی اختیارات کو کمزور کرنے کی خطرناک کوشش ہے، ڈونلڈ ٹرمپ — فوٹو: اے پی

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کانگریس کی جانب سے یمن جنگ میں سعودی عرب کی حمایت کے خاتمے کے لیے منظور کی گئی قرارداد ویٹو کردی۔

فرانسیسی خبررساں ادارے ’ اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ نے ویٹو کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ’ یہ قرارداد غیر ضروری اور میرے آئینی اختیارات کو کمزور کرنےکی خطرناک کوشش ہے جو آج اور مستقبل میں امریکی شہریوں اور سروس کے بہادر ارکان کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال دیتی‘۔

خیال رہے کہ یہ دوسری مرتبہ ہے کہ امریکی صدر نے کانگریس کی جانب سے منظور شدہ قرارداد ویٹو کی ہے۔

مزید پڑھیں: امریکی کانگریس نے یمن جنگ کی ’حمایت‘ ختم کرنے کا بل منظور کرلیا

اس سے قبل امریکی صدر نے میکسیکو کی سرحد پر دیوار کی تعمیر سے متعلق نافذ ایمرجنسی کے خلاف منظور کی گئی قرارداد ویٹو کی تھی۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اقدام پر انٹرنیشنل ریسکیو کمیٹی کے صدر اور چیف ایگزیکٹو آفیسر ڈیوڈ ملی بینڈ نے کہا کہ ’ اس اقدام کو ویٹو کرنا اس جنگی حکمت عملی جاری رکھنےکی اجازت ہے جس کے نتیجے میں دنیا کا بدترین انسانی بحران پیدا ہوا ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ یمن میں ایک کروڑ افراد قحط کے خدشات کا شکار ہیں، وہاں ایک ہفتے میں ایک سو سے زائد شہری جاں بحق ہوتے ہیں اور اکثر افراد کسی اور مقام کے بجائے اپنے گھروں ہی میں حملے کا نشانہ بنتے ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ سعودی حمایت یافتہ یمنی حکومت اور حوثی باغیوں کے درمیان خونی جنگ میں امریکا کا تعاون کئی وجوہات کی بنیاد پر ضروری ہے جن میں اتحادی ممالک میں مقیم 80 ہزار سے زائد امریکی شہریوں کی حفاظت اولین ترجیح ہے۔

امریکی صدر نے کہا کہ یہ ممالک یمن سے حوثی باغیوں کے حملے کا نشانہ بنتے ہیں۔

ٹرمپ نے کہا کہ اس قرارداد سے امریکا کی خارجہ پالیسی اور دو طرفہ تعلقات کو نقصان پہنچے گا۔

یہ بھی پڑھیں: ٹرمپ کے ایمرجنسی کے نفاذ کو کالعدم قرار دیے جانے کا امکان

انہوں نے کہا کہ اس قرارداد سے شہریوں کو ہلاکتوں سے بچانے کی کوششوں ،خلیج نما عرب میں القاعدہ اور یمن میں داعش اور ایران کی نقصان دہ سرگرمیوں کو روکنے کی کوششوں پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

مذکورہ قرارداد جسے امریکی ایوان نمائندگان میں رواں ماہ کے آغاز اور سینیٹ میں مارچ میں منظور کیا گیا ایک تاریخی سنگ میل تھا۔

واضح رہے کہ تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا تھا کہ کانگریس نے دہائی پر مشتمل ’جنگی اختیارات کی قرارداد‘ کے خلاف قانونی طریقہ استعمال کرتے ہوئے غیر ملکی تنازعات کو روکنے اور انہیں ختم کرنے کی کوشش کی۔

ٹرمپ کی جانب سے قرارداد ویٹو کیے جانے پر ڈیموکریٹس نے کہا کہ کانگریس کی منظوری کے بغیر امریکا کی جانب سے یمن تنازع میں انٹیلی جنس شیئرنگ اور اب فضائی ایندھن کی بلاتعطل فراہمی غیرآئینی ہے۔

اسپیکر نینسی پیلوسی نے بھی مختلف ٹوئٹس کے ذریعے ٹرمپ کے اقدام پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’یمن میں جاری تنازع ایک خوفناک انسانی بحران ہے جو پوری دنیا کے ضمیر کو چیلنج کررہا ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’ امریکی صدر نے اس دل سوز بحران میں امریکا کی شرمناک مداخلت جاری رکھنے کو منتخب کیا ہے‘۔

قرارداد ویٹو کرنے پر متحدہ عرب امارات کا خیر مقدم

متحدہ عرب امارات نے یمن جنگ میں سعودی عرب کی حمایت ختم کرنے سے متعلق کانگریس کی منظور کردہ قرارداد ویٹو کرنے کا خیر مقدم کیا ہے۔

یو اے ای کے وزیر مملکت برائے امور خارجہ انور گارگش نے ٹوئٹ کیا کہ ’ یمن میں عرب اتحاد کی حمایت کے لیے ٹرمپ کا اقدام اتحادیوں کی جانب ایک مثبت قدم ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’ صدر ٹرمپ کا اہم فیصلہ بروقت اور اسٹریٹجک ہے‘۔

یمن جنگ

خیال رہے کہ سعودی حمایت یافتہ یمن کی حکومت اور باغیوں کے درمیان خانہ جنگی سے گزشتہ 3 سال میں 10 ہزار سے زائد افراد قتل ہوچکے ہیں۔

نیو یارک ٹائمز میں شائع ہونے والے ایک آرٹیکل میں کہا گیا تھا کہ ’سامنے آنے والے ہزاروں افراد کی ہلاکت متاثرین کی کل تعداد کا صرف ایک حصہ ہے اور امریکی حکومت حالات خراب کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہی ہے‘۔

مزید پڑھیں: ‘سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات، یمن میں جنگی جرائم کے مرتکب‘

علاوہ ازیں اگر یمن تنازع کی بات کی جائے تو عرب دنیا کے اس غریب ترین ملک میں 2014 میں اس وقت تنازع شروع ہوا جب حوثی باغیوں نے دارالحکومت صنعا کا کنٹرول سنبھالا اور بین الاقوامی سطح پر تسلیم کردہ حکومت کا تختہ الٹ دیا۔

اس کے بعد 2015 میں سعودی عرب کی قیادت میں عرب ممالک کے اتحاد نے حوثیوں کے خلاف لڑائی کا آغاز کیا۔

تاہم اس تنازع کی زد میں بڑی تعداد میں عام شہری آئے اور ہیضے کی وبا نے شدت اختیار کی، جبکہ تنازع کی زد میں اب تک 10 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔

گزشتہ برس کے ابتدائی 6 ماہ میں اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے گروہوں نے 80 لاکھ سے زائد یمن کے شہریوں کو امداد فراہم کی تھی اور ان میں سے زیادہ تر ایسے تھے، جنہیں یہ تک نہیں معلوم تھا کہ ان کے لیے اگلی غذا کہاں سے آئے گی۔

تبصرے (0) بند ہیں