لکھاری مصنف اور صحافی ہیں۔
لکھاری مصنف اور صحافی ہیں۔

جمہوری تبدیلی کے معاملے پر جب بھی بات ہوتی ہے تو اکثر اوقات اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کا سوال چھیڑا ہی نہیں جاتا۔ تاہم پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سر یہ سہرا جاتا ہے کہ جس نے اس نہایت اہم معاملے پر توجہ دی ہے۔ پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2019ء کی نتیجہ خیزی کے حوالے سے خدشات بھلے ہوں مگر اس کی منظوری گورننس کو عوام کے قریب تر لانے کی ایک سب سے سنجیدہ کوشش کو ظاہر کرتی ہے۔ ایک منتخبہ اور بااختیار مقامی نظامِ حکومت جمہوری عمل کے لیے زبردست اہمیت رکھتی ہے۔

مقامی نظامِ حکومت آئینی فرض کے باوجود بھی ماضی میں جمہوری طور پر منتخبہ حکومتوں کے لیے کبھی بھی ترجیح نہیں رہا۔ جبکہ مقامی اداروں کو غیر مؤثر رکھنے کی کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی ہے۔ حتیٰ کہ وہ سیاسی جماعتیں جو صوبائی خودمختاری کی تحریک کی علم بردار بنتی آ رہی ہیں وہ بھی اختیار کو نچلی سطح پر منتقل کرنے پر راضی نظر نہیں آتیں۔

یہی وجہ ہے کہ 2008ء میں ملک کے اندر جمہوریت کے لوٹنے کے بعد کئی برسوں تک فعال مقامی حکومتوں کے فقدان پر زیادہ حیرت نہیں ہوتی۔ اس عرصے میں پیلپز پارٹی کی مکمل حکومتی مدت (2008 سے 2013) اور مسلم لیگ (ن) کے ابتدائی 3 برس شامل ہیں۔ سپریم کورٹ کی مداخلت کے بعد جا کر ہی 2015ء میں انتخابات کروائے گئے۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا جب مقامی انتخابات کا انعقاد جماعتی بنیادوں پر ہوا تھا۔

تاہم صوبوں نے مقامی حکومتوں کو حقیقتاً فعال بنانے کے مرحلے میں نہ ہونے کے برابر سہولت فراہم کی۔ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) اور سندھ میں پیپلزپارٹی کی جانب سے نئی قانون سازی کے تحت کاٹ چھانٹ کے بعد دیے گئے اختیارات کے باعث مقامی ادارے غیر مؤثر بنے رہے۔ مقامی حکومتون کو ترقیاتی کاموں کے لیے معمولی اختیارات اور فنڈز حاصل تھے۔ معاملات اس وقت کچھ بہتر ہوئے جب ایک بار پھر سپریم کورٹ نے مداخلت کرتے ہوئے صوبائی اداروں کو مقامی اداروں تک اختیار کی منتقلی کے عمل میں تیزی لانے کا حکم دیا۔

کتنی ستم ظریفی کی بات ہے، مقامی نظامِ حکومت ایک دوسرے کے پیچھے آنے والی فوجی حکومتوں کے زیر اقتدار بہت زیادہ بااختیار تھا، البتہ اس کی وجوہات جمہوریت کی مضبوطی کے علاوہ کچھ اور ہی تھیں۔ جنرل مشرف کے فوجی نظام حکومت میں مقامی حکومتوں، اگرچہ اس میں چند خرابیاں تھیں، کو بہت زیادہ انتظامی اور مالیاتی اختیارات حاصل تھے۔ مقامی نظام کو مزید جمہوری بنانے کی کوششوں کے بجائے مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کی حکومتوں نے تو انہیں اختیارات سے عاری کردیا۔ دونوں صوبوں میں مرکزیت پر مبنی اقتداری ڈھانچے موجود تھے۔

اگرچہ پی ٹی آئی کا تجربہ خیبر پختونخوا میں تو شاید زیادہ کامیاب نہ رہا ہو مگر وہاں مقامی نظامِ حکومت کو مضبوط بنانے کی ایک سنجیدہ کوشش ضرور کی گئی ہے۔ یہ تو صاف ظاہر ہے کہ خیبرپختونخوا میں عدم مرکزیت دیگر صوبوں سے وسیع تر ہے۔ صوبے نے مقامی حکومت کی ضلعی، تحصیل اور یونین کونسل کی سطح سے بھی آگے جاتے ہوئے دیہات اور نیبرہوڈ کونسلز تک کی نچلی سطح تک اختیارات منتقل کیے۔

تاہم اس نظام کو مزید مؤثر بنانے کے لیے بہتری کی ابھی کافی گنجائش موجود ہے۔ اس نظام میں کام کرنے کا طریقہ زیادہ آسان بنانے کے لیے سیاسی و بیوروکریٹک رکاوٹوں کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔ ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ صوبائی حکومت کس قسم کی تبدیلیاں لاتی ہے۔

بلاشبہ پنجاب کا حالیہ قانون برائے مقامی حکومت وسیع تر اور بنیادی اصلاحات کا تصور پیش کرتا ہے۔ منتخبہ نیبرہوڈ اور ولیج کونسلز کو اپنے علاقوں میں ترقیاتی کام کے حوالے سے فیصلوں اور نگرانی کے اختیارات حاصل ہونے سے لوگوں کو ان کی زندگیوں پر زبردست اختیار حاصل ہوسکے گا۔ اس کے باعث موجودہ اقتداری ڈھانچہ کمزور بھی ہوسکتا ہے۔

نئے نظام میں سالانہ صوبائی بجٹ میں سے 30 فیصد حصہ مقامی حکومتوں کو منتقل کرنے کا وعدہ کیا گیا ہے۔ یہ صحیح سمت کی جانب سے ایک قدم ہے جو علاقائی تفریق کم کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ یقیناً، نئے نظام کو جڑ پکڑنے میں وقت لگے گا مگر ترقیاتی کام میں عوام کو شامل کرنے کی جانب پہلا اور غیرمعمولی اقدام ہے۔ اختیارات کی مرکزیت چند علاقوں کی محرومیوں کی وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ ہے۔

اس ایکٹ میں شامل اہم اور بنیادی اصولوں میں سے ایک ٹاؤن اور شہر کے میئرز کے براہ راست انتخابات کا انعقاد ہے۔ یہ نظام زیادہ تر جمہوریتوں میں قائم ہے مگر پاکستان میں اس پر کبھی عمل درآمد نہیں کیا گیا۔ یہ بات بلاشبہ سمجھ بھی آتی ہے۔ براہ راست انتخابات سے شراکتی جمہوریت (Participatory democracy) مضبوط ہوگی۔ محصول کاری (Taxation) اور ترقیاتی کام پر اختیارات حاصل ہونے سے میئر کا عہدہ بلاشبہ مؤثر بن جائے گا۔

بلاشبہ پاکستان میں چند شہروں کے اندر میئرل نظام موجود ہے لیکن وہاں میئرز زیادہ بااختیار نہیں کیونکہ حقیقی انتظامی اختیارات صوبائی حکومتوں کے پاس ہیں۔ لاکھوں لوگوں کی آبادی پر مشتمل شہروں کا انتظام کم و بیش مقامی حکومت کا صوبائی وزیر ہی سنبھالتا ہے۔

پنجاب کے نئے قانون میں مجوزہ جامع اختیارات کی منتقلی کا عمل موجودہ اقتداری نظام کے قوتِ عمل میں ایک زبردست تبدیلی کا باعث بن سکتا ہے۔ چونکہ اراکینِ قومی و صوبائی اسمبلی کے بجائے منتخبہ میئرز کو ترقیاتی کاموں کا اختیار حاصل ہوگا اس لیے ان اصلاحات پر حکمران جماعت پی ٹی آئی کے اندر اور باہر موجود قانون سازوں کو لاحق تحفظات قابلِ فہم ہیں۔

یہاں ایک اہم سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ آیا حکومتِ سندھ بھی اپنے موجودہ مقامی نظامِ حکومت کو تبدیل کرکے اختیارات نچلی سطح پر منتقل کرنا چاہے گی یا نہیں۔ بلدیاتی ملازمتوں سمیت دیگر معاملات پر زیادہ سے زیادہ اختیارات اپنے پاس رکھنے سے مقامی ادارے غیر فعال بن کے رہ جاتے ہیں۔

کس طرح زیادہ سے زیادہ اختیارات اپنے پاس رکھ کر صوبائی حکومت نے 2 کروڑ کی آبادی والے شہر میں منتخبہ حکام کو معمولی اختیارات کا حامل بنایا ہوا ہے، اس کی واضح مثال پاکستان کا سب سے بڑا شہر کراچی ہے۔ حتیٰ کہ وہاں ٹھوس کچرا اٹھانے کا کام بھی حکومتِ سندھ نے اپنے زیراختیار لے لیا ہے۔

اب اس پر حیرت کیا ہوگی اگر کراچی ایک سب سے غیرمنظم شہر بن چکا ہے، اس بدانتظامی کے باعث اہم بلدیاتی سروسز مکمل طور پر مفلوج ہیں۔ حیدرآباد، سکھر اور لاڑکانہ جیسے دیگر میٹروپولیٹن مراکز کی صورتحال بھی کچھ مختلف نہیں ہے۔ یہی حالات صوبے میں سنگین سیاسی اختلاف کو وسعت دینے کا باعث بنے ہیں۔ اختیارات کی منتقلی پر پیپلزپارٹی کی مزاحمت سے صورتحال مزید بدتر ہوسکتی ہے۔

18ویں ترمیم نے اختیارات صوبائی سطح تک منتقل کرکے انہیں زیادہ سے زیادہ خودمختار بنا کر پاکستان کو ایک حقیقی وفاقی ریاست میں بدل دیا، پیپلزپارٹی نے جہاں اس ترمیم کی تخلیق میں مرکزی کردار ادا کیا وہیں یہ جماعت مقامی سطح تک اختیارات کی منتقلی کے حوالے سے اس ترمیم میں شامل ایک اہم اصول کی تعمیل پر راضی نظر نہیں آتی۔ یہاں پر جماعت کی جمہوری اور ترقی پسند ساکھ پر سوالات اٹھتے ہیں۔ اختیارات کی مقامی سطح تک منتقلی پر ان کی پالیسی ذاتی مفادات پر مبنی ہے۔

دوسری طرف، اگرچہ پنجاب میں نیا قانون بلاشبہ ایک اہم بنیادی اقدام ہے مگر منتقلی کے اس عمل کی مضبوطی اور بحالی کے لیے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے، جو حتی الامکان زیادہ سے زیادہ گورننس کی جمہوری سطوں کو پانے کے لیے نہایت اہم ہے۔

یہ مضمون 8 مئی 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں