ایک وقت تھا جب دنیا میں صرف پرنٹ میڈیا کا راج تھا۔ تحریریں اخبارات اور رسائل و جرائد وغیرہ کی شکل میں صرف کاغذوں پر ہی چھپا کرتی تھیں جن کی ترسیل زیادہ تر علاقائی یا ملکی سرحدوں تک محدود ہوتی تھی۔ لکھنے والے تعداد میں قلیل اور تعلیم یافتہ ہوتے تھے۔ تحریریں نہایت نَپی تُلی، پُرمغز اور اعلیٰ اخلاقی معیارات کے مطابق ہونے کے باعث قلم کاروں کو معاشرے میں ایک بلند مقام حاصل تھا اور لوگ انہیں مشعلِ راہ کے طور پر دیکھتے تھے۔

اپنی تحریریں عوام الناس تک پہنچانے کے لیے قلم کاروں کے پاس پرنٹ میڈیا کے علاوہ اور کوئی ذریعہ موجود نہ تھا اور چونکہ تحریریں پبلش ہونے سے پہلے کڑی اور غیر جانبدارانہ ادارت سے گزرتی تھیں اس لیے قلم کار تحریروں کو قابلِ اشاعت بنانے کے لیے خوب محنت بھی کرتے تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب مطالعے کا شوق بھی عروج پر ہوتا تھا اور پرنٹ میڈیا کی ہر شکل بہت مقبول تھی۔

آج کے دور میں الیکٹرانک میڈیا، انٹرنیٹ میڈیا اور سوشل میڈیا واضح طور پر پرنٹ میڈیا کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے نظر آتے ہیں بلکہ اگر کہا جائے کہ پرنٹ میڈیا بھی کسی حد تک الیکٹرانک، انٹرنیٹ و سوشل میڈیا کا محتاج ہوچکا ہے تو غلط نہیں ہوگا۔ پرنٹ میڈیا کی ہر شکل (یعنی اخبارات، رسائل، جرائد، میگزین و دیگر) انٹرنیٹ پر اپنی ویب سائٹ بنانے، سوشل میڈیا پر اپنا ایک پیج بنانے اور سمارٹ فون کے لیے ایک ایپ لانچ کرنے پر مجبور ہے تاکہ اپنا مواد پوری دنیا میں موجود زیادہ سے زیادہ قارئین تک پہنچا سکیں۔

مزید پڑھیے: میرا پہلا بلاگ

اس ٹیکنالوجیکل انقلاب کے بعد آن لائن لکھنے کا رواج شروع ہوا تو ہر کسی کو اپنے خیالات لوگوں تک پہنچانے کا آسان ذریعہ مل گیا۔ لوگوں نے ذاتی بلاگ بنا لیے، سوشل میڈیا پر تحریریں بغیر کسی ادارت کے گردش کرنے لگیں اور آن لائن پلیٹ فارمز پر کمزور ادارت کے باعث تحریروں میں کوالٹی اور اخلاقی معیار گرنے لگا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ حالیہ کچھ عرصے میں بلاگرز کی ایک بڑی کھیپ معرض وجود میں آگئی اور پھر غیر معیاری بلاگز کا ایک بحرِ بیکراں بہنے لگا۔

دوسری طرف معاشرے نے ایک اور کروٹ لی۔ لوگوں کا تحریریں پڑھنے کے بجائے audio visual content (سمعی و بصری مواد) کی طرف رجحان بڑھنے لگا کیونکہ 5 منٹ کی ایک دلچسپ ویڈیو دیکھنا ایک ہزار الفاظ والی خشک تحریر پڑھنے سے کہیں آسان ہوتا ہے۔ لہٰذا یہ مسئلہ دو چند ہوگیا، یعنی ایک تو لکھاریوں کی تحریروں میں جان نہیں اور اس پر مستزاد یہ کہ تحریریں پڑھنے والے قارئین کی تعداد تیزی سے کم ہوتی جا رہی ہے۔

(نوٹ: نئی نسل میں مطالعہ کی عادت کیسے پیدا کی جائے اور معلومات کے حصول کے لیے audio visual content (سمعی و بصری مواد) تک محدود ہوجانے کے نقصانات پر قلم طرازی پھر سہی)

اب ہر لکھاری کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کی تحریر کیسی بھی ہو لیکن شائع کسی مشہور اور بڑے پلیٹ فارم پر ہو تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اسے پڑھیں۔ چونکہ معتبر پلیٹ فارمز پر آج بھی تحریروں کو اچھی طرح پرکھا جاتا ہے اور صرف معیاری تحریریں ہی شائع کی جاتی ہیں اس لیے اگر تحریر مطلوبہ معیار کے مطابق نہ ہو تو شائع نہیں ہو پاتی جس کے نتیجے میں قلم کار مایوسی کا شکار ہوجاتا ہے۔

اکثر لوگ مجھ سے رابطہ کرتے ہیں اور اس حوالے سے پوچھتے ہیں کہ بڑے پلیٹ فارم پر تحریر کیسے شائع کی جائے۔ جب ان سے مسترد شدہ تحریر منگوا کر پڑھیں تو حیرت گم ہوجاتی ہے کہ لکھاری اس تحریر کے بارے میں کیسے توقع رکھ سکتا ہے کہ یہ شائع ہوجائے گی؟

یوں تو کالم نگاری و مضمون نویسی ایک نہایت پیچیدہ فن ہے لیکن اگر چند بنیادی چیزوں کا خیال رکھا جائے تو ایک جاندار تحریر اور معیاری بلاگ تخلیق کیا جاسکتا ہے جسے رد کرنا ایڈیٹر کے لیے آسان نہ ہو۔

تو آئیے، نئے لکھاریوں کے لیے انہی باتوں کا احاطہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

1: لکھنے کا مقصد

لکھنے سے پہلے آپ کو لکھنے کا مقصد واضح ہونا چاہئے کہ آپ کیوں لکھ رہے ہیں؟ لکھنے کے کئی ایک مقاصد ہوسکتے ہیں لیکن لکھنے کا ارفع ترین مقصد یہ ہے کہ اپنے خیالات، مشاہدات، علم اور تجربے کو الفاظ اور جملوں میں ڈھال کر ایسی تحریر تخلیق کی جائے جس سے قاری کا عمل بہتری کی طرف گامزن ہو۔

اگر تحریر پڑھ کر قاری میں کسی اچھے عمل کی تحریک جنم نہیں لیتی تو یقین کیجیے کہ لکھاری کا لکھنا، ناشر کا شائع کرنا اور قاری کا پڑھنا رائیگاں چلا جائے گا۔ البتہ اگر آپ یہ مقصد سامنے رکھ کر تحریر لکھ رہے ہیں تو لکھنے کے دیگر ادنیٰ مقاصد بطور بائی پراڈکٹ خود بخود حاصل ہوجائیں گے۔

2: واضح مرکزی خیال

بلاگ لکھنے سے پہلے لکھاری کے ذہن میں تحریر کا مرکزی خیال بالکل واضح ہونا چاہیے کہ وہ قاری کو کیا کہنا چاہتا ہے۔ اگر لکھاری اس حوالے سے خود تذبذب کا شکار ہے اور بس تحریر نام کی کوئی چیز اپنے قلم سے کسی نہ کسی صورت نکالنا چاہتا ہے تو ایک متاثر کن تحریر ہرگز وجود میں نہیں آسکتی بلکہ ایسی صورت میں لکھتے وقت وہ مختلف سمتوں میں بھٹکتا پھرے گا اور ضروری نہیں کہ قاری بھی اس کے ساتھ تحریر کے آخر تک رہے۔

مرکزی خیال تحریر کا وہ بنیادی نقطہ ہوتا ہے جس کے گرد لکھاری نے قاری کا ہاتھ پکڑ کر طواف کروانا ہوتا ہے اور تحریر کی کامیابی یہ ہے کہ تحریر پڑھنے کے بعد قاری بھی بالکل وہی سوچنا شروع کردے، جو لکھنے والا کہنا چاہ رہا تھا، اور یہ مقصد ایک مضبوط اور واضح مرکزی خیال کے بغیر حاصل ہونا کسی صورت ممکن نہیں۔

3: مرکزی خیال کا ماخذ

مرکزی خیال کا ماخذ لکھاری کی حساسیت میں پوشیدہ ہوتا ہے۔ اگر وہ حساس طبع ہے تو دورانِ مطالعہ اور اپنے اردگرد مشاہدے کے دوران اسے بے شمار ایسے موضوعات ملیں گے جس پر لکھ کر آگہی دی جاسکتی ہے اور اصلاحِ معاشرہ میں اپنا حصہ ڈالا جاسکتا ہے۔

مزید پڑھیے: تحریر کو مفت کا مال سمجھنے والوں کے نام

ایک حساس لکھاری کے پاس مرکزی خیالات کی کمی نہیں ہوتی۔ اسے انسانی چہروں سے موضوعات مل جاتے ہیں، وہ لوگوں کی کہانیوں سے سلگتے ہوئے خیالات کشید کر لیتا ہے، اسے راہ چلتے فٹ پاتھ یا کسی بازار سے کہانیاں مل جاتی ہیں۔ سینے میں درد محسوس کرنے والا دل موجود ہو تو موضوعات اور مرکزی خیال لکھاری کی چوکھٹ پر اپنی باری کے انتظار میں بیٹھے رہتے ہیں۔

4: مرکزی خیال کا انتخاب

اگر آپ کے پاس موضوعات کا انبار لگا ہے تو ان میں سے ایک موزوں مرکزی خیال کا انتخاب کرنا بہت اہمیت کا حامل ہے۔ کسی ایسے موضوع کا انتخاب ہرگز نہ کریں جس پر پہلے ہی بہت کچھ لکھا جاچکا ہو اور اس ایشو پر پہلے سے رائے عامہ ہموار ہوچکی ہو۔ انٹرنیٹ پر سرچ کرکے معلوم کریں کہ کس ایشو پر اب تک کیا لکھا کچھ جا چکا ہے۔ پہلے سے گھسے پٹے موضوع کا انتخاب اسی صورت میں کریں اگر اس پر کسی نئی سمت میں بات ہوسکتی ہے ورنہ کوئی ایسا موضوع منتخب کریں جس پر بہت کم بات ہوئی ہو۔ واضح رہے کہ مرکزی خیال کا منفرد ہونا ہی کافی نہیں بلکہ اسے ٹھوس اور اتنا اہم بھی ہونا چاہیے کہ ایک تحریر اس پر صَرف کی جاسکے۔

5: عنوان

مرکزی خیال کے بعد سب سے اہم چیز بلاگ کا عنوان ہے جو قاری کو دعوتِ مطالعہ دیتا ہے۔ عنوان کی خوبصورتی اسی میں ہے کہ یہ مختصر ترین الفاظ میں بلاگ کا مرکزی خیال بیان کر دے۔ اگر لکھاری کا تجویز کردہ عنوان مناسب نہ ہو تو عموماً ایڈیٹر اپنے تجربے کی روشنی میں عنوان تبدیل کر دیتا ہے۔ بہترین عنوان وہ ہوتا ہے جسے دیکھ کر قاری ایک بار بلاگ کو کھول کر پڑھنے کی جستجو ضرور کرے۔

6: حرفِ آغاز

پہلا پیراگراف اچھا ہو تو قاری کے پاؤں میں زنجیر باندھ دیتا ہے جس کے بعد قاری کو ساتھ لے کر چلنا سہل ہوجاتا ہے لہٰذا تحریر کی ابتدا ایسے الفاظ اور اتنے دلکش اسلوب سے ہونی چاہیے کہ قاری کو عنوان پر کلک کرکے پچھتاوا نہ ہو۔ پہلے پیراگراف کی ترکیب مرکزی خیال سے ہٹ کر بھی ہوسکتی ہے لیکن اس کا بالواسطہ تعلق موضوع سے ضرور ہونا چاہئے۔

7: منطقی ترتیب

دورانِ تحریر خیالات، حالات اور واقعات ایک منطقی ترتیب سے اس طرح پیش کریں کہ ہر پیراگراف سے قاری کی معلومات میں سلسلہ وار اضافہ ہو اور وہ اگلے سے اگلا پیراگراف پڑھنے پر مجبور ہوتا چلا جائے۔ بے ڈھنگی ترتیب قاری کو الجھا سکتی ہے اور وہ بیچ راہ میں دلچسپی کھو دے گا۔ پیش کردہ مواد کی ایک منظم ترتیب ہی اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ قاری تحریر کے آخر تک دلچسپی برقرار رکھے گا۔

8: مقصدیت

تحریر کی مقصدیت 2 حصوں پر مشتمل ہے؛

  • اول یہ کہ قاری کچھ حاصل کر رہا ہے یا نہیں؟
  • دوم یہ کہ قاری کسی نتیجے پر پہنچ رہا ہے یا نہیں؟

بہترین معلومات فراہم کیجیے تاکہ قاری تحریر سے کچھ حاصل کرے اور معلومات کو اس طرح منظم کریں کہ پیش کردہ معلومات کی بنیاد پر وہ باآسانی کوئی نتیجہ بھی اخذ کرسکے۔ اگر آپ نے معلومات کو تحریر میں کبوتروں کے دانے کی طرح بکھیر دیا تو قاری چند دانے چُگ کر اڑان بھر لے گا۔

9: صحتِ مواد

پیش کردہ معلومات، واقعات یا حوالہ جات میں غلطی نہ صرف قاری پر حد درجہ بُرا اثر ڈالتی ہے بلکہ لکھاری کے بارے میں غیر ذمہ دار اور بددیانت ہونے کا تاثر بھی پیدا کرتی ہے۔ اسی طرح ہجے، املا یا عبارت کی غلطی لکھاری کے کم علم ہونے کی دلیل مانی جاتی ہے لہٰذا مصدقہ و مستند معلومات کو معیاری جملوں اور درست الفاظ میں بیان کریں۔

10: سادگی بیان

قاری کے لیے حرفِ آغاز سے حرفِ آخر تک تفہیم کا راستہ کیسا ہوگا، یہ لکھاری کے قلم پر منحصر ہے۔ اگر آپ نے اس کے راستے میں ڈکشنری زدہ دقیق الفاظ کے روڑے اٹکا دیے، طویل پیچیدہ جملوں کی سرنگیں بچھا دیں، غیر ضروری شماریاتی ڈیٹا (statistical data) کی بھول بھلیاں تعمیر کردیں اور اسے الفاظ و مفہوم کی تکرار میں الجھا دیا تو یقین کیجیے کہ آپ کے لکھنے کا مقصد فوت ہوگیا۔

مزید پڑھیے: مضمون نگاری سے گھر بیٹھے آمدنی ممکن

سادہ الفاظ سے بنے ہوئے چھوٹے اور بامعنی جملے استعمال کریں جن سے مفہوم خود بخود چھلکتا جائے۔ اگر آپ کا مقصد قاری کو کچھ دینا ہے تو اسے کیش دیجیے یعنی آسانی سے، سادگی سے، فوراً، جس حال میں وہ ہے، اسی حال میں اسے دے دیجیے لیکن اگر آپ قاری کو مرعوب کرنا چاہتے ہیں تو پھر وہ اوپر بیان کردہ رکاوٹوں میں الجھ کر رہ جائے گا اور ضروری نہیں کہ اس کے بعد وہ آپ سے مرعوب بھی ہو، بلکہ اسے آپ سے الرجی بھی ہوسکتی ہے۔

11: طوالت و اختصارِ بیان

تحریر حد سے زیادہ مختصر ہو یا طوالت حد سے بڑھ جائے؛ ہر دو صورتوں میں تاثیر کھو دیتی ہے۔ ایک عام بلاگ کو 800 سے 1500 الفاظ تک محدود ہونا چاہیے لیکن مضمون کی مناسبت سے اس میں اونچ نیچ ہوسکتی ہے۔ بعض موضوعات واقعی طوالت کے متقاضی ہوتے ہیں جس میں قاری کی دلچسپی برقرار رکھنا لکھاری کی مہارت کا امتحان ہوتا ہے لیکن اس سے بھی مشکل کام یہ ہے کہ اسی مفہوم کو کم الفاظ میں بیان کردیا جائے جس کے لیے جملوں کی ترکیب بدلنا پڑتی ہے حتٰی کہ بسااوقات ساری تحریر کا ڈھانچہ ہی بدلنا پڑسکتا ہے۔ اگر آپ بڑے بڑے مفہوم اختصار سے بیان کرنے میں مہارت حاصل کرلیں تو سمجھ لیں کہ آپ کالم نگاری میں ایک قدم آگے بڑھ گئے ہیں۔

12: حرفِ آخر

تحریر کا آخری پیراگراف پہلے پیراگراف سے بھی زیادہ اہم ہوتا ہے۔ پہلا پیراگراف تو قاری کو آپ کا بقیہ مضمون پڑھنے کی ترغیب دیتا ہے لیکن آخری پیراگراف سے قاری کو نہ صرف آپ کے اگلے مضمون کا انتظار رہے گا بلکہ یہ قاری کو زیرِ نظر تحریر سے متعلق فیڈ بیک دینے پر بھی مجبور کردے گا۔ لہٰذا آخری پیراگراف میں مرکزی خیال کو پوری طاقت اور نہایت اختصار کے ساتھ اس طرح پیش کریں کہ قاری نہ صرف اپنی سوچ کا دھارا تبدیل کرے بلکہ اس میں اپنی عمل کو ڈھالنے کی تحریک بھی پیدا ہو۔


یاد رکھیں

اگر آپ لکھ سکتے ہیں تو نہ لکھنا کفرانِ نعمت اور معاشرے کی حق تلفی ہے۔ معاشرے کا آپ پر حق ہے کہ خدا کی عطا کردہ صلاحیتوں کو اصلاحِ معاشرہ کے لیے بھرپور طریقے سے بروئے کار لائیں اور یہ حق ادا کرنا خود پر لازم جانیں۔ اگرچہ لکھنے والوں کی کمی نہیں لیکن قدرت نے ہر کسی کو جداگانہ اور منفرد صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ آپ دوسروں سے سیکھیں ضرور لیکن مرعوبیت سے احتراز کریں کیونکہ مرعوبیت انسان کی صلاحیتوں کو دیمک کی طرح چاٹ جاتی ہے۔

کالم نگاری الفاظ، جملوں، خیالات اور معلومات کے فنکارانہ امتزاج کا نام ہے۔ مطالعہ وسیع کریں تاکہ آپ کے پاس الفاظ، خیالات اور معلومات کا بہترین مجموعہ اکٹھا ہوسکے۔ اپنی حساسیت اور قوتِ مشاہدہ سے مضامین کا انتخاب کریں اور لکھتے جائیں۔ جیسے جیسے آپ کا اندازِ تحریر پختہ ہوتا جائے گا آپ کی تحریروں کو بہتر سے بہتر پلیٹ فارمز پر جگہ ملتی جائے گی۔

تبصرے (1) بند ہیں

SALSABEEL May 14, 2019 12:24am
رواں دواں رہیں یہ تیرے خلوص کے سفینے اس دورِ بے مہر میں ہیں گویا زندگی کے خزینے