لکھاری نئی دہلی میں ڈان کے نمائندے ہیں۔
لکھاری نئی دہلی میں ڈان کے نمائندے ہیں۔

جمعرات یعنی 23 مئی کو جو کوئی بھی ہندوستانی انتخابات میں فتحیاب ہوگا اسے ہر صورت ایران اور امریکا کے حالیہ تنازع سے لے کر چین اور امریکا کے درمیان جاری کاروباری رسہ کشی میں گہرائی سے پیوستہ اقتصادی اور سیاسی مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔

کوئی دُور رس سوچ رکھنے والا حکمران آیا تو وہ دہلی کی پالیسیوں کو چین کے عالمی منصوبے کے موافق بنا کر چین اور امریکا کے شور و غوغہ کو ہندوستان کے مفاد میں لانے کی کوشش کرے گا۔ چونکہ ایگزٹ پول وزیرِاعظم نریندر مودی کو ممکنہ فاتح قرار دیتے ہیں اس لیے وزیرِاعظم عمران خان کو کافی خوش ہونا چاہیے۔ ان کی بیان کردہ ترجیح کا جائزہ لیں تو بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اپنی حکومت کی دوسری مدت میں پہلے کے مقابلے میں لچکدار رویہ اپنائے گی۔

عمران خان کی جانب سے ہندوستان میں انتہائی دائیں بازو کی حکمرانی کی حمایت کے بعد جہاں ایک طرف ممکن ہے کہ دونوں ممالک مسئلہ کشمیر حل کرلیں لیکن دوسری طرف ان کا پسندیدہ فریق جو باقی ہندوستانی جمہوریت کا حشر نشر کرے گا اس کی زیادہ پرواہ کیوں ہو بھلا۔ جو بھی ہو، میں یہ سمجھتا ہوں کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات میں بہتری آئے گی، ظاہر ہے کہ اب بڑی طاقتوں میں فروری جیسے تنازع کی طلب جو موجود نہیں۔

جمعرات کے نتائج میں جیتنے والے کو مقامی مسائل کا بوجھ بھی اٹھانا ہوگا، جن کی اہم وجوہات میں ریکارڈ بے روزگاری اور زرعی شعبے کی بدتر حالت شامل ہیں، جبکہ مذہب اور ذات پات کے حساس معاملات پر لڑائی جگھڑوں کے سالہا سال موجود خطرات اپنی جگہ موجود ہیں۔ یعنی دیگر لفظوں میں کہیں تو کانٹوں کا یہ تاج جو مودی کے سر پر سجے گا وہ اپنے ساتھ دھچکے بھی لاسکتا ہے۔

ایگزٹ پول نے ان کی فتح کی پیش گوئی کردی ہے لیکن حزبِ اختلاف میں ایسے بہت ہی کم لوگ ہیں جو اسے سنجیدگی سے لیتے ہیں۔ ایگزٹ پول کے ساتھ ساتھ رائے عامہ سروے بھی بی جے پی کی کامیابی کی پیش گوئی کرتے ہیں۔

ہندوستانی انتخابات میں انتخابی شماریات اور ووٹنگ رجحانات کے تصور کو متعارف کروانے والے شخص نے اپنے لیے 1989 میں راجیو گاندھی کی جانب سے جیتی گئیں نشستوں جتنی نشستوں پر کامیابی کی پیش گوئی کرتے ہوئے باوقار تو ہوئے مگر انہیں اعداد شمار وہاں سے ملیں ہیں جہاں سے مکمل طور پر غلط آتے ہیں۔ پیش گوئی کے عمل میں سائنسی طریفہ کار کے تحت غلطی کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑی جاتی اس کے باوجود کچھ بھی اٹل طور پر نہیں کہا جاسکتا۔ ایگزٹ پول کرنے والوں نے 2004 اور 2009 کے انتخابات کا جائزہ لینا ہی شاید بھول گئے، ان دونوں موقعوں پر پیش گوئی کی گئی کہ اٹل بہاری واجپائی کی بھارتیہ جنتا پارٹی کامیاب ہوگی اور دونوں ہی بار انہیں منہ کی کھانی پڑی۔

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ من موہن سنگھ بطور وزیراعظم سروے کرنے والوں کے لیے کبھی بھی زیادہ اہمیت حامل نہیں رہے۔ 2009 کے بدترین نتائج آنے کے بعد بی جے پی اس قدر مایوسی کا شکار ہوگئی کہ برقی ووٹنگ مشینوں کا بہانہ بنا کر اپنی بدترین شکست کی تاویلیں پیش کرنے لگی۔

ان کے نوجوان ترجمان جی وی ایل نرسما راؤ نے اس موضوع پر ضخیم کتاب لکھ ڈالی جس میں انہوں نے ’سمجھایا‘ کہ کس طرح الیکشن ووٹنگ مشین کو کانگریس ںے اپنے مفاد میں استعمال کیا۔ آج چونکہ بی جے پی حکومت میں ہے اس لیے الیکشن ووٹنگ مشین پر شکوک و شبہات کا اظہار کرنے کی باری موجودہ حزب اختلاف جماعتوں کی ہے۔ زیادہ سے زیادہ اعتماد کی بحالی کے لیے پرانے بیلٹ پیپر کا استعمال دوبارہ شروع کیوں نہیں کرلیا جاتا؟

تاہم نتائج کے اعلان سے قبل ممکنہ ایگزٹ پول منظر عام پر لانے کے پیچھے وجوہات کیا ہوسکتی ہیں؟ اس کی ایک یقینی وجہ یہ ہے کہ یہ پول منڈیوں کو متحرک رکھتے ہیں۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح آئی سی یو میں نبض کی مانیٹرنگ کرنے والی اسکرین پر لائن کی اوپر نیچے حرکت جاری رہتی ہے، اسی طرح اگر منڈی میں اتار چڑھاو رک جائے یعنی لائن سیدھی اور بے حرکت ہوجائے تو اسے اسٹاک مارکیٹ کے لیے تباہ کن تصور کیا جاتا ہے۔ ایگزٹ پول دراصل پیسہ لگانے والوں کے لیے حتمی نتائج سے قبل زیادہ پیسے بنانے کے عمل کو جاری رکھنے کی خاطر مارکیٹ کی زندگی کی تھرتھراتی لکیروں کو تحرک میں رکھتے ہیں۔

موجودہ منظرنامہ میں آپ ایگزٹ پول کی ایک اور اہم وجہ بھی پائیں گے۔ ان پولز کے باعث غیرجانبدار عناصر کے لیے نتائج سے ڈرنے کی وجہ پیدا ہوجاتی ہے، ایک ایسا ڈر جو متعدد یا محدود لوگوں کو حکمران اسٹیبلشمنٹ کی صفوں میں کھڑے ہونے کی ترغیب دے سکتا ہے۔

جب ایسی دوڑ ہو جس میں ایک رکن اسمبلی کسی ایک جماعت کی جیت یا ہار کا فیصلہ کرسکتا ہو تو ایسے میں ایگزٹ پول جیتنے والے آزاد امیدواروں کا گھیرا تنگ کردیں گے اور یوں وزیراعظم مودی کو اس کا اچھا خاصا فائدہ حاصل ہوگا۔ ایسی کسی افراتفری اور ہتھار ڈالنے کے اندیشوں پر قابو پانے کے لیے چندربابو نائیڈو اور شراد پوار جیسے حزب اختلاف میں شامل بڑے بڑے نام مشکل میں گھرے اور ممکنہ طور پر کامیابی حاصل کرنے والے غیر جانبدار امیدواروں سے روابط قائم کرنے میں جٹے ہوئے ہیں۔ حزب اختلاف کے اس گروہ میں اوڑیسہ اور تلنگانہ کے وزراء علیٰ اور نائڈو کے علاقائی حریف شامل ہیں۔

امیدواروں پر جھپٹنے کی ان باتوں کو یہیں چھوڑتے ہیں۔ اگر مودی کو دوسری بار حکومت مل جائے تو پھر کیا ہوگا؟ اور ایگزٹ پول کی پیش گوئیوں کے برعکس حزب اختلاف کو کھلا میدان مل جائے اور انہوں نے ایک صف میں کھڑے ہو کر گنتی پوری کرلی تو پھر ایسے میں کہاں قدم درست کہاں غلط ثابت ہوسکتا ہے؟

اس منظرنامے کو تقویت پہنچانے کے لیے کانگریس نے یہ واضح کردیا ہے کہ اگر کانگریس مودی کو عہدے سے محروم رکھنے میں مدد کرسکی تو بھی یہ جماعت وزارت عظمی کا عہدہ اپنے پاس رکھنے پر زور نہیں دے گی۔ یوں مودی کو اقتدار سے محروم رکھنے کا عزم اس قدر پختہ پایا جاتا ہے۔ نمبر پورے ہونے کے بعد ایسی کوئی صورتحال پیدا ہوئی تو حزب اختلاف حکومت کو کانگریس کی حمایت ہوسکتی ہے۔

یہاں ایک یا ممکنہ طور پر متعدد باتیں اہم ہیں۔ ایسی کئی کاروباری لابیز ہیں کہ جنہیں انکار کرنا حزب اختلاف میں موجود کئی لوگوں کے لیے مشکل ہو۔ اگر انہوں نے مایاوتی جیسے امیدواروں کو پسند نہ کیا کہ جو ان کے نزدیک ممکنہ طور پر کچھ زیادہ ہی آزاد خیال اور ایسے سماجی اصلاحاتی ایجنڈا رکھتے ہیں جن کو لے کر انہیں خدشات لاحق ہوسکتے ہیں، ایسے میں کیا کیا جائے گا؟ یا پھر، اگر عام آدمی پارٹی یا ممتا بینرجی کو باہر رکھنے پر دباؤ ڈالا گیا تو کیا ہوگا؟

ایسی صورتحال میں چند ناخوشگوار نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ مایاوتی راجستھان اور مدھیہ پردیش میں کمزور کانگریس حکومتوں کو سہارا فراہم کرتی ہیں۔ حزب اختلاف کے لیے گنتی کا یہ کھیل اس وقت تک دشوار گزار راستے کو عبور کرنے کے مصداق بن سکتا ہے جب تک یہ حزب اختلاف کی حمایت میں فراخ دلی کے ساتھ زبردست انداز میں کھڑے نہیں ہوجاتے۔

اگر کمزور حزب اختلاف حکومت وجود میں آتے ہیں، تو پھر انہیں لازماً روزانہ اندرونی طور پر بلیک میلنگ کا نشانہ بنایا جائے گا اور پارلیمنٹ کے باہر ہندتوا کے گلی کے غنڈوں کی جانب سے شدید خطرات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ وہ سیاسی اور اقتصادی بحران جس کی جڑیں خلیج میں پیوستہ ہیں، ہندوستان پر نہایت سنگین اثرات مرتب کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ گزشتہ بار ایسا عراق کے ساتھ ہوا تھا، لیکن اب سعودی عرب اور اسرائیل کی مدد کے ساتھ ایران امریکا کے نشانے پر ہے، مذکورہ وہی اتحادی ہیں جو صدام حسین اور معمر قذافی کے خلاف ایک صف میں کھڑے ہوئے تھے۔

عراق کا زوال اس لیے ممکن بنا کیونکہ سویت یونین کو ٹوٹے زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا۔ ہندوستان کے لیے تیل کے بڑھتے دام اس کے ساتھ سویت کے زیر قبضہ مارکیٹ کا زوال من موہن سنگھ کی آزاد مارکیٹ پالیسیوں کے ابھار کی وجہ بنا۔ ملک کے اندر اور ملک سے باہر جو خطرات منڈلا رہے ہیں، کیا بھارت انہیں ٹال سکے گا، یا پھر اسی قابلِ رشک جمہوری طاقت کے طور پر یہ لڑائی لڑے گا جو ماضی میں کبھی بھارت ہوا کرتا تھا؟ اس سوال کا جواب ممکن ہے کہ جمعرات کو مل جائے۔

یہ مضمون 21 مئی 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں