فرینچ اوپن ٹینس ٹورنامنٹ کے مقابلے جاری ہیں، یہ ٹورنامنٹ سال کا دوسرا گرینڈ سلیم ٹینس ایونٹ ہوتا ہے۔ ایک سال میں ٹینس کے 4 گرینڈ سلیم منعقد ہوتے ہیں، سب سے پہلا آسٹریلیا میں جنوری کے مہینے میں کھیلا جاتا ہے۔ دوسرا جیسا کہ نام سے ظاہر ہے فرانس میں کھیلا جاتا ہے۔ تیسرا ٹورنامنٹ انگلینڈ میں ومبلڈن کے نام سے منعقد ہوتا ہے، جبکہ سب سے آخری یو ایس اوپن امریکا میں کھیلا جاتا ہے۔

فرینچ اوپن کلے کورٹ (سرخ مٹی سے بنا ہوا) پر کھیلا جانے والا واحد گرینڈ سلیم ٹورنامنٹ ہے۔ ٹینس مقابلوں میں یہ سب سے مشکل گنا جاتا ہے جس کی وجہ کلے کورٹ کی ساخت ہے۔ عام طور پر ٹینس مقابلوں کے لیے 3 اقسام کے کورٹس استعمال ہوتے ہیں، ہارڈ کورٹ، گراس کورٹ اور کلے کورٹ۔

ہارڈ کورٹ: سب سے زیادہ ٹینس انہی کورٹس پر کھیلا جاتا ہے۔ 2 گرینڈ سلیم آسٹریلین اوپن اور یو ایس اوپن بھی انہی کورٹس پر کھیلے جاتے ہیں۔ ان کورٹس کی خاصیت یہ ہے کہ یہاں باؤنس اچھا ملتا ہے۔ چونکہ زمین ہموار ہوتی اور اسے مینٹین کرنا آسان ہوتا ہے اس لیے یہ کورٹ قابلِ توقع باؤنس پیدا کرتا ہے۔ یہاں بیس لائن اور سروس پلئیر دونوں کے لیے یکساں مقابلے کی فضا ہوتی ہے۔

ہارڈ کورٹ—کری ایٹو کامنز
ہارڈ کورٹ—کری ایٹو کامنز

گراس کورٹ: یہ کورٹ سروس پلئیرز کے لیے سب سے موزوں رہتا ہے۔ یہاں باؤنس خاصا کم ہوتا ہے۔ نرم اور ناہموار سطح زمین کی وجہ سے یہ کورٹ غیرمتوقع باؤنس پیدا کرسکتا ہے، اسی وجہ سے اس کورٹ پر کھیلتے وقت ریلیز شارٹ ہوتی ہیں۔ گیند کا اسپن بھی گھاس کے حساب سے ہوتا ہے۔ گھاس کی پھسلن کی وجہ سے یہاں گیند تیز آتی ہے۔ ومبلڈن میں یہی کورٹس استعمال ہوتے ہیں۔

گراس کورٹ
گراس کورٹ

کلے کورٹ: یہ سب سے زیادہ محنت طلب کورٹ ہے، مٹی کی وجہ سے یہاں گیند کی رفتار بہت کم ہو جاتی ہے اسے سب سے سست رفتار کورٹ کہا جا سکتا ہے۔ اس پر گیند کو سکڈ بھی کم ملتا ہے۔ چونکہ یہاں باؤنس زیادہ ملتا ہے اسی لیے ریٹرن شاٹ کھیلنا انتہائی آسان ہے۔

کلے کورٹ—کری ایٹو کامنز
کلے کورٹ—کری ایٹو کامنز

ریلیز کافی لمبی چلتی ہیں۔ یہاں سروس پلیئرز اکثر ناکام ہوجاتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ پیٹ سمپراس جیسے عظیم کھلاڑی بھی کلے کورٹ پر ایک بھی ٹورنامنٹ نہیں جیت پائے اور راجر فیڈرر جنہیں ’گریٹسٹ آف آل ٹائم‘ کہا جاتا ہے وہ بھی صرف ایک بار فرینچ اوپن جیتنے میں کامیاب ہوسکے ہیں۔ بیس لائن پلیئرز کے لیے یہ جنت ہے۔ رافیل نڈال اس کی سب سے بڑی اور منفرد مثال ہیں۔

فرینچ اوپن کے لیے کمربستہ مرد کھلاڑی

رافیل نڈال اس سال بھی اپنے اعزاز کا دفاع کر رہے ہیں، وہ 12ویں بار یہ ٹورنامنٹ جیتنے کے لیے میدان میں اتریں گے۔ ایک گرینڈ سلیم جیتنے میں کھلاڑیوں کی عمریں گزر جاتی ہیں جبکہ نڈال صرف فرینچ اوپن ہی 11 بار جیت چکے ہیں۔

رافیل نڈال —تصویر اے پی
رافیل نڈال —تصویر اے پی

نڈال کا یہ کارنامہ حیران کن ہے اور جو پہلو نڈال کی اس شاندار کارکردگی کو مزید خاص بناتا ہے وہ ہے ان کے سخت جان حریف۔ نڈال کو جوکووچ اور فیڈرر جیسے بڑے کھلاڑیوں کا مقابلہ درپیش رہا ہے۔ اس بار راجر فیڈرر شاید آخری فرینچ اوپن کھیلنے کے لیے میدان میں اتریں گے۔ وہ سابقہ دونوں ایڈیشنز میں موجود نہیں تھے۔ نڈال نمبر دو سیڈ کے طور پر میدان میں اتریں گے، ان کے سب سے مشکل حریف جوکووچ نمبر ون سیڈ ہیں۔

فرینچ اوپن سے پہلے 2 بڑے کلے کورٹ ٹورنامنٹ کھیلے جاتے ہیں، یہ ایک طرح سے اس گرینڈ سلیم کا تعارفی ایڈیشن ہوتے ہیں۔ ان دونوں ٹورنامنٹس میں سے پہلے والا یعنی میڈرڈ اوپن جوکووچ نے جیت لیا تھا، نڈال کو یہاں نوجوان اسٹیفنو سیسی پاس نے اپ سیٹ شکست دی تھی۔

راجر فیڈرر— اے پی
راجر فیڈرر— اے پی

اسٹیفنو سیسی پاس—اے ایف پی
اسٹیفنو سیسی پاس—اے ایف پی

یہ وہی سیسپاس ہیں جو آسٹریلین اوپن میں راجر فیڈرر کو بھی شکست دے چکے ہیں۔ ماہرین انہیں مستقبل کا اسٹار مان رہے ہیں۔ تاہم اس کے لیے انہیں کافی محنت کرنا ہوگی۔ دوسرا اور تاریخی نوعیت کا ٹورنامنٹ اٹالین اوپن تھا جس میں نڈال اور جوکووچ کے درمیان فائنل کھیلا گیا تھا جو نڈال نے باآسانی جیت لیا تھا۔ یہاں راجر فیڈرر نے انجری کے باعث واک اوور دے دیا تھا، ان کے اس واک اوور سے جیتنے والے سیسپاس کا نڈال نے خوب علاج بھی کیا تھا۔

جوکووچ اس وقت واضح فرق سے ورلڈ نمبر ایک ٹینس پلئیر ہیں۔ تاہم اس کی وجہ نڈال کے فٹنس مسائل بھی ہیں۔ اس سال آسٹریلین اوپن میں جوکووچ نے نڈال کو نڈھال کر کے مارا تھا۔ کلے کورٹ پر بھی جوکووچ راجر فیڈرڈ سے کہیں بہتر کھلاڑی لگتے ہیں، اس کی وجہ ان کی شاندار فٹنس ہے۔ پھر نڈال اور جوکووچ کو کم عمری کا بھی ایڈوانٹیج حاصل ہے۔

جوکووچ—اے ایف پی
جوکووچ—اے ایف پی

راجر فیڈرر عظیم کھلاڑی ہیں، انہیں آپ لونگ لیجنڈ بھی کہہ سکتے ہیں۔ تاہم فرینچ اوپن ان کے لیے کبھی بھی خوشگوار نہیں رہا۔ ان کے کیرئیر میں جہاں تمغوں کی بہتات ہے وہیں فرینچ اوپن کی صرف ایک ہی ٹرافی ان کی جھولی میں گری ہے، وہ جاتے جاتے یہاں بھی اپنا نقش چھوڑنا چاہیں گے، البتہ یہ کوئی آسان کام نہیں ہے۔

ان تینوں بڑے کھلاڑیوں سے ہٹ کر دیکھا جائے تو ڈومینیک تھیم ایک ایسے کھلاڑی ہیں جو ہمیشہ اچھا کھیلتے ہیں لیکن فیصلہ کن مواقع پر ان کی ہمت دم توڑ دیتی ہے۔ گزشتہ سال فرینچ اوپن فائنل میں بھی یہی ہوا تھا، شاندار فارم میں نظر آنے والے تھیم بڑے دن کا پریشر برداشت نہ کرسکے اور نڈال کے لیے ترنوالہ ثابت ہوئے جہاں انہیں اسٹریٹ سیٹس میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ’الیگزینڈر زیوریو‘ کی بھی یہی صورت حال ہے۔ بڑے میچ میں وہ ڈیلیور کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔

جاپان کے نشیکوری نے اپنا کھیل بہت اوپر اٹھایا ہے۔ استان واورنکا گزشتہ 15 برسوں میں ایسے واحد کھلاڑی ہیں جو بگ تھری کے علاوہ فرینچ اوپن ٹرافی اٹھانے میں کامیاب ہوئے تھے، یہ 2015ء کی بات ہے۔

ڈومینیک تھیم —اے ایف پی
ڈومینیک تھیم —اے ایف پی

نشیکوری—اے پی
نشیکوری—اے پی

2015ءکا وہ ٹورنامنٹ بڑا ہی دلچسپ تھا جس میں نڈال کو کوارٹر فائنل میں جوکووچ نے ہرایا تھا جبکہ دوسری طرف راجر فیڈرر کو وارنکا نے کوراٹر فائنل میں ہی شکست دی تھی، پھر ان دو فاتح کھلاڑیوں کے درمیان مقابلہ ہوا جس میں وارنکا کامیاب ٹھہرے تھے۔

ڈیل پوٹرو کی بات کی جائے تو وہ فزیکل کھیل کھیلتے ہیں۔ ڈیل پوٹرو گزشتہ سال سیمی فائنل تک تو پہنچنے میں کامیاب ہوگئے تھے مگر وہاں انہیں نڈال نے یکطرفہ مقابلے میں شکست دے دی تھی۔ ڈیل پوٹرو کی فٹنس ان کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔

ڈیل پوٹرو— اے ایف پی
ڈیل پوٹرو— اے ایف پی

استان واورنکا—اے ایف پی
استان واورنکا—اے ایف پی

گرینڈ سلیم عمومی اور فرنچ اوپن خصوصی طور پر جسمانی فٹنس کے ساتھ ساتھ بہت زیادہ ذہنی مضبوطی بھی مانگتے ہیں۔ گرینڈ سلیم میچز 5 سیٹ پر مشتمل ہوتے ہیں اور 2 مضبوط حریفوں کے درمیان کھیل عام طور پر 4 گھنٹے اور بعض اوقات 5 گھنٹے تک چلا جاتا ہے۔ یہی وہ مقام ہوتا ہے جہاں کھیل کی مہارت سے زیادہ کھلاڑی کی ذہنی اور جسمانی مہارت زیرِ آزمائش آتی ہے یہیں ایک چیمپئن اور اوسط کھلاڑی کا فرق سامنے آتا ہے۔

نئے لڑکے بگ تھری کے مقابلے میں اکثر اس امتحان میں ناکام ہوجاتے ہیں۔ تاہم یہ بات بھی سچ ہے کہ مردوں کے ٹینس مقابلوں کو اب نئے ہیروز کی تلاش ہے، ہماری جنریشن نے کھیل کے 3 سب سے کامیاب کھلاڑی دیکھے ہیں لیکن کیا اس بار کے فرنچ اوپن میں کوئی نیا لڑکا ان تینوں کو ٹکر دے سکے گا؟ یہ ایک مشکل سوال ہے، بظاہر طور پر اس کا جواب نفی میں آتا ہے۔

فرینچ اوپن کے لیے کمربستہ خواتین کھلاڑی

وومین ٹینس کے مقابلوں میں اس بار زیادہ دلچسپ اور قریبی مقابلے ہونے کی توقع ہے۔ خواتین کے کھیل کی سب سے کامیاب کھلاڑی بھی ہماری جنریشن میں ہی سامنے آئی ہیں، جی ہاں یہاں سرینا ولیمز کی بات ہو رہی ہے۔ ایک وقت تھا جب سارے مقابلے تقریباً وہی جیتتی تھیں۔

سرینا ولیمز— اے ایف پی
سرینا ولیمز— اے ایف پی

مارٹینا ہنگز—اے پی
مارٹینا ہنگز—اے پی

مارٹینا ہنگز نے سرینا ولیمز کو ٹف ٹائم دیا۔ ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد سرینا کی پوزیشن مزید مستحکم ہوگئی لیکن آخری گرینڈ سلیم ٹورنامنٹ جیتے انہیں 2 سال ہوچکے ہیں۔ اس دوران انہوں نے ایک بچے کو بھی جنم دیا۔ 37 سالہ سرینا کو ہرانا اب بھی انتہائی مشکل ہے۔

گزشتہ سال بھی انہوں نے ومبلڈن اور یو ایس اوپن دونوں کے فائنل تک رسائی حاصل کرلی تھی۔ اس سال آسٹریلین اوپن میں بھی وہ اپنا پرانا کھیل دہراتی نظر آئی تھیں لیکن وائرل انفیکشن کی وجہ سے انہیں کوارٹر فائنل میں دستبردار ہونا پڑا۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ سرینا اگر میدان میں موجود ہوں گی تو انہیں نظر انداز کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ موجودہ ورلڈ نمبر ون نومی اوساکا نے مسلسل 2 گرینڈ سلیم جیت کر اپنی آمد کا اعلان کر دیا ہے۔ اوساکا نے یو ایس اوپن اور آسٹریلین اوپن دونوں میں فتوحات سمیٹی ہیں، یہ دونوں گرینڈ سلیم ہارڈ کورٹ کے ہیں۔

اسی ماہ کھیلے جانے والے دونوں کلے کورٹ ٹورنامنٹ میڈرڈ اور اٹالین اوپن میں نومی اوساکا کی کارکردگی مایوس کن رہی ہے سو کلے کورٹ پر ان کے کھیل کا امتحان ابھی باقی ہے۔ رواں سال آسٹریلین اوپن کے بعد وہ ایک بھی ٹورنامنٹ ابھی تک جیت نہیں پائی ہیں۔

سیمونا ہالپ اس وقت دفاعی چمپئین ہیں، یہ ان کے کیرئیر کا واحد گرینڈ سلیم ٹائٹل بھی ہے۔ کلے کورٹ پر ان کا کھیل ہمیشہ دیکھنے لائق رہا ہے۔ انہیں عورتوں کی نڈال کہنا غلط نہ ہوگا۔ انہوں نے اپنے کھیل کے لیے ایک دلچسپ قربانی بھی دی ہے، عورت کے لیے ایک سب سے قیمتی اثاثہ نسوانی حسن ہوتا ہے تاہم ہالپ نے اپنے کیرئیر کے لیے بریسٹ ریڈکشن کا آپریشن بھی کروایا ہے اور بقول ان کے کھیل میں زیادہ سہولت پیدا ہوئی ہے۔ میڈرڈ اوپن اور اٹالین اوپن میں وہ بالترتیب سیمی فائنل اور فائنل میں شکست سے دو چار ہوگئیں۔ ان مقابلوں کو جیتنے کی صورت میں وہ باآسانی ورلڈ نمبر ون بن سکتی تھیں لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ ہم آپ کو یہاں بتاتے چلیں کہ وہ 2 بار فرنچ اوپن کی رنراپ بھی رہ چکی ہیں۔

سیمونا ہالپ —اے پی
سیمونا ہالپ —اے پی

نیدرلینڈ کی کیکی برٹینز خواتین کے مقابلوں میں ایک نیا چہرہ ہیں، ویسے تو انہیں یہ کھیل کھیلتے ہوئے ایک عرصہ بیت چکا ہے لیکن ان کے کھیل میں بہتری حالیہ عرصے میں ہی نظر آئی ہے۔ وہ میڈرڈ اوپن کی فاتح ہیں، گزشتہ سال وہ میڈرڈ اوپن کی رنر اپ رہی تھیں۔ اس بار انہوں نے میڈرڈ اوپن بغیر کوئی سیٹ ڈراپ کیے جیتا ہے اور یہ کارنامہ کرنے والی وہ پہلی خاتون کھلاڑی بنی ہیں۔ تاہم فرنچ اوپن میں انہیں کافی سخت مقابلے درپیش ہوں گے۔

پیٹرا کوویٹووا اس سال آسٹریلین اوپن کے فائنل میں تقریباً ٹائٹل لے اڑی تھیں لیکن سخت جان نومی اوساکا آڑے آ گئیں۔ اس کے بعد دبئی اوپن کے فائنل تک پہنچیں مگر کامیابی نہیں ملی لیکن آخرکار سال کی پہلی فتح اسٹٹگارٹ اوپن کی صورت میں ان کی جھولی میں گری۔ اب فرینچ اوپن ان کا اگلا ہدف ہے اگر وہ اپنے کھیل سے انصاف کرسکیں تو یہ ہدف بھی باآسانی حاصل کرسکتی ہیں، وہ اس کی پوری اہلیت رکھتی ہیں۔

کیکی برٹینز—اے پی
کیکی برٹینز—اے پی

2 بار فرینچ اوپن کی فاتح کیرولین ووزنیاکی کو بھی کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ گو کہ ان کی موجودہ فارم کوئی زیادہ اچھی نہیں لیکن وہ ایک سیزن کمپینر ہیں، اس سال ویسے بھی انجریز کا شکار رہی ہیں۔ فرینچ اوپن ان کا پسندیدہ ٹورنامنٹ ہے۔ شائقین ان سے اچھے کھیل کی توقع رکھتے ہیں اوراگر وہ اپنی لے میں آجائیں تو ان توقعات باآسانی پوری ہوسکتی ہیں. کیونکہ ان کا کمال یہ ہے کہ وہ پوری طرح فٹ ہوتی ہیں تو ایک ایک پوائنٹ کے لیے جان لگا دیتی ہیں۔

ولین ووزنیاکی—اے پی
ولین ووزنیاکی—اے پی

انجلیق کربر ہمیشہ سے شاندار کھلاڑی رہی ہیں، گزشتہ سال انہوں نے ومبلڈن بھی جیتا تھا۔ تاہم کلے کورٹ ان کے لیے کبھی زیادہ خوشگوار نہیں رہا، دیکھتے ہیں کہ اس بار وہ کیسا کھیل پیش کرتی ہیں۔ بڑے ٹورنامنٹس میں وہ اکثر سیمی فائنل تک رسائی حاصل کرلیتی ہیں لیکن فائنل پنج مِس کر جاتی ہیں۔

سولین اسٹیفنز گزشتہ سال کی فرنچ اوپن رنر اپ ہیں، رواں سال منعقد ہونے والے میڈرڈ اوپن میں بھی ان کا کھیل اچھا تھا۔ تاہم وہ مسلسل اچھا کھیل پیش کرنے سے قاصر نظر آئی ہیں۔

سولین اسٹیفنز—رائٹرز
سولین اسٹیفنز—رائٹرز

انجلیق کربر—رائٹرز
انجلیق کربر—رائٹرز

اسپین کی گربین مگروزا حالیہ دنوں میں مسلسل خراب کھیل پیش کر رہی ہیں لیکن وہ اپنی موجودہ پرفارمنس سے کافی بہتر کھلاڑی ہیں۔ اگر ان کی فارم واپس آجائے تو کافی سنسنی خیز مقابلے دیکھنے کو ملیں گے۔

مطلب یہ ہوا کہ خواتین مقابلوں میں کافی انہونی نظر آنے کی توقع ہے، بہت سارے اپ سیٹ دیکھنے کو مل سکتے ہیں اور نئی ہیروز کا ابھر کا سامنا آنا بھی عین ممکن ہے۔

گربین مگروزا—اے پی
گربین مگروزا—اے پی

مجموعی طور پر کہا جائے تو یہ نڈال کا گرینڈ سلیم ہے۔ کیا وہ اپنے ہی مرتب کردہ معیار پر پورا اتر سکیں گے؟ کیا راجر فیڈرر اپنا آخری فرینچ اوپن اعزاز کے ساتھ کھیل پائیں گے؟ کیا مشینی صلاحیت کے حامل جوکووچ اپنا جادو دکھا سکیں گے؟ سیمونا ہالپ اس بار کلے کورٹ پر اپنی دھاک برقرار رکھ سکیں گی؟ کیا سرینا ولیمز اپنی لیگیسی دہرا سکیں گی؟ یا نومی اوساکا ایشیا کا نام مزید روشن کر سکیں گی؟ بس کچھ ہی وقت میں ان تمام سوالوں کے جواب مل جائیں۔

تبصرے (0) بند ہیں