دیگر کھیلوں کی طرح کرکٹ کا کھیل بھی آہستہ آہستہ پیسے کے گرد گھومنے والی صنعت میں بدل چکا ہے۔ ٹی20 فارمیٹ نے عالمی سطح پر کھیل کے طویل ورژن کے وجود کو ایک عرصے سے خطرے سے دوچار کیا ہوا ہے۔ تاہم جیسے ہی ورلڈ کپ کا ذکر ہوتا ہے تو یہ سارے خطرات کہیں کھو جاتے ہیں۔

30 مئی سے آئی سی سی ورلڈ کپ کا آغاز ہونے جا رہا ہے اور اگلے 6 ہفتوں تک انگلینڈ اور ویلز کے میدانوں میں 38 میچز کھیلے جائیں گے جس میں جیتنے والی ٹیم کے لیے سب سے بڑی انعامی رقم کا اعلان کیا گیا ہے اور جب تک ٹورنامنٹ جاری رہے گا ہمیں جوش و خروش اور ولولہ خیزی کا رنگ ہر سوں بکھرا ملے گا۔

14 جولائی کو لارڈز کے میدان میں کھیلے جانے والے فائنل میں فاتح ٹیم کو ایک کروڑ کی مجموعی انعامی رقم میں سے 40 لاکھ ڈالر کی خطیر رقم بطور انعام دی جائے گی۔ اس کے علاوہ تقریباً ڈیڑھ ارب کرکٹ مداح اپنی پسندیدہ ٹیموں اور اسٹارز کو دور جدید کے گیجٹس کے علاوہ ٹی وی پر دیکھ سکیں گے۔

جنوری 1971ء میں میلبورن کرکٹ گراؤنڈ پر جب ایشز ٹیسٹ میں جان باقی نہ رہی تھی اور ایک روزہ بین الاقوامی کرکٹ کا حادثاتی جنم ہوا، جس کے دو سال بعد آئی سی سی نے ورلڈ کپ کا تصور دنیا کے سامنے پیش کیا۔ 1970ء کی دہائی کی ابتدا میں عالمی سطح پر مینز کرکٹ میں محدود اوورز کا کہیں کوئی مقابلہ نہیں ہوا تھا، درحقیقت 1973ء میں خواتین نے انگلینڈ میں منعقدہ اپنے افتتاحی ورلڈ کپ کے موقعے پر اس رجحان کو متعارف کروایا۔ بعدازاں کھیل کی گورننگ باڈی نے 1975 کی گرمیوں میں دن کے اوقات میں روایتی سفید کٹ اور سرخ گیند کے ساتھ 60 ( فی اوور 6 گیند) اوورز پر مشتمل 15 میچوں کے ساتھ ایٹ (8) ٹیم ٹورنامنٹ کا منصوبہ بنایا۔

ماضی میں جانکھیں تو یہ تصور کرنا آسان ہے کہ کرکٹ میں ٹی 10 سمیت نئے فارمیٹس کی صورت میں آگے بڑھنے کی اس رفتار کے باوجود کس طرح مقبولیت سمیٹ سکی ہے۔ مگر 21ویں صدی کے ایسے بلے باز کا تصور بھی اب محال ہوچکا ہے جو میدان پر 60 اوور کی اننگز پر قابض رہے اور 174 گیندوں پر صرف 36 رنز جوڑے! ٹھیک یہی کارنامہ ٹیسٹ کرکٹ کے ممتاز اوپنگ بلے باز سنیل گواسکر نے افتتاحی ورلڈ کپ کے موقعے پر کیا، جبکہ اس سے پہلے انگلینڈ کی ٹیم لارڈز میں اپنی دھواں دار بیٹنگ دکھا کر شائقین کرکٹ سے خوب داد وصول کرچکی تھی۔ 335 کے تعاقب میں انڈیا نے سلیپ موڈ کا انتخاب کیا اور 3 وکٹوں کے نقصان پر 132 رنز جوڑ سکی، یوں اپنی مخالف ٹیم کو 202 رنز کے فرق کے ساتھ جتوا دیا۔

خیر یہاں لیجنڈ گواسکر کو ایسی آفت برپا کرنے پر بخشا جاسکتا ہے کیونکہ اس وقت محدود اوورز کی کرکٹ کو متعارف ہوئے تھوڑا ہی عرصہ گزرا تھا اور اس ٹورنامنٹ سے قبل صرف 18 ایک روزہ بین الاقوامی میچ کھیلے گئے تھے، اس ورلڈ کپ کا منظر نامہ 2019ء کے ورلڈ کپ کے منظرنامے سے یکسر مختلف تھا کیونکہ جب یہ ورلڈ کپ شروع ہوگا تب تک 4 ہزار ایک روزہ بین الاقوامی میچ کھیلے جاچکے ہوں گے۔

ماضی کے اُس ورلڈ کپ کی تاریخ کو تھوڑا اور کُریدتے ہوئے آپ کو بتاتے چلیں کہ 21 جون یعنی سال کے سب سے بڑے دن کو رات 8 بج کر 42 منٹ پر اختتام پذیر ہونے والے سنسنی خیز فائنل میں فاتح ٹیم ویسٹ انڈیز نے کلائیو لائڈ کی متاثرکن قیادت میں آسٹریلیا کو 17 رنز کے تھوڑے فرق کے ساتھ دھول چٹائی تھی۔ ویسٹ انڈیز کے کپتان نے زبردست قائدانہ کردار نبھاتے ہوئے 102 رنز جوڑے تھے۔

سر ویو رچرڈز ان عظیم ترین بلے بازوں میں شمار ہوتے ہیں جنہیں 60 اوور کے اس کھیل نے پیدا کیا، رچرڈز نے اس ٹورنامنٹ میں اپنے بلے سے زیادہ کمال فیلڈنگ کے شعبے میں دکھایا جس کی بدولت آسٹریلیا کے کپتان ایئن چیپل، ان کے بھائی گریگ چیپل اور ٹورنامنٹ میچوں میں ایلن ٹرنر کو رنگ رن آؤٹ ہوئے تھے۔ وہ 1979ء کے فائنل میں سب کی نظروں کا محور بنے رہے، جبکہ ورلڈ کپ کے میزبان انگلینڈ کی ٹیم ایک لاچار پنچنگ بیگ کی مانند مار کھاتی رہی۔ اس عظیم کھلاڑی نے مائیک ہینڈرک کی گیند پر اسکوئر لیگ پر چھکا مار کر اپنے بلے سے 138 رنز جوڑے اور ویسٹ انڈیز کی اننگز مکمل ہونے تک ناٹ آؤٹ رہے۔

پھر ہوا یہ کہ لائڈ کی زیر قیادت ٹیم نے 92 رنز سے عالمی اعزاز اپنے پاس ہی رکھا۔

ابتدائی 2 ورلڈ کپ ایڈیشنز کی طرح تیسرے ورلڈ کپ کا انعقاد بھی اسی طریقہ کار یعنی 60 اوور اور سفید کٹ کے ساتھ انگلینڈ میں ہوا، لیکن جب عالمی مقابلہ 1978ء میں پاکستان اور انڈیا کی زیرمیزبانی برصغیر میں منعقد ہوا تب اسے 50 اوور فارمولے کے ساتھ بدل دیا گیا اور میدان پر 30 گز کے دائرے کو لازمی قرار دیا۔ رنگین کٹ کی ابتدا 1992ء کے ورلڈ کپ سے ہوئی جس کی میزبانی آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ نے مل کر کی تھی۔

چلیے اب آج کی بات کرتے ہیں، کچھ دنوں میں شروع ہونے والے ورلڈ کپ ان تمام اجزا سے بھرپور ہے جو اس عالمی مقابلے کو ایک ریکارڈ توڑ ٹورنامنٹ بنانے کے لیے کافی ہیں۔ عنقریب 300 سے 320 کے آس پاس مجموعی اسکور ایک عام روایت سی بن جائے گی، جبکہ ان دنوں رنز کے اتنے مجموعے کا تعاقب زیادہ مشکل بھی نظر نہیں آتا بشرطیکہ پچ دوسری باری میں اچانک سے اپنا رنگ ڈھنگ نہ بدلنے لگے۔ اور اگر پچ کے حالات ویسے ہی رہتے ہیں، جو ایک حد تک انگلینڈ پاکستان کی سیریز میں ہمیں دیکھنے کو ملے، تو پھر باؤلرز کو سپاٹ پچوں اور انتہائی فاسٹ آؤٹ فیلڈز پر مشکلات کا سامنا ہوگا۔

جو کھیل ٹیموں پر مشتمل ہوتے ہیں ان میں سے چیمپئنز کا چناؤ کرنا خاصا رسک بھرا کام ہوتا ہے۔ اگر بات روایتی ٹیسٹ میچوں سے ہٹ کر دوسرے فارمیٹس کی ہو رہی ہو تو کرکٹ میں یہ کام اور بھی مشکل ثابت ہوتا ہے۔

اب تک سب سے زیادہ بار عالمی اعزاز اپنے نام کرنے والی ٹیم آسٹرلیا ہے۔ آسٹریلوی ٹیم کُل 5 مرتبہ،1987، 1999، 2003، 2007 اور 2015 کے عالمی مقابلوں میں کامیابی حاصل کرچکی ہے جبکہ اسٹیو اسمتھ اور ڈیوڈ وارنر کی واپسی کے ساتھ اس بار بھی اعزاز ان کے پاس رہنے کی امیدیں کافی حد تک روشن ہوئی ہیں۔ دوسرے نمبر پر ورلڈ کپ میں سب سے زیادہ کامیابیاں ویسٹ انڈیز (1975 اور 1979) اور بھارت (1983 اور 2011) نے حاصل کیں، جبکہ پاکستان (1992) اور سری لنکا (1996) کی ٹیمیں بھی ماضی میں عالمی اعزاز اپنے نام کرچکی ہیں۔

مگر ورلڈ کپ 2019 میں سب پر غالب ٹیم کون سی ہوگی؟ ٹاپ رینکنگ میں شمار ہونے والی ٹیموں میں سے انگلینڈ (1979، 1987 اور 1992) اور نیوزی لینڈ (2015) ماضی میں ورلڈ کپ فائنل تک رسائی حاصل کرچکی ہیں، دوسری طرف جنوبی افریقہ کے لیے ورلڈ کپ کا خواب ادھورا ہی رہا ہے کیونکہ یہ ٹیم اب تک ایک بار بھی فائنل تک نہیں پہنچ پائی ہے، البتہ یہ ٹیم 1992، 1999، 2007 اور 2015 میں سیمی فائنل تک ضرور پہنچی ہے۔

ایک روزہ کرکٹ فارمیٹ کی بات کی جائے تو 2015 کے ورلڈ کپ کے بعد انگلینڈ کی ٹیم سب سے خطرناک ٹیم بن کر ابھری ہے، ان کے کھیل کو دیکھ کر واضح اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بطور میزبان ملک 4 بدترین مہمات کے بعد اس ٹیم نے کھیل کو نہایت سنجیدگی سے لینا شروع کردیا ہے۔ ان کے لیے 350 رنز جوڑنا اب روٹین کی بات بن چکی ہے اور مائیکل کلارک کی جانب سے میلبورن کرکٹ گراؤنڈ پر 29 مارچ کی رات کو فاتحانہ انداز میں ورلڈ کپ ٹرافی تھامے جانے کے بعد سے اب تک مجموعی طور پر 50 بار 350 رنز تک کے مجموعے جوڑے گئے ہیں، اس میں سے 15 بار یہ مجموعہ انگلینڈ کی ٹیم نے جوڑا۔

گزشتہ ٹورنامنٹس میں انگلینڈ کو دوڑ میں شامل ایک عام سی ٹیم کی حیثیت دی جاتی رہی ہے۔ مگر اب انگلینڈ آئی سی سی کی ٹاپ رینکنگ میں شامل ٹیموں جیسا کھیل پیش کر رہی ہے۔ انفرادی حیثیت سے دیکھیں تو ان کی ٹیم کا کوئی کھلاڑی ٹیم انڈیا کے ویرات کوہلی اور جسپریت بھمرا کی طرح بلے باز یا گیند باز کی اولین نمبر پر بھلے نہ ہوں مگر مجموعی طور پر بطور ایک ٹیم دیکھا جائے تو ٹیم انگلینڈ سب کو پیچھے چھوڑتی نظر آتی ہے۔

ٹیم میں بلے بازی کا پاور ہاؤس جیسن رائے، جونی بیرسٹو، جو روٹ کپتان ایئون مورگن، بین اسٹروکس اور جوش وخروش سے بھرپور پرخطر لائن اپ میں پیچھے گھات لگائے بیٹھے جوس بٹلر جیسے کھلاڑیوں پر مشتمل ہے، ایسے میں اگر انگلینڈ ورلڈ کپ کے دوران 500 کا پہاڑ کھڑا کردیتی ہے تو یہ زیادہ حیرانی کی بات نہیں ہوگی۔

گزشتہ ورلڈ کپ کے بعد بین الاقوامی ایک روزہ میچز میں 20 بار 400 یا اس سے زائد کا مجموعی اسکور بنایا جاچکا ہے، انگلینڈ نے اتنا بڑا مجموعہ 4 موقعوں پر بنایا جبکہ جنوبی افریقہ اور انڈیا نے 5، 5 بار یہ سنگ میل عبور کیا۔

بین الاقوامی ایک روزہ میچ میں 2 ٹاپ ٹوٹل اسکور بھی اسی اثنا میں دیکھنے کو ملے اور دونوں بار یہ ٹوٹل ایک ہی ٹیم نے ایک ہی جگہ پر بنائے۔ انگلینڈ نے 2016 کے اگست میں پاکستان کے خلاف 3 وکٹوں کے نقصان پر 444 رنز کی لوٹ مار مچائی اور پھر جب 2018 کے جون میں آسٹریلیا ناٹنگھم آئی تو مجموعے میں 37 رنز کا مزید اضافہ کیا اور یوں تباہ کن بلے بازوں نے 6 وکٹوں کے نقصان پر 481 ٹوٹل کا پہاڑ کھڑا کیا۔

ان دنوں سرفراز احمد کی زیرقیادت ٹیم پاکستان کے حوالے سے چند واضح وجوہات کی بنا پر ویسا تذکرہ سننے کو نہیں مل رہا جیسا انگلینڈ، انڈیا، آسٹریلیا یا نیوزی لینڈ کی ٹیموں کے لیے سننے کو ملتا ہے۔

مگر 2017 کی آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی کی فاتح پاکستان ٹیم میں کسی خاص موقعے پر کسی کو بھی حیرت زدہ کرنے کی بلاشبہ خوب صلاحیت موجود ہے۔ فٹنس مسائل (شاداب خان اور محمد عامر) اور ذاتی صدمے (آصف علی)، کے علاوہ گزشتہ 15 ایک روزہ میچز میں 12 میچز میں شکست خوردگی کا بوجھ اٹھائے یہ ٹیم ورلڈ کپ کی دوڑ میں شامل ہونے جا رہی ہے۔

بدترین فیلڈنگ اور باؤلنگ کی اس قدر پست حالت نظر آتی ہے کہ معقول ورلڈ کپ ٹریک ریکارڈ (12 میچوں میں 24 وکٹیں) کی بنا پر وہاب ریاض کو 15 کھلاڑیوں کے اسکواڈ میں شامل کردیا گیا، مگر اس سب کے باوجود پاکستان کو ہمت ہارنے کی ضرورت نہیں ہے۔

ورلڈ کپ میں ہر ٹیم کا مقابلہ دیگر 9 ٹیموں کے ساتھ ہوگا، اس قسم کے فارمیٹ میں اہم موقعوں پر حالات میں غیرمتوقع تبدیلیاں دیکھنے کو مل سکتی ہیں۔ 1992 کا ورلڈ کپ بھی کچھ اسی طریقہ کار کے تحت کھیلا گیا تھا کہ جس میں عمران خان نے 25 مارچ کے دن میلبورن کرکٹ گراؤنڈ پر واٹرفورڈ کرسٹل ٹرافی کو لہرایا تھا۔

یہ مضمون 26 مئی 2019ء کو ڈان اخبار کے ای او ایس میگزین میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں