لکھاری صحافی ہیں۔
لکھاری صحافی ہیں۔

ایک نیا دن اور ایک نئی زینب۔ یا اس بار نام شاید فرشتہ ہے؟ اب کوئی کتنے نام یاد کرسکتا ہے بھلا؟ فرشتہ واقعے کے بعد حسبِ معمول ایک مخصوص اسکرپٹ کا عملی مظاہرہ دیکھنے کو ملا، جس کی شروعات سوشل میڈیا پر بکھری پوسٹوں اور تفصیلات سے ہوتی ہے، جس کے بعد غم و غصہ اور ہیش ٹیگز کی لہر اٹھتی ہے اور پھر اس بڑھتے شور کے جواب میں اعلیٰ سطح پر ’نوٹس‘ لیا جاتا ہے۔

اگر مجرم پکڑے جاتے ہیں تو ہم مجرموں کو سرِعام پھانسی، ان کے مردانہ اعضا کاٹنے، سنگ سار جیسی ’مثالی سزائیں‘ دینے کے لیے آواز اٹھانا شروع کردیتے ہیں۔

بلاشبہ، اس سارے سلسلے کے دوران معاملہ سیاسی شکل اختیار کرجاتا ہے اور متبادل غیر حقیقی دنیا، جہاں ’سسٹم‘ (اس کا مفہوم جو کچھ بھی ہے) کام کرتا ہے، اس میں کسی اونچے مقام پر کھڑے ہوکر آپ اس قسم کے استحصال کی مذمت کرسکتے ہیں، مگر وہیں آپ اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ (حقیقی دنیا، جہاں کچھ بھی ویسا نہیں ہوتا جیسا ہونا چاہیے اس میں) سیاسی رنگ کے بغیر کوئی بھی ایکشن نہیں اٹھایا جائے گا۔

جب فرشتہ گمشدہ تھی اس وقت اس کے گھروالے پولیس اسٹیشن رپورٹ کے لیے پہنچے تو انہیں بتایا گیا کہ ممکن ہے کہ ان کی 10 سالہ بیٹی ’کسی‘ کے ساتھ بھاگ گئی ہو، جبکہ پولیس کو تنگ کرنے کی جرات کرنے پر سزا کے طور پر ان سے پولیس اسٹیشن کی صفائی کروائی گئی۔ جب مذکورہ اسکرپٹ کا عملی مظاہرہ شروع ہوا تب جاکر ایف آئی آر درج کی گئی۔ وہ بھی اس وقت ممکن ہوسکا جب فرشتہ کی بدترین حالت میں لاش کی تصاویر منظرِعام پر آئیں اور جب چیخیں اس قدر تیز ہوگئیں کہ جنہیں باآسانی نظر انداز کرنا مشکل ہوگیا تھا۔

ہم یہ سب پہلے بھی دیکھ چکے ہیں۔ معصومانہ مسکراہٹ والی زینب اور اس نے پہنی ہوئی گلابی جیکٹ اب بھی ہمارے ذہنوں میں تازہ ہے، سبھی نے اس کی تصویر استعمال کی، مگر اب کہاں ہے، کس کے پاس ہے وہ تصویر؟ ہم سبھی کو اس کا نام تو یاد ہے، جو اتنی بار دہرایا گیا کہ ہمارے ضمیر میں نہ سہی لیکن ہمارے قومی شعور میں کہیں بھسم ضرور ہوگیا۔

مگر کیا آپ کو ایمان فاطمہ یاد ہے؟ نور فاطمہ؟ عائشہ آصف؟ نہیں؟ اچھا تو کیا آپ کو پتہ ہے لائبا یا ثنا عمر کے ساتھ کیا ہوا؟ یہ سب وہ کمسن لڑکیاں ہیں جن کا ریپ اور قتل زینب کا نام ہمارے کانوں تک پہنچنے سے پہلے اسی شہر میں ہوا تھا۔ مجھ سے دیگر لڑکیوں کے نام مت پوچھیے کیونکہ میں انہیں نہیں جانتا اور ممکن ہے کہ آپ کو ان کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہوگا۔

ایک ایسی لڑکی بھی تھی جس کی جان بچ گئی تھی اور ایک سال پہلے تک وہ لاہور کے ہسپتال میں زیرِ علاج تھی۔ مجھے نہیں معلوم کہ اب اس کا کیا ہوا، بھلا یہ کون یاد رکھ سکتا ہے؟

مگر مجھے زینب کیس پر ہونے والا ایکشن صرف اس وجہ سے ذہن میں تازہ نہیں کہ ہم اس کے نام اور چہرے سے آشنا تھے بلکہ اس لیے یاد ہے کہ وہ کیس اس وقت کی حکومتِ پنجاب کے لیے شرمندگی کا باعث بن چکا تھا۔

زینب کی نمازِ جنازہ کسی اور نے نہیں بلکہ طاہر القادری نے پڑھائی تھی، جو پہلے ہی ماڈل ٹاؤن واقعے کے بعد شہباز شریف کا گھیرا تنگ کر رہے تھے۔ ایک دن بعد قصور میں جب 2 مظاہرین پولیس کے ہاتھوں مارے گئے تو ان کی نماز جنازہ کی امامت خادم رضوی نے کی۔ صورتحال واضح طور پر بے قابو ہوگئی تھی، یہی وجہ تھی کہ متعدد بچیوں کے ریپ اور قتل کرنے والے مجرم کی تلاش کی خاطر بڑی کوششیں شروع کی گئیں تھیں جس میں پولیس کے ساتھ انٹیلجنس ادارے بھی شامل تھے اور غیر معمولی اقدامات اٹھائے گئے تھے۔

جس جگہ پر زینب کی لاش ملی تھی وہاں سے قریب 20 کلومیٹر دُور حسین خان والا نامی گاؤں واقع ہے۔ اگر آپ کو اس گاؤں کا نام یاد ہے تو اس کی وجہ یہی ہوگی کہ یہ وہی ویران گاؤں ہے جہاں سالوں تک سیکڑوں کی تعداد میں بچوں (ان کی اصل تعداد اور ان کے اصل نام ہمیں معلوم نہیں ہیں) کا استحصال کیا جاتا رہا، ان کی ویڈیو ریکارڈنگ ہوتی رہی اور انہیں بلیک میل کیا جاتا رہا۔

اگر ہم اس ہیبت ناک واقعے سے آشنا ہیں تو اس کی وجہ گاؤں والوں کا وہ زبردست احتجاج ہے جو انہوں نے مقامی پولیس کے خلاف کیا تھا، انہوں نے پولیس پر مجرموں کو تحفظ فراہم کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔ جس کے بعد میڈیا کو معاملے کی جانچ کا تحرک ملا اور یوں اس بداخلاقی کے جال کا پردہ فاش ہوا مگر اس پر خاطر خواہ ردِعمل نہیں آیا۔

جس کیس کو ہم سب کو اندر سے جھنجھوڑ دینا چاہیے تھا، اسے بھولے بسرے ایک مدت ہوچکی ہے اور زیادہ تر متاثرین کو علاقہ چھوڑنے پر مجبور کردیا گیا جبکہ مجرموں کی اکثریت اور جن افراد نے انہیں تحفظ فراہم کیا، آزاد ہی رہے۔ البتہ مجھے اب بھی ویڈیوز میں ان لڑکوں کے چہرے یاد ہیں۔ مجھے ان کی سسکیاں اور چیخیں بھی یاد ہیں۔

لاہور کے شادباغ علاقے میں ایک 3 سالہ بچی کو اس کے گھر کے باہر سے اغوا کیا گیا مگر یہاں ہم خوش قسمت رہے اور اس کا نام ان چاک فرشتوں کی فہرست میں شامل نہ ہوا۔ والدین کو جیسے ہی بچی کی گمشدگی کا (اغوا ہونے کے قریب ایک گھنٹے بعد) احساس ہوا تو انہوں نے فوراً پولیس اسٹیشن کا رخ کیا، جہاں انہیں کہا گیا کہ وہ آس پاس کے علاقوں میں بچی کو تلاش کریں۔

والد کو جب سی سی ٹی وی فوٹیج ملی جس میں بچی کو اغوا ہوتے دیکھا جاسکتا تھا، تب تک متعدد گھنٹے بیت چکے تھے، اتنے گھنٹے جن میں ایک چھوٹے گلے کو آسانی سے کاٹا جاسکتا تھا۔ اتنے گھنٹے جن میں چھوٹی لاش کو باآسانی کوڑے کے ڈھیر پر پھینکا جاسکتا ہے۔

پورے ایک دن بعد ایف آئی آر داخل کی گئی جبکہ معاملہ میڈیا تک پہنچنے کے بعد ’نوٹس‘ لیا گیا اور پولیس ایکشن میں آئی۔

معاملے کو عوامی حلقوں تک پہنچتا دیکھ کر اغوا کار نے بچی کو نقصان پہنچائے بغیر مسجد کے باہر چھوڑ دیا۔ سُکھ کا سانس لیجیے جناب، آپ کو بھلائے جانے کے لیے ایک اور نام نہیں ملا۔ مضمون کو لکھتے وقت میں ایک اور نکتہ بھی شامل کرنا چاہتا تھا کہ کوئی گہرا معقول بیان یا حل بھی مضمون میں شامل کروں۔ مگر وہ کیا تھا، مجھے یاد نہیں رہا۔


یہ مضمون 27 مئی 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں