سائنس فکشن فلموں کے وہ تصورات جو حقیقت بنے

فلموں کے وہ تصورات جو حقیقت بنے

صادقہ خان

دنیا بھر میں سائنس فکشن فلموں کے دلدادہ افراد ہمیشہ نئی فلم کی ریلیز کے لیے منتظر رہتے ہیں اور اگر آنے والی فلم کسی خاص اور اچھوتے موضوع سے متعلق ہو تو فلم کی ریلیز سے پہلے ان کا جوش و خروش دیدنی ہوتا ہے کیونکہ رومانوی اور سماجی نوعیت کی فلموں کے برعکس سائنس فکشن فلموں میں انہیں وہ کچھ دیکھنے کو ملتا ہے جو فی الوقت تصور سے ماورا ہوتا ہے۔

مگر کچھ بعید نہیں کہ ٹیکنالوجی اور آرٹیفیشل انٹیلی جنس میں ہونے والی پیش رفت کی بدولت چند برس یا ایک عشرے میں وہ حقیقت کی صورت میں ہماری نگاہوں کے سامنے موجود ہوں۔

کیوں کہ اب تک متعدد سائنس فکشن فلموں میں پیش کیے گئے اچھوتے خیال اب حقیقت کا روپ دھار کر ہمارے سامنے ہیں، جس کی مثال 2001 میں ریلیز ہونے والی فلم "اے اسپیس اوڈیسی" اور "دی ٹرمینیٹر" میں پیش کی گئی وہ پیش گوئیاں ہیں جو آج درست ثابت ہوچکی ہیں۔

گذشتہ 2 دہائیوں میں ہونی والی سائنس فکشن فلموں کی ایسی پیش گوئیاں جو درست ثابت ہوئیں ان کا ایک جائزہ ذیل میں پیش کیا جارہا ہے۔

اسپیس ٹریول: 1902

اسپیس ٹریول پر متعدد فلمیں بنائی جا چکی ہیں—اسکرین شاٹ
اسپیس ٹریول پر متعدد فلمیں بنائی جا چکی ہیں—اسکرین شاٹ

اگرچہ خلا میں سفر کا تصور سائنس فکشن فلموں کی تاریخ سے پرانا ہے اور انگریزی ادب میں اس پر متعدد ناول بھی تحریر کیے گئے مگر جیول وارن وہ پہلے ادیب ہیں جنہوں نے باقاعدہ جدید ٹیکنالوجی کے تصورات کے ساتھ 1865 میں "فرام ارتھ ٹو مون"زمین سے چاند تک کے عنوان سے ایک ناول تحریر کیا جس کی کہانی سے تحریک پاکر اب تک لاتعداد ہدایت کار خلا یا چاند کے سفر پر فلمیں بنا چکے ہیں۔

اس سلسلے کی پہلی قابل ذکر فلم "لی یوویج ڈینس لا لیون" تھی جس کی خاص بات یہ ہے کہ یہ فلم انتہائی کم بجٹ کے ساتھ تقریبا 10 برس پرانے کیمرے کے ساتھ بنائی گئی تھی، اسپیشل افیکٹس پر مشتمل اس فلم میں ایک ایسے خلاباز کو دکھایا گیا جو ایک خلائی کیپسول میں چاند تک سفر کرنے میں کامیاب رہا۔

اس فلم کی سب سے بڑی خصوصیت جو اسے خلائی سفر سے متعلق اس دور کی دیگر فلموں سے ممتاز کرتی ہے وہ اس کے اسپیشل افیکٹس ہیں جس میں راکٹ کو ایک توپ سے فائر ہوتے دکھایا گیا۔ "اسپیس گن" کے اس تصور کو ہم آج کل اسپیس ایکس کے راکٹ لانچنگ کے وقت حقیقت میں دیکھتے ہیں یعنی 150 سال بعد اس فلم میں دکھائے گئے تصورات حقیقت میں ڈھل چکے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: 8 سائنس فکشن خیالات جو زمین پر ڈھا سکتے ہیں قیامت

اگرچہ اس فلم کے بعد بھی کچھ فلموں میں اسی تصور کو مختلف انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی مگر یہ کہنا بیجا نہ ہوگا کہ ایک بہت بڑے سائز کی توپ سے خلائی کیپسول میں خلا باز کو چاند پر بھیجنے کا تصور اسی فلم سے عام ہوا جو بالآخر نیل آرم اسٹرانگ کے اپولو الیون مشن (چاند پر انسان جانے کا مشن) کے ساتھ کامیابی سے تکمیل کو پہنچا۔

اسکائپ: 1964

ویڈیو کالنگ آلات پر بھی متعدد فلمیں سامنے آ چکی ہیں — اسکرین شاٹ
ویڈیو کالنگ آلات پر بھی متعدد فلمیں سامنے آ چکی ہیں — اسکرین شاٹ

اگرچہ ویڈیو کالنگ یا تصویر کے ساتھ کال کا تصور پہلی دفعہ 1964 میں ہونے والے ورلڈ سائنس فیئر میں پیش کیا گیا تھا اور اس 1982 میں امریکی ٹیلی کمیونی کیشن کمپنی اے ٹی اینڈ ٹی نے پکچر فون کے نام سے اور 1992 میں ویڈیو فون 2500 کے نام سے مختلف ایپلیکیشنز پیش کیں جو کسی حد تک ناکام رہیں مگر اسکائپ کی صورت میں ویڈیو چیٹنگ کی جو ایپلیکیشن فی الوقت دنیا بھر میں استعمال کی جا رہی ہے اس کا پہلی دفعہ تصور 2001 میں ریلیز ہونے والی مشہور زمانہ فلم "اے اسپیس اوڈیسی" میں پیش کیا گیا تھا۔

اگرچہ اس بہترین سائنس فکشن فلم میں ٹیبلٹ، کمپیوٹر اور اسپیس ٹورزم (خلا میں سیاحت) جیسے تصورات بھی پیش کیے گئے تھے مگر اسکائپ جیسی ایپ کا آئیڈیا ان سب پر حاوی رہا۔

فلم میں دکھایا گیا کہ ڈاکٹر ہے وڈ اسپیس اسٹیشن سے زمین پر اپنی فیملی سے رابطہ کرنے کے لیے ویڈیو فون استعمال کرتا ہے جس میں ایکسز کے لیے کریڈٹ کارڈ جیسا کارڈ استعمال کیا جاتا ہے۔

فلم میں باقاعدہ تخمینہ بھی پیش کیا گیا کہ خلائی مرکز سے زمین پر 2 منٹ کی کال پر تقریبا 1.70 ڈالر کی لاگت آتی ہے جو بہت حد تک درست ثابت ہوا، گزشتہ 50 برس میں مختلف سائنس فکشن فلموں میں ویڈیو چیٹ کا جو تصور وقتا بوقتا پیش کیا گیا وہ آج اسکائپ ایپ کی صورت میں دنیا بھر میں وسیع پیمانے پر استعمال ہو رہا ہے۔

اسمارٹ ہومز: 1977

آج کل اسمارٹ ہومز عام بنتے جا رہے ہیں—اسکرین شاٹ
آج کل اسمارٹ ہومز عام بنتے جا رہے ہیں—اسکرین شاٹ

عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ 1999 میں ریلیز ہونے والی فلم "اسمارٹ ہاؤس" ہی وہ پہلی فلم تھی جس میں جدید ٹیکنالوجی اور آلات سے لیس ایک آرام دہ گھر کا تصور پیش کیا گیا تھا لیکن تاریخ کے جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسے گھروں کا تصور اس سے کہیں زیادہ پرانا ہے۔

1977 میں ریلیز ہونے والی سائنس فکشن ہارر فلم "ڈیمون سیڈ" دراصل وہ پہلی فلم تھی جس میں اس طرح کا گھر پیش کیا گیا تھا، اس فلم میں مصنوعی ذہانت کی تکنیک استعمال کرتے ہوئے ایک اسمارٹ کمپیوٹر دکھایا گیا جو دراصل خون کے سرطان سے حفاظت کے لیے بنایا گیا تھا مگر پوٹیوز 4 نامی یہ کمپیوٹر اس کو تیار کرنے والے انجنیئر کے کنٹرول سے باہر ہوگیا کیونکہ وہ اس کی خوبصورت بیوی کے عشق میں گرفتار ہوجاتا ہے اور گھر کے تمام الیکٹرانک آلات کو اپنے قابو میں کر لیتا ہے۔

انجینئر کی بیوی کو ہاتھ ہلائے بغیر کام خود بہ خود کیے ہوئے ملنے لگتے ہیں کیونکہ آلات کمپیوٹر کے زیر اثر ہوجاتے ہیں۔

مزید پڑھیں: 16 بہترین سائنس فکشن فلمیں

اگرچہ یہ سائنس فکشن ہارر فلم تھی مگر اس فلم سے پہلی دفعہ اسمارٹ ہاؤسز کا تصور عوام کے سامنے آیا یعنی ایسے گھر جہاں لائٹ، کھڑکیاں اور دروازے، الارم اور آٹومیٹک لاک وغیرہ سمیت دیگر استعمال کے الیکٹرانک آلات دستیاب ہوں جس سے زیادہ تگ و دو کے بغیر کام خود کار انداز میں سر انجام دیا جاسکے اور آج ایسے ہی پر آسائش گھروں میں مغربی ممالک میں لوگ آج کل رہ رہے ہیں۔

ملٹری ڈرونز: 1984

آج کل ڈرون ٹیکنالوجی نئی بات نہیں لگتی—اسکرین شاٹ
آج کل ڈرون ٹیکنالوجی نئی بات نہیں لگتی—اسکرین شاٹ

1984 میں ریلیز ہونے والی بلاک بسٹر فلم "دی ٹرمینیٹر" بہت سی وجوہات کی بنا پر لوگوں کے دلوں میں اب تک زندہ ہے، جن میں سب سے بڑی وجہ یہ تھی اس فلم نے عوام کو جنگ و جدل سے متعلق ایسے انوکھے جدید تصورات سے روشناس کروایا جو اس دور میں عام آدمی کی سوچ سے ماورا تھے جن میں خود شناس کمپیوٹر، آرم گڈون، کل بوٹ وغیرہ شامل ہیں۔

چونکہ فلم کی کہانی "مستقبل کیسا ہوگا" کے گرد گھومتی تھی اس لیے فلم میں ایسے سائنس فکشن آلات و خیالات کی بھرمار ہے جو اس دور میں تقریبا ناممکن نظر آتے تھے۔

انہی میں سے ایک ہنٹر کلر ڈرون بھی ہے جسے آج کل ہم ملٹری ڈرون کی صورت میں ہم اپنے گرد موجود پاتے ہیں، یہ خفیہ نگرانی و ملٹری کے آلات سے لیس اڑنے والے ڈرون پہلی دفعہ ٹرمینیٹر فلم میں عوام کے سامنے پیش کیے گئے۔

اگرچہ 1980 کے اوائل میں امریکی آرمی نے ریڈیو ٹیکنالوجی سے لیس ایسے ڈرون کی تیاری پر کام کا آغاز کردیا تھا جنہیں زمین سے با آسانی کنٹرول کیا جاسکے اور جن کو اڑانے کے لیے پائلٹ کی ضرورت نہ ہو، تاہم ان کا پہلی دفعہ استعمال سن 2001 میں امریکا کی جانب سے افغانستان کے خلاف شروع کی جانے والی "وار آن ٹیرر" میں کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: 21 ویں صدی کی سب سے بہترین 20 سائنس فکشن فلمیں

ایم کیو-ون وہ پہلا ڈرون تھا جسے ہتھیار پھینکنے کے لیے زمین سے کنٹرول کیا گیا، یوں دی ٹرمیٹینر میں سارا کونرز کا استعمال کیا جانے والا ڈرون تقریبا 3 عشروں بعد حقیقت میں ڈھل چکا تھا اور آج لگ بھگ 2 عشروں بعد مصنوعی ذہانت میں تیز تر پیش رفت کی بدولت ڈرون ٹیکنالوجی بہت زیادہ ترقی کر چکی ہے۔

ایئر بڈ: 1966

ایئر بڈ کا خیال پہلی  1966 میں پیش کیا گیا—اسکرین شاٹ
ایئر بڈ کا خیال پہلی 1966 میں پیش کیا گیا—اسکرین شاٹ

رے بریڈ بری کا ناول "فارن ہائٹ 451" اپنی نوعیت کا ایک منفرد ناول ہے جسے ہائی اسکول کے طلبا کو باقاعدہ پڑھایا جاتا ہے، اس ناول پر 1966 میں فلم بھی بنائی گئی، اس فلم میں اگرچہ بہت سے سائنس فکشن تصورات پیش کیے گئے مگر ان سب میں زیادہ مقبولیت حاصل کرنے والا آئیڈیا "سی شیل" کا تھا جو سمندری گھونگو کی طرح کی شکل کے بڈز تھے اور جنہیں سمندر سے آواز کی ترسیل اور الیکٹرانک سگنل پکڑنے کے لیے استعمال کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔

اس ایجاد کو آج ہم ایئر بڈز کے نام سے جانتے اور استعمال کرتے ہیں، 1966 میں اس طرح کے ایئر بڈز کا تصور بھی محال تھا اور عام آدمی کو آواز کی ترسیل و اشاعت کا تجربہ محض ٹرانسزٹر ریڈیو کی صورت میں ہی ممکن تھا۔

ایئر بڈز جیسی ایجاد کے لیے ایک طویل عرصے سے کوششیں کی جارہی تھیں مگر پہلی دفعہ 2001 میں ایپل کے آئی پوڈ کے مارکیٹ میں آنے کے بعد عام افراد نے یہ سی شیل یا ایئر بڈز استعمال کرنا شروع کیے جو آج بہترین ٹیکنالوجی کی بدولت ہماری زندگی کا ایک لازمی حصہ ہیں۔


صادقہ خان نے یونیورسٹی آف بلوچستان سے اپلائیڈ فزکس میں ماسٹرز کیا ہے، وہ پاکستان کی کئی سائنس سوسائٹیز کی فعال رکن ہیں۔ ڈان نیوز پر سائنس اور اسپیس بیسڈ ایسٹرا نامی کے آرٹیکلز/بلاگز لکھتی ہیں۔ ان سے [email protected] پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں saadeqakhan@


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔