پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے مقامی رہنما مسرور سیال نے سینئر صحافی اور کراچی پریس کلب کے صدر امتیاز فاران پر لائیو ٹی وی شو کے دوران حملہ کردیا۔

نجی چینل 'کے 21' کے پروگرام 'نیوز لائن وِد آفتاب مغیری' میں امتیاز فاران کی جانب سے بطور تجزیہ کار پشاور بس ریپڈ ٹرانسپورٹ کا معاملہ کھٹائی میں پڑنے سے متعلق بات کرنے پر مسرور سیال طیش میں آگئے جس کے بعد پہلے دونوں کے درمیان تلخ کلامی ہوئی اور پھر پی ٹی آئی رہنما نے سینئر صحافی پر حملہ کر دیا اور گالیاں بھی دیں۔

انہوں نے امتیاز فاران پر جانبدارانہ تجزیہ کرنے کا الزام لگایا۔

مسرور سیال کا کہنا تھا وہ میٹرو بسوں کے دیگر شہروں میں چلنے والے منصوبوں کو بھی معیشت اور عوام پر بوجھ سمجھتے ہیں۔

امتیاز فاران نے ڈان نیوز ڈاٹ ٹی وی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ 'مسرور سیال، میٹرو اور دیگر عوامی فلاح کے منصوبوں پر دی جانے والی حکومتی سبسڈی ختم کرنے کی بات کر رہے تھے، جس پر میں نے ان کی مخالفت کی اور کہا کہ غریب عوام کی بہتری کے منصوبوں پر سبسڈی ختم نہیں ہونی چاہیے۔'

ان کا کہنا تھا کہ 'میری اس بات پر پی ٹی آئی رہنما آپے سے باہر ہوگئے، پہلے انہوں نے بدتمیزی کی اور پھر ہاتھ اٹھا دیا۔'

یہ بھی پڑھیں: وزیر اعظم کا صحافی سمیع ابراہیم کو فون، تھپڑ کے واقعے پر اظہار افسوس

صحافی تنظیموں کی مذمت

سینئر صحافی پر لائیو شو کے دوران تشدد اور گالیاں دینے کے واقعے نے صحافی تنظیموں اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے شدید مذمت کی۔

کراچی پریس کلب کے عہدیداران نے مسرور سیال کی جانب سے سینئر صحافی پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ واقعے کی ویڈیو میں پی ٹی آئی کے مقامی رہنما کو امتیاز فاران پر تشدد کرتے دیکھا جاسکتا ہے۔

پریس کلب کے بیان میں کہا گیا کہ یہ صرف صدر کراچی پریس کلب پر حملہ نہیں بلکہ آزادی صحافت پر حملہ ہے، جس کے خلاف لائحہ عمل طے کرنے کے لیے گورننگ باڈی کا ہنگامی اجلاس طلب کر لیا گیا ہے۔

کراچی یونین آف جرنلسٹس (کے یو جے) دستور نے کراچی پریس کلب کے صدر امتیاز فاران پر مسرور سیال کے بہیمانہ تشدد کی شدید مذمت کی۔

کے یو جے دستور کے صدر طارق ابوالحسن اور جنرل سیکریٹری محمد عارف خان نے نجی ٹی وی کے ٹاک شو میں تحریک انصاف کے مقامی رہنما کی جانب سے امتیاز فاران پر ہاتھ اٹھانے اور انہیں تشدد کا نشانہ بنانے پر بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ تحریک انصاف کے لوگ تسلسل کے ساتھ سیاسی نابالغی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ فواد چوہدری کی مذموم حرکت کا بھی نوٹس نہیں لیا گیا، آج مسرور سیال نے بھی یہ ثابت کر دیا کہ تحریک انصاف نے صحافیوں کے لیے عدم برداشت کی پالیسی اختیار کی ہوئی ہے، جبکہ کپتان کے کھلاڑیوں میں تنقید برداشت کرنے کا حوصلہ نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ آج کے واقعے پر پوری صحافی برادری شدید غم و غصے میں ہے، تحریک انصاف کی قیادت اس واقعے کو معمولی نہ سمجھے جبکہ سنجیدہ اقدامات سے اس طرح کے واقعات کو روکنا ہوگا۔

کے یو جے دستور کے صدر اور جنرل سیکریٹری نے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان سے مسرور سیال اور فواد چوہدری کو پارٹی سے خارج کرنے اور ان کے خلاف قانونی ضابطہ اخلاق کے تحت کارروائی کا مطالبہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ اگر اب بھی اس طرح کے لوگ پارٹی کا حصہ رہتے ہیں تو ہم اسے تحریک انصاف کی پُرتشدد پالیسی سمجھنے پرمجبور ہوں گے۔

مزید پڑھیں: صحافی کیلئے ٹوئٹر پر نامناسب زبان کا استعمال، فواد چوہدری پر تنقید

کراچی یونین آف جرنلسٹس برنا کے صدر اشرف خان، سیکریٹری احمد خان ملک اور ارکان مجلس عاملہ کی جانب سے صدر کراچی پریس کلب پر حملے کی شدید مذمت کی گئی۔

ایسوسی ایشن آف پارلیمینٹری جرنلسٹس سندھ (اے پی جے) نے امتیاز فاران پر تشدد کے خلاف احتجاج کا اعلان کیا۔

ترجمان اے پی جے کا کہنا تھا کہ مسرور سیال کے معافی مانگنے تک احتجاج جاری رہے گا۔

پاکستان ایسوسی ایشن آف پریس فوٹوگرافرز کی گورننگ باڈی نے بھی صدر کراچی پریس کلب امتیاز فاران پر حملے کی شدید مذمت کی۔

'صحافیوں پر تشدد سے ثابت ہوتا ہے پی ٹی آئی کا نظریہ فاشزم ہے'

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کراچی پریس کلب کے صدر پر پی ٹی آئی رہنما کے تشدد کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ امتیاز فاران پر ٹی وی شو میں پی ٹی آئی رہنما کا تشدد ناقابل برداشت ہے۔

انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی رہنما صحافیوں پر تشدد کرکے ثابت کر رہے ہیں کہ ان کا نظریہ فاشزم ہے جبکہ عمران خان نے پی ٹی آئی رہنماؤں کو جبر، دباؤ، تشدد اور تسلط کی تربیت دی ہے۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی اوچھے ہتھکنڈوں سے صحافیوں کی آواز نہیں دبا سکتی، جبکہ پیپلز پارٹی حکومتی جبر کے خلاف صحافی برادری کے ساتھ کھڑی ہے۔

مشیر اطلاعات، قانون و اینٹی کرپشن سندھ بیرسٹر مرتضیٰ وہاب نے سینئر صحافی اور پریس کلب کے صدر پر ٹی وی شو میں حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی۔

بیرسٹر مرتضیٰ وہاب نے اپنے بیان میں کہا کہ امتیاز فاران کے ساتھ مسرور سیال کی جانب سے بدمعاشی کی گئی جس کا پی ٹی آئی کے رہنماؤں کو نوٹس لینا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے ایسا رویہ پی ٹی آئی کی روش بنتی جارہی ہے اور سیاسی رہنماؤں کے بعد پی ٹی آئی والوں نے صحافیوں پر بھی حملے شروع کر دیئے ہیں۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب نے مسرور سیال کی جانب سے کراچی پریس کلب کے صدر پر تشدد کے مذمتی بیان میں کہا گیا کہ صحافیوں پر اس نوعیت کے حملے، تشدد اور دشنام طرازی پی ٹی آئی کا کلچر ہے، عمران خان نے اپنے کارکنوں کو عدم برداشت کا درس دیا اور انہیں جنونی اور بدتمیز بنایا۔

مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ تحمل، برداشت، اختلاف رائے کو سلیقے سے بیان کرنا معاشرے، سیاست اور صحافت کا بنیادی وصف ہوتا ہے لیکن پارلیمنٹ، پولیس اور عوامی اداروں پر حملے کرنے والے عمران خان کی ٹیم سے یہی توقع کی جاسکتی ہے۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ پی ٹی آئی کی قیادت سینئر صحافی سے اس بدسلوکی پر فی الفور معذرت کرے، جبکہ متعلقہ رہنما کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے۔

پاک سرزمین پارٹی (پی ایس پی) کی طرف سے بھی امتیاز فاران پر تشدد کی مذمت کی گئی۔

ترجمان پاک سرزمین پارٹی نے کہا کہ تحریک انصاف کے رہنما کی جانب سے صدر کراچی پریس کلب امتیاز فاران پر بہیمانہ تشدد کی پرزور مذمّت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں عدم برداشت کا کلچر فروغ پا رہا ہے جو کہ افسوسناک ہے جبکہ امتیاز فاران پر حملہ آزادی صحافت پر حملہ ہے۔

پی ایس پی کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف سے اپنے پارٹی رہنما کے خلاف ایکشن کا مطالبہ کیا گیا۔

پاکستان مسلم لیگ (ق) سندھ کے ڈپٹی سیکریٹری اطلاعات محمد صادق شیخ نے سینئر صحافی کو تحریک انصاف کے رہنما کی جانب سے زد و کوب کرنے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ امتیاز خان فاران نے ہمیشہ جمہوریت کی بقا کی حمایت کی ہے اور ان پر تشدد سمجھ سے بالا تر ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ مسرور سیال زبان سے بھی اپنا موقف دے سکتے تھے لیکن سینئر صحافی پر پروگرام کے دوران گالی گلوچ اور تشدد نے ان کی سوچ کو عیاں کر دیا۔

جماعت اسلامی کراچی کے سیکریٹری اطلاعات زاہد عسکری نے نجی نیوز چینل کے ٹاک شو میں پریس کلب کے صدر امتیار فاران کے ساتھ پی ٹی آئی کے رہنما مسرور سیال کی بدتمیزی و بدتہذیبی اور ان کو زدوکوب کرنے کی شدیدمذمت کی اور پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت سے مطالبہ کیا کہ مذکورہ پی ٹی آئی رہنما کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔

زاہد عسکری نے کہا کہ پی ٹی آئی کی جانب سے حکومت میں آنے سے قبل جو دعوے اور وعدے کیے گئے تھے، ان کی تقریباً 10ماہ سے زائد عرصے کی کارکردگی نے ان دعوؤں کی نفی کر دی ہے اور اب ان کے اندر برداشت اور تحمل کا عنصر بھی کم سے کم ہوتا جارہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ لوگ دلیل کا مقابلہ دلیل سے کرنے اور تلخ سوالات کا سامنا کرنے کے بجائے اوچھے ہتھکنڈوں پر اُتر آئے ہیں، یہ رویہ اور طرزِ عمل کسی طرح بھی قابل قبول نہیں ہو سکتا اور پی ٹی آئی والوں کا اپنا رویہ اور طرزِ عمل درست کرنے کی ضرورت ہے۔

فواد چوہدری کا صحافی سمیع ابراہیم کو تھپڑ

یاد رہے کہ چند روز قبل پی ٹی آئی رہنما اور وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری کی جانب سے صحافی سمیع ابراہیم کو ایک نجی تقریب میں تھپڑ مارنے کا واقعہ سامنے آیا تھا۔

سمیع ابراہیم نے فیصل آباد کے تھانے منصور آباد میں فواد چوہدری کے خلاف شادی کی تقریب کے دوران تھپڑ مارنے کی شکایت درج کرائی تھی۔

انہوں نے الزام عائد کیا کہ وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی انہیں دھمکیاں بھی دے رہے ہیں۔

فواد چوہدری اور سمیع ابراہیم کے درمیان تنازع کا آغاز رواں ماہ کے آغاز میں ہوا تھا جب سمیع ابراہیم کی جانب سے فواد چوہدری پر حکمراں جماعت کے خلاف سازش کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔

فواد چوہدری نے سمیع ابراہیم کے الزامات کے جواب میں تنقید کرتے ہوئے ان کے لیے نامناسب زبان استعمال کی تھی۔

بعد ازاں سمیع ابراہیم نے نجی چینل 'بول ٹی وی' کے ایک پروگرام میں فواد چوہدری کے ریمارکس پر رد عمل دیتے ہوئے ان پر وزیر اطلاعات کے عہدے پر فائز ہونے کے وقت ذاتی استعمال کے لیے سرکاری گاڑیوں کے استعمال کے بھی الزامات عائد کیے تھے۔

وزارت سائنس اور ٹیکنالوجی نے وفاقی وزیر فواد چوہدری کے صحافی سمیع ابراہیم کو تھپڑ مارنے کے الزام پر وضاحت دیتے ہوئے کہا تھا کہ واقعے کو 2 اداروں میں تصادم سمجھنے کے بجائے 2 اشخاص کے درمیان تنازع تصور کرنا چاہیے۔

بیان میں کہا گیا کہ ’ایک شخص نے دوسرے شخص کی عزت نفس کو مجروح کرنے کی کوشش کی تو متاثر ہونے والے شخص نے اس کا ردعمل دیا ہے‘۔

فواد چوہدری کے اس عمل کی بھی صحافی برادری نے بھرپور مذمت کی تھی۔

تبصرے (1) بند ہیں

KHAN Jun 25, 2019 06:28pm
اس طرح کے رہنما اور دیگر جب قربانی دینے والے عام اخباری کارکنوں کو فارغ کیے جانے پر چپ رہے اور مزے کرتے رہے تو اب ان کو بھگتنا بھی چاہیے، ورنہ پی ٹی آئی کا ایم پی اے ہو یا ایم این اے ۔۔۔ ان کی کیا مجال کہ کسی کو نظریں اٹھا کر بھی دیکھ سکیں۔ تھپڑ مارنا، گالیاں دینا، تشدد کرنا۔ کسی صورت قبول نہیں۔