’نہیں چاہتا جو پیپلزپارٹی اور (ن) لیگ کے ساتھ ہوا وہ تحریک انصاف کے ساتھ ہو’

اپ ڈیٹ 25 جون 2019
میثاق معیشت تو یاد رہ گیا میثاق جمہوریت کیوں یاد نہیں رہا—اسکرین شاٹ
میثاق معیشت تو یاد رہ گیا میثاق جمہوریت کیوں یاد نہیں رہا—اسکرین شاٹ

مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور سابق وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے جمہوری نظام کے خطرے کے خدشے کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس ملک میں جمہوری نظام کو نقصان پہنچا تو ذمہ دار حکومت ہوگی لیکن میں نہیں چاہتا کہ جو پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے ساتھ ہوا وہ تحریک انصاف کے ساتھ ہو۔

قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر اسد قیصر کی صدارت میں ہوا، جہاں حکومت اور اپوزیشن اراکین نے بجٹ بحث کے علاوہ ایک دوسرے پر تنقید کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔

ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور سابق وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ مجھے علم ہے کہ پروڈکشن آرڈر جاری کرنے پر آپ پر کتنا دباؤ رہتا ہے، تاہم میرے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے پر آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔

خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ یہ درست ہے کہ میثاق معیشت کی پیشکش کی گئی لیکن گریبان پکڑ کر یا بندوق رکھ کر میثاق نہیں کروائے جاتے، میثاق کا آغاز جمہوریت سے کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ میثاق معیشت تو یاد رہ گیا میثاق جمہوریت کیوں یاد نہیں رہا، پہلے اسے بڑھانا چاہیے پھر میثاق معیشت پر بات ہونی چاہیے، تاہم یہ نہیں ہوسکتا کہ غیر ضروری رویے، آمرانہ اقدام، انتقامی کارروائیوں کی جائیں اور ڈھٹائی سے کہیں کہ یہ سب ہم کروا رہے ہیں حالانکہ جو آپ کے پلے میں ہے وہ ہمیں بھی پتہ ہے جو ہمارے پلے میں تھا وہ بھی ہمیں پتہ تھا۔

سابق وزیر نے کہا کہ اس ملک میں جمہوری حکومتوں کے پلے میں جو ہوتا ہے وہ ہمیں بھی پتہ ہے، ہم 5 سال حکومت کرکے آئے ہیں پھر کون سا این آر او؟، کیسا این آر او؟، این آر او دینا منتخب وزرا اعظم کا کام ہی نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کہتے ہیں کہ سلیکٹڈ کا لفظ استعمال نہ کرو، یا تو خود کو سلیکٹڈ مان لیں تو پھر ہم یہ مان سکتے ہیں کہ آپ این آر او دے سکتے ہیں کیونکہ یہاں منتخب وزیر اعظم این آر او دینے کی پوزیشن نہیں رکھتا۔

مزید پڑھیں: نیا پاکستان سینسرڈ پاکستان ہے، جو ہمیں منظور نہیں، بلاول بھٹو

اپنی بات جار رکھتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ میثاق سے کوئی پیچھے نہیں ہٹ رہا لیکن میثاق کرنے، معاہدے کرنے یا ملک چلانے کے لیے سیاسی درجہ حرارت نیچے لانا پڑتا ہے، یہ نہیں ہوتا کہ گریبان میں پلے ڈال کر دباؤ ڈال کر ضمانتیں منسوخ کروائیں یہ جو ہورہا ہے وہ آپ کو بھی پتہ ہے اور ہمیں بھی پتہ ہے، اللہ آپ کو اس آفت سے محفوظ رکھے لیکن آپ بچ نہیں سکتے کیونکہ ہم نہیں بچے، پیپلز پارٹی والے نہیں بچے، ایم کیو ایم والے نہیں بچے تو آپ کیسے بچیں گے۔

مسلم لیگ (ن) کے رہنما کا کہنا تھا کہ ایک، دو مرتبہ ایسا ہوا کہ میرے بھائی کو جیل میں دل کا دورہ پڑا تو میرا دل ہوا کہ میں ان لوگوں کو بددعا دوں لیکن میں ڈر گیا۔

قومی اسمبلی میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم نے کیا چوری کیا، کیا ڈاکا مارا، ہر بندہ چور نہیں ہوتا، ہمیں معلوم ہے کس بات کا رگڑا لگ رہا ہے یہ رگڑا تقریروں کا ہے۔

بجٹ پر تنقید کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس بجٹ نے تنخواہ دار طبقے کی چیخیں نکلوا دیں، ریئل اسٹیٹ سیکٹر کی تباہی کے تابوت میں یہ بجٹ آخری کیل ثابت ہوگا جبکہ انکم ٹیکس افسران کو چھاپوں کا اختیار دینے سے کرپشن کا نیا سیلاب آئے گا۔

ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ لوگوں کے گھروں میں گھسنے کے اختیارات کو پوری قوم بھگتے گی، اسی طرح 12 لاکھ ٹیکس کی چھوٹ کو 4 لاکھ پر لانا ظالمانہ اقدام ہے، جو حکومت 4 ہزار ارب کا ہدف پورا نہیں کرسکی وہ ساڑھے 5 ہزار ارب روپے کا ہدف کیسے پورا کرے گی۔

اظہار خیال میں ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی نے پاکستان کی تاریخ میں خسارے کا سب سے بڑا بجٹ پیش کیا ہے، تعلیم اور صحت کا شعبہ اس حکومت کے منشور میں شامل تھا لیکن تعلیم کے بجٹ میں 20 ارب روپے کی کمی کی ہے جبکہ صحت کے شعبے کا بجٹ بھی کم کیا ہے۔

قرضوں پر انہوں نے کہا کہ ہمیں کہا جاتا ہے کہ 5 سال میں ساڑھے 10 ہزار ارب کے قرضے لیے جبکہ آپ کی حکومت نے 10 ماہ میں 5 ہزار ارب کے قرضے لے لیے۔

انہوں نے کہا کہ بجلی، گیس، اشیا خورونوش ہر چیز مہنگی ہوگئی ہے، ہمیں جنہیں یہ چور کہتے ہیں ان کے دور میں جی ڈی پی 5.8 فیصد تھی جبکہ ان فرشتوں کے دور میں 3 فیصد تک آگیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: خواجہ آصف بھی مریم نواز کے حامی، میثاق معیشت کی مخالفت کردی

ریلوے پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ریلوے میں آئے روز حادثات ہورہے ہیں، میرے دور میں بھی حادثات ہوتے تھے اور ایک وزیر براہ راست اس کا ذمہ دار نہیں ہوتا لیکن اس وقت میرا استعفیٰ مانگا جاتا تھا لیکن میں نے آپ کے استعفیٰ کا مطالبہ نہیں کیا۔

وفاقی وزیر شیخ رشید پر تنقید کرتے ہوئے سعد رفیق نے کہا کہ عارف علوی اور عمران خان کو خوش کرنے کے لیے آپ نے ٹرینیں چلائیں، آپ نے 10 نئی ٹرین چلائیں جس میں 4 خسارے میں ہیں، چلتی ٹرینوں کی بوگیاں اتار کر ہمارے چھوڑے گئے نئے انجن سے جوڑ کر ٹرین چلا دی۔

اس موقع پر انہوں نے دعویٰ کیا کہ ایم ایل ون پر معاہدے کا کہا گیا لیکن آپ نے کوئی معاہدہ نہیں کیا، اگر آپ نے معاہدہ کیا ہے تو میں استعفیٰ دے دوں گا اور سیاست چھوڑ کر جاؤں گا، آپ ایک ایم او یو کرکے آئے ہیں جو کوئی کام نہیں، ریلوے کا کباڑہ کردیا ہے۔

خواجہ سعد رفیق نے اپنے خطاب میں سیاست پر بھی بات کی اور کہا کہ نیب کا کالا قانون ملک کی معیشت کو کھوکھلا کر رہا ہے، وہاں صرف سیاست دان قید نہیں بلکہ سیکڑوں لوگ موجود ہیں جو ہماری جان کو رو رہے ہیں انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے نیب قوانین میں ترمیم نہیں کرکے نالائقی کی، ہمیں ترمیم کرنی چاہیئے تھی جبکہ یہی نالائقی تحریک انصاف بھی کر رہی ہے جو ان کے گلے پڑے گی۔

اسمبلی میں مزید بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جس پر شک ہو اسے پکڑ کر جیل میں ڈال دیا جاتا ہے، خوف کا عالم یہ ہے کہ ہمیں رگڑا لگانے کے شوق میں سرکاری ملازم ڈر گئے ہیں اور کوئی دستخط کرنے کو تیار نہیں ہے، کوئی کسی منصوبے کو آگے بڑھانے کے لیے تیار نہیں ہے۔

خواجہ سعد رفیق کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم آفس میں ایک احتساب سیل قائل ہے، یہ ویسا ہی سیل ہے جو مسلم لیگ (ن) نے اپنے دور میں قائم کرکے غلط کام کیا تھا، یہ غلط اقدام تھا، جس کی مذمت کرتا ہوں۔

مزید پڑھیں: آصف علی زرداری کا عمران خان کو مستعفی ہو کر گھر جانے کامشورہ

انہوں نے کہا کہ آپ احتساب کرتے اگر غیرجانبدار حکومت ہوتے، جس حکومت کا سربراہ کہے کہ میں نہیں چھوڑوں گا، جس کے وزرا کہیں ہم گرفتاریاں کرواتے ہیں وہ حکومت اعتماد کھو دیتی ہے، ایسی حکومت احتساب نہیں کرسکتی۔

اپنے خطاب میں انہوں نے کہا کہ کوئی یہ سمجھتا ہے کہ ’میں نہیں چھوڑوں گا‘ کا شور مچا کر مخالفت اور مزاحمت ختم ہوگی تو یہ غلط فہمی ہے، ڈنڈوں، دھمکیوں، گرفتاریوں، انتقام سے ملک نہیں چلایا جاسکتا، اس لیے ایسے اقدام سے بچیں۔

حکومت پر تنقید کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ آپ سمجھتے ہیں کہ ایسے پاکستان آگے بڑھ جائے گا اور بدسلوکی یہ سب دفن کردے گی تو پیپلزپارٹی کو ہم زور لگا کر دفن نہیں کرسکے، ضیاالحق کے دور میں پیپلزپارٹی نظر نہیں آتی تھی لیکن جب بینظیر بھٹو آئیں تو اور کوئی نظر نہیں آتا تھا صرف پیپلزپارٹی آتی تھی، لہٰذا سیاسی حقیقت کو گھلا گھونٹ کے دبایا نہیں جاسکتا۔

انہوں نے کہا کہ ہم جیل میں پڑے ہیں لیکن اگلا سال آپ کا سال ہے، شاید آپ کو اس کی آواز نہیں آرہی، تاہم ہم ایسا نہیں چاہتے۔

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بطور سیاسی رہنما دکھ ہوتا ہے جب ہم اپنی جماعتوں اور قیادت کے دفاع کے لیے جھوٹ کی حد تک چلے جاتے ہیں، ہم نے اپنے قائدین کو اوتار بنا لیا ہے وہ انسان ہیں، وہ غلطیاں کرتے ہیں، تاہم اگر ریاست میں یہی حالات رہے تو یہ جمہوری نظام خطرے میں ہے، جو سمجھتا ہے ایسا نہیں ہے تو وہ اپنی غلط فہمی نکالے، زیادہ وقت نہیں ہے، یہاں 5 سال آرام سے نہیں نکلتے۔

خواجہ سعد رفیق کا کہنا تھا کہ نہیں چاہتا کہ جو پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے ساتھ ہوا وہ آپ کے ساتھ ہو لیکن اسے کمزوری نہ سمجھے اور سوچیں اور ایسا راستہ بنائیں کہ ہم سب آگے بڑھیں۔

مذاق معیشت کی آواز موجودہ حالات کے تناظر میں آئی، خواجہ آصف

اس سے قبل مسلم لیگی رہنما خواجہ آصف نے بھی قومی اسمبلی میں اظہار خیال کیا اور کہا کہ میثاق معیشت اصولی طور پر بڑی اچھی بات ہے کیونکہ ہماری معیشت میں اتار چڑھاؤ آتا ہے اور میثاق حکومت اور اپوزیشن میں نہیں بلکہ سیاسی جماعتوں میں ہونا چاہیے۔

خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ بنگلہ دیش میں میثاق معیشت سیاسی جماعتوں میں ہوا کہ جو بھی جماعت آئے وہ اس پر غور کرے۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت ہم بجٹ پر بحث کر رہے ہیں، اس پر ہماری ایک رائے ہے، ہم اس بجٹ کی مخالفت کر رہے ہیں اور اپوزیشن کی رائے میں یہ عوام دشمن بجٹ ہے۔

یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم 'میثاق معیشت' پر کمیٹی بنانے کیلئے آمادہ ہوگئے،اسد قیصر کا دعویٰ

بات کو جاری رکھتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ تمام سیاسی جماعتوں میں ایک میثاق معیشت ہونا چاہیے اور 100 فیصد ہونا چاہیے، ہم اس کے مخالف نہیں ہیں لیکن اگر ہماری جماعت سے اسے مذاق معیشت کہنے کی آواز آئی ہے تو موجودہ حالات کے تناظر میں ہے کیونکہ جب تمام تر اداراہ جاتی اصلاحات کی جاچکی ہیں تو ایک نیا فنانشل ایکٹ متعارف کروایا جارہا ہے جس سے ہمیں اختلاف ہے، کیا یہ بہتر نہیں تھا کہ بجٹ سے پہلے میثاق پر اتفاق کرلیتے۔

لیگی رہنما نے کہا کہ ہم اصولی طور پر آج بھی میثاق کی حمایت کرتے ہیں، ہمارے قائد نے 10 سال پہلے ہی اس کا کہا تھا لیکن آج کے حالات کے تناظر میں جس میں بجٹ پر بحث ہورہی اور ہماری اور حکومت کی رائے میں اتنا اختلاف ہے تو پہلے بجٹ پر ایک ملاقات کا پوائنٹ بنانا چاہیے، جس کے بعد اس کی منزل میثاق معیشت کردیتے ہیں۔

پیپلزپارٹی، ن لیگ ایک دوسرے کو چور کہہ کر ووٹ لیتی تھیں، فواد چوہدری

اپوزیشن اراکین سے قبل اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے کہا کہ اچھا وقت چل رہا تھا، پیپلزپارٹی، مسلم لیگ (ن) ایک دوسرے کو چور کہہ کر ووٹ لیتی تھیں، جو جیت جاتا تھا مولانا فضل الرحمٰن ان کے ساتھ مل کر حکومت بنا لیتے تھے۔

فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ پھر عمران خان آئے، جس کے بعد سے (ن) لیگ کو سمجھ نہیں آرہی اور وہ ایوان میں ہوتی ہے تو ’ش‘ لیگ ہوتی ہے، لاہور پہنچتی ہے تو ’م‘ ہوجاتی ہے جبکہ کراچی پہنچتی ہے تو ’بی‘ ہوجاتی ہے، ہمیں سمجھ نہیں آرہا کہ یہ کیا ہے اور کیا نہیں۔

ایف اے ٹی ایف کا رکن نہ بننے کی تحقیقات کی جائیں، شیریں مزاری

وفاقی وزیر کے خطاب سے قبل قومی اسمبلی کے اجلاس میں وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے کہا کہ ہمیں ایف اے ٹی ایف کا نقصان ہوا ہے، 1989میں جی 7 اجلاس میں منی لانڈرنگ بہت بڑا مسئلہ بن گیا تھا جس کی وجہ سے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس تشکیل دی گئی۔

انہوں نے کہا کہ اس میں جی 7 کے 7 رکن ممالک تھے جبکہ 8 دیگر ممالک تھے، بھارت نے اس کی رکنیت کے لیے درخواست دی وہ رکن بن گئے۔

شیریں مزاری نے کہا کہ ایف اے ٹی ایف میں ہم بھارت کی وجہ سے یہ نتیجہ دیکھ رہے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ ہم نے اس کی رکنیت کے لیے کوشش کیوں نہیں کی، یہ ماضی کی حکومتوں کی مجرمانہ غفلت ہے، 2007 میں فنانشل مانیٹرنگ یونٹ ( ایف ایم یو ) قائم کرچکے تھے، 2010 تک ہم کسی بلیک لسٹ یا گرے لسٹ کاحصہ نہیں تھے۔

مزید پڑھیں: عمران خان اور پرویز مشرف کی حکومت میں صرف وردی کا فرق ہے، آصف زرداری

وفاقی وزیر نے کہا کہ ایف اے ٹی ایف کی رکنیت کے لیے اسٹریٹیجکلی اہم ہونا، جی ڈی پی، بینکنگ، انشورنس، آبادی کی شرح سے متعلق شرائط ہیں جن پر ہم اس وقت پورا اترتے تھے، انڈونیشیا، ملائیشیا اور بہت سے ممالک رکن ہیں۔

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 2013 میں ہم بلیک لسٹ میں پہنچنے کی وجہ سے رکنیت کی کوشش نہیں کرسکتے تھے لیکن اس سے پہلے ماضی کے رہنماؤں نے اپنی منی لانڈرنگ کو چھپانے کے لیے ایف ای ٹی ایف کی رکنیت حاصل نہیں کی، 2015 اور 2018 کے درمیان ہم بلیک لسٹ اور گرے لسٹ سے ہٹ گئے تھے لیکن اس کے باوجود گزشتہ حکومت نے اپنی منی لانڈرنگ کی وجہ سے رکنیت حاصل نہیں کی۔

شیریں مزاری نے کہا کہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ لیڈزر جب کرپشن اورمنی لانڈرنگ کرتے ہیں تو مختلف سطح پر ملک کا نقصان ہوتا ہے، اگر اس وقت ہم ایف اے ٹی ایف کے رکن ہوتے تو گرے لسٹ میں ہمارا آنا مشکل ہوتا ہم ووٹ ڈال رہے ہوتے جیسے بھارت ہمیں آئے دن ذلیل کررہا ہوتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: قومی اسمبلی: اپوزیشن نے بجٹ مسترد کردیا، ڈٹ کر مخالفت کا اعلان

خطاب کے دوران ان کا کہنا تھا کہ قوم پر ایف اے ٹی ایف کی مصیبت صرف ماضی کی قیادت کی وجہ سے آئی ہے، 2007 کے بعد سے لے کر اب تک ایسا ہر موقع ضائع کیا گیا بیوروکریسی ، اسٹیٹ بینک کے ایف ایم یو، وزارت خزانہ، وزارت خارجہ شامل ہیں اور وہ رہنما سے تحقیقات ہونی چاہیے کہ انہوں نے اس وقت رکنیت حاصل کیوں نہیں کی۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ اگر ہم ایف اے ٹی ایف کی رکنیت کے لیے کوشش کرتے تو ہم ان مشکلات کا شکار نہیں ہوتے، 3، 4 دن پہلے سعودی عرب کو بھی رکنیت مل گئی ہے، 39 ممالک اس کے رکن ہیں لیکن ہمارا نام کہیں نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کو مطالبہ کرنا چاہیے کہ تحقیقات کی جائیں ہم نے ایف اے ٹی ایف کی رکنیت کیوں حاصل نہیں اور 2008 میں اقوام متحدہ سے دوطرفہ معاہدہ بروقت کیوں نہیں رجسٹر کروایا جس کی وجہ سے ہم کلبھوشن یادیو کی پیشیاں بھگت رہے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں