پاکستان 17-2016 کے دوران دنیا کے ان 4 ممالک میں شامل تھا جنہیں جی 20 ممالک سے کوئلے سے چلنے والے پاور پلانٹ کے لیے سبسڈیز موصول ہوئیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق تقریباً ایک دہائی قبل دنیا کی بڑی معیشتوں کی جانب سے فیوزل فیول سبسڈیز کم کرنے کے وعدوں کے باوجود یہ معیشتیں کوئلے سے چلنے والے پاور پلانٹ کے لیے سبسڈی کو ڈبل کر رہی ہیں۔

لندن کے ایک تھنک ٹیک 'اوورسیز ڈیولپمنٹ انسٹیٹیوٹ' کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق ایسا کرنے سے ماحولیاتی تبدیلی پر اس کے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

مزید پڑھیں: 'پاکستان کو کوئلے کے بجائے توانائی کے ماحول دوست ذرائع اپنانے چاہئیں'

رواں دہائی کے دوران 2014 سے 2017 کے درمیان جی 20 ممالک کی حکومتوں نے اپنی سالانہ تقریباً 22 ارب ڈالر کی سپورٹ کو کم کرکے 10 ارب ڈالر کر دیا ہے۔

لیکن دوسری جانب ان ممالک نے ترقی پذیر ممالک میں کوئلے سے چلنے والے پلانٹس کی تعمیر میں اپنی معاونت کو بڑھادیا، جو سالانہ 17 ارب ڈالر سے بڑھ کر 47 ارب ڈالر تک پہنچ گئی۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ چین اور جاپان ترقی پذیر ممالک میں ان پلانٹس کی تعمیر میں سرمایہ کاری کرنے والے سب سے بڑے ممالک ہیں جبکہ ان کے بعد جنوبی کوریا اور بھارت کا نمبر ہے۔

مذکورہ رپورٹ کے مصنف اپیک گیانسو کا کہنا ہے کہ 'آپ دیکھ سکتے ہیں کہ یہ ممالک اس خراب توانائی نظام کو برآمد کر رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ’گیم چینجر منصوبہ، پاکستان کی تقدیر بدل دے گا‘

انہوں نے بتایا کہ جن ممالک میں سب سے زیادہ اس توانائی کو پہنچایا جارہا ہے یا سرمایہ کاری کی جارہی ہے ان میں بنگلہ دیش، انڈونیشنا، پاکستان اور ویتنام شامل ہیں۔

پاور پاسٹ کول الائنس کا کہنا ہے کہ دنیا کے درجہ حرارت کو 2 ڈگری سے کم رکھنے کے لیے عالمی معاہدے کی پاسداری کے لیے مرحلہ وار 2030 سے 2050 تک ختم کرنا ہوگا۔

خیال رہے کہ یہ اتحاد 2017 میں برطانوی اور کینیڈین حکومتوں کی سربراہی میں بنایا گیا تھا جس میں 30 نممالک شامل ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں