لکھاری صحافی ہیں۔
لکھاری صحافی ہیں۔

ہفتے کے روز مریم نواز کی پریس کانفرنس نے ایک لحظے کے اندر ہی سیاسی گفتگو کا رُخ بدل دیا اور ہر کسی کی توجہ اس جانب تھی کہ انہوں نے کیا کہا ہے اور کیا نہیں، اور کیا کہنا چاہا اور کیا نہیں۔ ویسے مریم نواز کو آج کل اپنے والد کی آواز کے ساتھ ساتھ ان کی وارث بھی تسلیم کیا جارہا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ میثاق معیشت کے تصور کو ان کی جانب سے مسترد کیے جانے کے بعد اس پورے خیال پر پانی پھر چکا ہے۔ انہوں نے ناصرف اس تجویز کو بے وقوفانہ ٹھہرایا بلکہ یہ بھی کہا کہ ان کے والد کے نزدیک بھی یہ اچھا خیال نہیں ہے۔

یہ یاد نہیں آ رہا کہ انہوں یہ بیان اپنی اس بات سے پہلے دیا یا بعد میں کہ پارٹی کے تمام حتمی فیصلے ان کے والد ہی کرتے ہیں، بھلے ہی میڈیا پر آنے والے شہباز شریف یا خود ان کے خیالات جو بھی ہوں۔ مگر انہوں نے اپنی بات کہہ دی اور نتیجتاً انہوں نے اپنی جس بات کو ذاتی رائے قرار دیا تھا اس پر بعدازاں پارٹی مؤقف کی مہر ثبت ہوگئی۔

مریم نواز کے ان مختصر جملوں کی مہربانی سے شہباز شریف کی پارلیمنٹ میں کی گئی 3 گھنٹوں کی تقریر کا مقدر کوڑا دان ٹھہرایا گیا۔ بے چارے شہباز شریف، اب ان کے کیریئر کا سفر پرنس چارلس کے شاہی سفر سے ملتا جلتا نظر آنے لگا ہے۔

ہم میں سے وہ خواتین و حضرات جو پاکستان میں سیاست نامی پاگل پن کی تشریحات بیان کرکے معاوضہ حاصل کرتے ہیں وہ آنے والے دنوں کے دوران مریم کے اپنے چچا کے ساتھ تعلقات کا جائزہ لینے کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔

پریس کانفرنس کی ابتدا میں مریم نواز ایک بیٹی کی صورت میں نظر آئیں۔ انہوں نے اپنے والد کی صحت کے حوالے سے بات کی اور یہ واضح کرنے کی کوشش کہ ان کے والد کے ساتھ جیل میں ناگوار سلوک روا رکھا جا رہا ہے۔ دراصل اس طرح وہ نواز شریف کی ضمانت پر رہائی کے لیے دباؤ پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہوئے دکھائی دیں، کیونکہ حال ہی میں اسلام آباد ہائی کورٹ ان کی ضمانت کی درخواست رد کرچکی ہے اور ممکن ہے کہ ان کے وکلا اب سپریم کورٹ میں اپیل دائر کریں گے۔

ایک بیٹی کے طور پر انہوں نے اپنا مؤقف نصف گھنٹے کے اندر پیش کردیا۔

تاہم وہاں موجود صحافی ظاہر ہے کہ ان سے سوالات پوچھنا چاہتے ہیں اور انہیں طبی معاملات سے زیادہ سیاسی معاملات میں دلچسپی تھی، اور پھر پریس کانفرنس میں بیٹی کے بعد باری آئی ایک ابھرتی ہوئی سیاستدان کی۔

کانفرنس کے اس حصے میں انہوں نے میثاقِ معیشت، بلاول بھٹو زرداری، فوج اور دیگر معاملات پر بات کی۔

مریم نواز کے ان مختصر جملوں کی مہربانی سے شہباز شریف کی پارلیمنٹ میں کی گئی 3 گھنٹوں کی تقریر کا مقدر کوڑا دان ٹھہرایا گیا۔ بے چارے شہباز شریف، اب ان کے کیریئر کا سفر پرنس چارلس کے شاہی سفر سے ملتا جلتا نظر آنے لگا ہے۔

ممکن ہے کہ مریم نواز کو یہ اندازہ ہی نہیں تھا کہ ان کے الفاظ سے چائے کی پیالی میں طوفان برپا ہوجائے گا۔ اس بات کی تصدیق پریس کانفرنس سے کچھ لمحوں بعد دیے گئے انٹرویو میں ثابت بھی ہوگئی۔ خصوصی انٹرویوز جن کا دورانیہ ایک پورے پروگرام جتنا ہوتا ہے وہ عام طور پر فون پر نہیں لیے جاتے۔ ایسا لگا کہ جیسے جلد بازی میں یہ فیصلہ ہوا تھا کہ پریس کانفرس سے اٹھنے والے سوالات اور خاص طور پر ان کے اپنے چچا، جو پارٹی صدر بھی ہیں، کے ساتھ تعلقات پر وضاحت دی جائے۔

مگر، یہ فقط گھریلو تعلقات ہی نہیں تھے کہ جن کے بارے میں کیے گئے مشکل سوالات سے بچنے کی عدم صلاحیت ظاہر ہوئی بلکہ وہ فوج کے بارے میں بھی کیے گئے سوالات کو صحیح سمت میں لے جانے میں ناکام نظر آئیں۔

پریس کانفرنس کے دوران جب انہوں نے قرضوں سے متعلق تحقیقات کے لیے سیاسی تناظر میں بنائے گئے کمیشن میں فوج کے ادارے کی شمولیت پر تشویش کا اظہار کرنے کی کوشش کی تو وہ آئی ایس آئی کے افسر کی جانب سے کی گئی سخت پوچھ گچھ پر اپنی ناراضگی کو چھپا نہیں پائیں، کیونکہ باقی دیگر تمام ممبران نے اس مرحلے پر خاموشی اختیار کر رکھی تھی۔

اسی طرح انہوں نے قرضہ کمیشن کا دائرہ مشرف دور اور کولیشن سپورٹ فنڈز تک بڑھانے کا مطالبہ کرکے پنڈی اور اس سے پرے متعدد افراد کو حیران کردیا۔

یہ یقین کرنا تھوڑا مشکل ہے کہ ایسا انہوں نے جانتے بوجھتے کیا کیونکہ گزشتہ چند ماہ میں مریم نواز شریف ایک الگ شخصیت کے طور پر سامنے آئی ہیں، ایسی شخصیت جس نے ناصرف ان اداروں کے بارے میں خاموشی توڑی ہے بلکہ ان اداروں کو انتخابات سے پہلے ہی زبانی حملوں کا نشانہ بنانا شروع کردیا تھا۔

وہ ایک بار پھر (پریس کے ساتھ باضابطہ گفتگو میں) ناتجربہ کاری اور اس کے ساتھ تحمل کھو بیٹھنے کا مظاہرہ سا کرتی نظر آئیں، جس کی انہیں قیمت بھی ادا کرنی پڑے گی کیونکہ خواتین کو جذبات کے کسی اظہار پر مردوں کے مقابلے میں زیادہ سخت فیصلوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اس کے علاوہ ایک بات جو مریم نواز کے اپنے چچا اور سول فوجی تعلقات کی وجہ سے زیادہ سامنے نہیں آسکی تھی وہ ان کے والد کے کئی قریبی ساتھیوں کے ساتھ زیادہ قریبی نظر نہ آنے والے تعلقات کے اشارے تھے۔ (ن) لیگ کے یہ رہنما ظہرانے اور پریس کانفرنس کے موقعے پر بھی دکھائی نہیں دیے۔

جیسے شاہد خاقان عباسی مذاق اڑاتے ہوئے کہتے رہتے ہیں کہ عمران خان اگر یہ جاننا چاہتے ہیں کہ کتنا پیسہ خزانے میں آ چکا ہے اور کہاں خرچ کیا گیا ہے تو اس کا پتہ وہ وزارت خزانہ کی دستاویزات کا جائزہ لے کر لگا سکتے ہیں۔ لیکن مریم نواز نے اس تجویز کو سنجیدہ لے لیا ہے۔

ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ بطور ایک حزبِ اختلاف رہنما اپنا کردار زیادہ عوامی سطح پر ادا کرنے کی کوششوں کی وجہ سے مریم نواز کو بار بار ایسے نازک موڑ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

خاندان کی دو شاخوں کے درمیان اختلاف ہمیشہ سے ہی شہہ سرخی کے قابل خبر سمجھی جاتی تھی مگر ماضی قریب کے قانونی اور سیاسی مشکلات کے باعث اس اختلاف کو فی الوقت ایک طرف رکھ دیا گیا ہے اور ان معاملات کو اس وقت تک نہیں چھیڑا جائے گا جب تک خاندان کی مشکلات آسان نہیں ہوجاتیں، اور فوری طور پر ایسا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ ممکن ہے کہ خاندان میں تقسیم بھلے ہی نہ ہو مگر اختلافات سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔

اسی طرح سے وارث اور سینئر پارٹی قیادت کے درمیان رسہ کشی بھی زیادہ پس پردہ نہیں رہ پائے گی۔ چونکہ یہ صورتحال پہلے ہی کافی واضح ہے اس لیے وہ اپنے لیے پارٹی قیادت کی ٹیم تشکیل دیں گی جس طرح بے نظیر بھٹو نے تشکیل دی تھی، ویسے حالات کو دیکھ کر لگتا ہے کہ مریم پہلے سے ہی اس عمل میں مصروف ہیں۔

تیسری بات یہ کہ، فوج پر ان کی رائے کے حوالے سے سوالات پوچھے جاتے رہیں گے اور ان کے جوابات شہہ سرخیاں بنتے رہیں گے۔ موجودہ وقت میں مریم کو اس عملیت پسندی پر اتنا عبور حاصل نہیں ہے جتنا کہ شہباز شریف کو حاصل ہے۔ وہ زیادہ تصادم والے راستے سے واپس مڑنے کے خلاف زور دیتی ہیں اور چونکہ ان کا رابطہ عوام اور پریس کے ساتھ ہوتا ہے اس لیے اسے چھپانا کافی مشکل ہوگا۔ چونکہ بلاول بھٹو زرداری کے نام میں زرداری کے ساتھ بھٹو بھی شامل ہے اس لیے ان کے برعکس مریم کی خطاؤں کو زیادہ نوٹ کیا جائے گا۔

چونکہ بلاول بھٹو زرداری کو یہ فائدہ حاصل ہے کہ وہ آصف علی زرداری جیسے بالکل نہیں ہیں، اس لیے ان کے برعکس مریم کی خطاؤں کو زیادہ نوٹ کیا جائے گا۔

نتیجتاً ان کی پریس کانفرنس متنازع باتوں سے بھری رہیں گی۔ یہ دیکھنا باقی ہے کہ آیا وہ اس خوف کی وجہ سے خود کو میڈیا سے دُور رکھنے کی کوشش کرتی ہیں یا پھر ٹھیک اسی طرح ساتھ لے کر چلتی ہیں جس طرح عمران خان بطور حزب اختلاف رہنما ساتھ لے چلے تھے۔

اس کے علاوہ مذکوزہ نازک موڑ کی صورتحال کو سنبھالنے کی صلاحیت سے ہی یہ تعین ہوگا کہ آیا وہ عمران خان کے لیے اسلام آباد میں رہنا اسی طرح مشکل کر پائیں گی جس طرح عمران خان نے مسلم لیگ (ن) کے لیے مشکل کردیا تھا۔ مریم کو یہ سب کچھ سیکھنے کے لیے ابھی کافی محنت کرنے کی ضرورت ہے۔


یہ مضمون 25 جون 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (1) بند ہیں

KHAN Jun 26, 2019 08:56pm
مرحومہ کلثوم نواز شریف اس سے بھی زیادہ فوجی افسران کے خلاف بیانات دیتی تھی مگر شوہر بچائو مقصد کامیاب ہونے کے بعد خاموش