لکھاری مصنف اور صحافی ہیں۔
لکھاری مصنف اور صحافی ہیں۔

عمران خان اب وہ ہر کام کرتے دکھائی دے رہے ہیں جن کے خلاف کسی زمانے میں وہ خود کو برسرِ جدوجہد بتاتے تھے، انہی کاموں میں سے ایک سیاسی ہارس ٹریڈنگ ہے جسے انہوں نے کبھی جمہوریت کے لیے زہرِ قاتل قرار دیا تھا۔

گرفتاریوں کی تازہ لہر کے بعد ان کی حکومت پر چُن چُن کر سیاسی مخالفین کے خلاف کارروائی کرنے کے الزامات کو ابھار ملا ہے۔ سب سے زیادہ باعثِ تشویش بات آزادئ اظہار کے دائرے میں ہوتی تنگی ہے۔

ایسے چند ہی رہنما گزرے ہیں جو اقتدار میں آنے کے چند ماہ کے اندر ہی اس طرح اپنی مقبولیت اور پسندیدگی کو زبردست انداز میں کھو بیٹھے ہوں۔ یوں لگتا ہے کہ حالات سے خوفزدہ وزیرِاعظم کو سمجھ ہی نہیں آ رہا ہے کہ کس معاملے کی کتنی اہمیت ہے۔

قومی اسمبلی میں ان کی حالیہ جارحانہ تقریر اور آدھی رات کو قوم سے خطاب کے بعد اب یہ سوچ ستانے لگی ہے کہ ملک کو موجودہ مالی اور سیاسی دلدل سے نکالنے میں ان کی صلاحیتیں کارگر ثابت ہوں گی بھی یا نہیں۔ ایک یونانی المیہ ہے جو حقیقت کا روپ لے رہا ہے۔

جب وزیرِاعظم حال نے ہی میں اسمبلی میں موجود حزبِ اختلاف سے تعلق رکھنے والے ان قانون سازوں سے ملاقات کی جو بینچیں بدلنے کے لیے راضی ہیں تو اس غلیظ کھیل کی یاد تازہ ہوگئی جس نے ایک عرصے سے پاکستانی سیاست کو کسی مہلک بیماری کی طرح جکڑا ہوا ہے۔ ایک وفاقی وزیر یہ دعوٰی کرتے ہیں کہ اپنی سیاسی وفاداریاں بدلنے کے لیے تیار افراد میں سے زیادہ تر کا تعلق پنجاب سے ہے۔

لگتا ہے کہ عمران خان کے ’وسیم اکرم- پلس‘ اب پکے کاریگر بن چکے ہیں جو حزبِ اختلاف کے حلقوں میں انحراف پیدا کرنے کا فن خوب جان چکے ہیں۔

دوسری طرف، کہا جاتا ہے کہ سبک دست صوبائی گورنر 'جادوئی چھڑی' گھما کر سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت ختم کرنے کے لیے مطلوبہ اعداد حاصل کرچکے ہیں۔ وفاقی وزیر نے بڑے ہی فخریہ لہجے میں کہا کہ صوبے میں آج یا کل پی ٹی آئی ہی حکومت تشکیل دے گی۔

ماضی میں جس عمل کو بدی کہا جاتا تھا اسے اب خود کو کرپشن کے خلاف محاذ آرا کہنے والی حکومت میں نیکی کی حیثیت بخش دی گئی ہے۔ ظاہر ہے کہ حزبِ اختلاف کے اراکین کے جاگتے ضمیروں نے انہیں اپنے 'کرپٹ' پارٹی رہنماؤں کے خلاف بغاوت کرنے پر مجبور نہیں کیا۔

ہم میں سے وہ خواتین و حضرات جو ہمارے ہلکے کردار کے سیاسی کلچر سے واقفیت رکھتے ہیں وہ بخوبی جانتے ہیں کہ کس طرح یہ سیاسی انجینئرنگ انجام دی گئی ہے۔ 'چھانگا مانگا' کے بدنامِ زمانہ قصے اور 'بنی گالہ' کی ملاقات میں کچھ زیادہ فرق نہیں، ہاں البتہ کاریگری کا انداز مختلف ہوسکتا ہے۔ پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے وزرا جب ان لوگوں کا چرچا کرتے ہیں تو بہت بُرا لگتا ہے جو لوگ اپنی وفاداریاں بیج کر پی ٹی آئی میں شامل ہوئے ہیں۔

صرف موقع پرستی یا مالی مراعات ہی وہ وجوہات نہیں جو حزبِ اختلاف کے اراکین کو حکمراں جماعت کی طرف کھینچتی ہیں، بلکہ سیکیورٹی ادارے بھی اکثر حزبِ اختلاف کو انحراف کرنے میں فعال کردار ادا کرتے ہیں۔ حالیہ سیاسی حکمت عملی میں بھی ان کے عمل دخل کے آثار خاصے واضح دکھائی دیے ہیں۔ اہم مقصد یہی ہے کہ بہت زیادہ جارحانہ رویہ اپنانے والی حزبِ اختلاف کے ہاتھوں کمزور مخلوط حکومت کو گرنے سے بچایا جاسکے۔

اگرچہ حزبِ اختلاف کی جماعتیں گزشتہ ہفتے کے اجتماع کے بعد ایسا کوئی ٹھوس منصوبہ پیش نہیں کرپائیں جس سے حکومت کو کوئی خطرہ لاحق ہوجاتا، لیکن اس اجتماع نے پی ٹی آئی کے حلقوں میں افراتفری پیدا کردی تھی۔ بجٹ کی پُرسکون انداز میں ہونے والی منظوری بھی عمران خان کی گھبراہٹ کو کم کرنے میں خاطر خواہ مدد نہیں کر پائی ہے۔

قومی اسمبلی میں بجٹ اجلاس کے دوران اپنی اختتامی تقریر میں انہوں نے ایسی کوئی بات نہیں کہی جو ملک کو لاحق ماضی قریب کے سب سے بدترین مالی بحران سے نمٹ رہی حکومت پر عوامی اعتماد میں اضافہ کرتی۔ بس وہی پرانی بات دہرائی کہ وہ ان چوروں کا پیچھا نہیں چھوڑیں گے جنہوں نے اس ملک کو بُری طرح سے مقروض کیا۔ دراصل، عمران خان کی جانب سے حزبِ اختلاف کے خلاف کارروائی کی دھمکیوں نے ہی جاری احتسابی عمل کی کریڈیبیلٹی پر سوال کھڑا کردیا ہے۔

سب سے زیادہ پریشان کن عمل ایک سینئر رکنِ قومی اسمبلی کو مبیّنہ طور پر بھاری مقدار میں ہیروئن اپنے ساتھ لے جانے کے الزام میں گرفتار کرنا ہے۔

ان پر چند کالعدم فرقہ وارانہ گروہوں کے ساتھ مبیّنہ تعلق کا بھی الزام لگایا گیا ہے۔ واقعی یہ سارا منظرنامہ حیران کن ہے۔ گرفتاری کا وقت اس کیس کو اور بھی زیادہ مشکوک بنا دیتا ہے۔ یہ کارروائی ہمیں ان دنوں کی یاد دلاتی ہے جب سیاسی رہنماؤں پر 'بھینسیں چرانے' کا مقدمہ دائر کیا جاتا تھا۔ جبکہ منشیات جیسے الزامات یقیناً زیادہ سنگین ہیں اور پاکستانی قانون کے تحت اس جرم میں ملوث شخص کو موت کی سزا تک سنائی جاسکتی ہے۔ اس سے پہلے کبھی کسی سینئر سیاسی رہنما پر اس نوعیت کا مقدمہ دائر نہیں کیا گیا۔

انسدادِ منشیات فورس (اے این ایف) بھلے ہی وفاقی حکومت کے ماتحت ادارہ ہو مگر اس کے زیادہ تر اسٹاف کا تعلق فوج سے ہوتا ہے اور اس کی قیادت میجر جنرل کے سپرد ہوتی ہے۔ چاہے الزامات میں صداقت ہے یا نہیں، ایک سینئر سیاسی رہنما کی گرفتاری ادارے کو تنازع میں دھکیل سکتی ہے۔ یہ سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے تاثر کے لیے ٹھیک نہیں کہ جو پہلے ہی اپنی قیادت اور اپنی میڈیا ونگ کی ہائی سیاسی پروفائل کی وجہ سے طوفان کا مرکز بنا ہوا ہے۔

اتنی ہی باعثِ اضطراب بات میڈیا کی سینسر شپ اور آزادئ اظہار پر بڑھتی ہوئی پابندیاں ہیں۔ کوئی معقول وجہ بتائے بغیر ٹی وی پروگرام کی نشریات روکنا مخالف آوازوں کو دبائے جانے کے عمل کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ کتنی دلچسپ بات ہے کہ سرکاری خزانے سے پیسے چرانے کے الزام میں زیرِ حراست سیاسی رہنماؤں کو قانون کے تحت پارلیمنٹ میں تو اپنی بات کہنے میں کسی قسم کی روک ٹوک کا سامنا نہیں، تاہم ٹی وی چینل ان کے انٹرویو نشر کرنے کے مجاز نہیں ٹھہرتے۔

اس قسم کے سفاکانہ اقدامات جمہوری عمل کے لیے آگے چل کر خوشگوار ثابت نہیں ہوسکتے۔ دراصل ایسے اقدامات حکومت کی کمزوری کی علامت ہیں اور حزبِ اختلاف سے نمٹنے میں اعتماد کی کمی کو ظاہر کرتے ہیں۔ عمران خان جب حزبِ اختلاف کا حصہ تھے تب انہوں نے آزاد میڈیا سے خوب فائدہ حاصل کیا تھا لیکن اب اسی سے خائف ہیں۔

ایک پریشان کن بات یہ بھی ہے کہ حکومت کے مطابق پریس پر عائد پابندیوں سے اس کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ اس کے پیچھے کوئی بھی ہو لیکن آخر میں میڈیا کی آزادی کو یقینی بنانے کی ذمہ داری حکومت پر ہی عائد ہوتی ہے۔ ریاستی معاملات چلانے کا کام سیکیورٹی اداروں پر چھوڑنا انتہائی خطرناک عمل ہے۔

تاریخ کا ایک سبق جو عمران خان کو ضرور سیکھنا چاہیے وہ یہ ہے کہ ہارس ٹریڈنگ اور سیاسی مخالفین کے خلاف کارروائی کبھی بھی حکومت کو استحکام نہیں بخش سکتی ہے۔ یہ ایک حصار بند ذہنیت ہے اور اس حصار کو انہیں اپنے ہی بھلے کے لیے توڑنا ہوگا۔

بلند و بانگ آواز میں تنقید کرنے والی حزبِ اختلاف کا سامنا کرنا بھی جمہوری سیاسی عمل کا ایک حصہ ہے۔

یہ تو صاف ظاہر ہے کہ حزبِ اختلاف نہ تو حکومت کا تختہ الٹنے کی پوزیشن میں ہے اور نہ ہی ایسی کسی کوشش میں مصروف دکھائی دیتی ہے۔ تاہم وزیرِاعظم نے اپنی محاذ آرائی کی پالیسیوں کی وجہ سے حکومت کو انتہائی غیرمستحکم بنا دیا ہے اور اسے زیادہ سے زیادہ سیکیورٹی اداروں پر منحصر کر رہے ہیں۔

اس وقت ملک کو سنگین مالی بحران اور اندرونی و بیرونی سیکیورٹی چیلنجز کی صورت بلاشبہ انتہائی مشکل وقت کا سامنا ہے۔ بد سے بدتر ہو رہے سیاسی عدم استحکام سے ان چیلنجز سے نمٹنا اور بھی کٹھن ہوجائے گا۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ قلیل وقتی فوائد کی خاطر مختلف سیاسی حکمت عملیوں کا سہارا لینے کے بجائے ملک کے طویل مدتی مفادات کو ترجیح دے۔


یہ مضمون 3 جولائی 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (1) بند ہیں

Haleema Sadia Jul 06, 2019 04:43pm
Excellent picture dscription