حسین نواز نے 50 کروڑ روپے رشوت کی پیشکش کی، جج ارشد ملک

اپ ڈیٹ 12 جولائ 2019
ارشد ملک کے مطابق رشوت قبول کرنے سے انکار کیا تو دھمکی کے طور پر متنازع ویڈیو دکھائی گئی— فوٹو: ڈان نیوز
ارشد ملک کے مطابق رشوت قبول کرنے سے انکار کیا تو دھمکی کے طور پر متنازع ویڈیو دکھائی گئی— فوٹو: ڈان نیوز

اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے دعویٰ کیا ہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کے بیٹے حسین نواز نے العزیزیہ ریفرنس کے فیصلے کے بعد عہدے سے استعفیٰ دینے کے لیے انہیں 50 کروڑ روپے رشوت دینے کی پیشکش کی تھی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو جمع کرائے گئے بیان حلفی میں جج ارشد ملک نے دعویٰ کیا کہ پاکستان مسلم لیگ(ن) کے نمائندوں کی جانب سے انہیں العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز میں نواز شریف کے حق میں فیصلہ دینے پر مجبور کرنے کے لیے رشوت کی پیشکش اور سنگین نتائج کی دھمکی دی گئی اور بعد ازاں عہدے سے استعفیٰ دینے پر بھی مجبور کیا گیا۔

بیان حلفی میں جج ارشد ملک نے کہا کہ فروری 2018 میں اسلام آباد کی احتساب عدالت نمبر 2 میں بطور جج تعینات ہونے کے بعد مہر جیلانی اور ناصر جنجوعہ نے رابطہ کیا اور ملاقات کی۔

مزید پڑھیں: ویڈیو تنازع: اسلام آباد ہائی کورٹ کا جج ارشد ملک کو عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ

جج ارشد ملک نے کہا کہ اس ملاقات میں ناصر جنجوعہ نے دعویٰ کیا تھا کہ اس وقت پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں موجود بااثر شخصیت کو خصوصی اور ذاتی طور پر میرا نام تجویز کرنے کی وجہ سے مجھے احتساب عدالت نمبر 2 میں جج تعینات کیا گیا، اس حوالے سے ناصر جنجوعہ نے وہاں موجود ایک اور شخص سے کہا تھا کہ میں نے آپ کو چند ہفتے پہلے کہا تھا نا کہ محمد ارشد ملک احتساب عدالت میں جج تعینات ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت میں نے اس دعوے کے متعلق زیادہ نہیں سوچا لیکن ناصر جنجوعہ کو جواب دیا کہ میرا نام تجویز کرنے سے پہلے مجھ سے پوچھ لیا ہوتا کیونکہ میں ضلعی عدالت میں سیشن جج کا خواہش مند تھا۔

بیان حلفی میں کہا گیا کہ اگست 2018 میں فلیگ شپ ریفرنس اور العزیزیہ ریفرنس کو احتساب عدالت نمبر 2 منتقل کیا گیا تھا اور ان ریفرنسز کے ٹرائل جاری تھے۔

یہ بھی پڑھیں: مریم نواز احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی مبینہ ویڈیو سامنے لے آئیں

جج ارشد ملک نے کہا کہ مجھے مختلف مواقع پر مذکورہ ریفرنسز میں نواز شریف اور دیگر ملزمان کی رہائی کے لیے ان کے حامیوں نے پیشکش کی اور دھمکیاں بھی دیں۔

انہوں نے کہا کہ ناصر جنجوعہ اور مہر جیلانی سے ایک بیٹھک میں ناصر جنجوعہ نے مجھے العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز میں رہائی کا فیصلہ دینے پر مجبور کیا، ناصر جنجوعہ نے مجھے بتایا کہ انہوں نے نواز شریف کو میرا نام احتساب عدالت کے جج کے لیے تجویز کیا تھا اور کہا کہ ان حالات میں اگر میں نواز شریف کے حق میں فیصلہ نہیں دیتا تو یہ ذاتی طور پر میرے لیے نقصان دہ ہوگا۔

جج ارشد ملک نے کہا کہ اس وقت میں نے جواب دیا تھا کہ ’اللہ بہتر کرے گا، انصاف کرنا اللہ کی صفت ہے اور اللہ ناانصافی نہیں کرتا‘۔

نواز شریف کے حق میں فیصلہ دینے کیلئے رشوت کی پیشکش

بیان حلفی میں جج ارشد ملک نے کہا کہ جب فلیگ شپ ریفرنس اور العزیزیہ ریفرنس کے ٹرائل میں دلائل کا مرحلہ جاری تھی تو ایک مرتبہ پھر مہر جیلانی اور ناصر جنجوعہ نے مجھ سے رابطہ کیا اور اس مرتبہ وہ نواز شریف کی جانب سے مالی پیشکش بھی ساتھ لائے تھے۔

بیان میں ان کا کہنا تھا کہ مجھے بتایا گیا کہ میاں صاحب، العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز میں رہائی کے فیصلے کے لیے منہ مانگی رقم دینے کے لیے تیار ہیں جس پر میں نے کہا کہ میں نے زندگی کے 56 سال 6 مرلے کے گھر میں گزار دیئے اور میں ان ریفرنسز کا فیصلہ اپنے حلف کے مطابق دوں گا، مجھے کسی چیز کی ضرورت نہیں۔

مزید پڑھیں: وزارت قانون نے جج ارشد ملک کو کام کرنے سے روک دیا

جج ارشد ملک نے کہا کہ ناصر جنجوعہ نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کے پاس مجھے دینے کے لیے 10 کروڑ روپے کے برابر نقد یورو فوری طور پر موجود ہیں جن میں سے 2 کروڑ روپے اس وقت ان کی گاڑی میں تھے۔

بیان حلفی میں ان کا کہنا تھا کہ ناصر جنجوعہ نے مجھے اس بنیاد پر ورغلانے کی مزید کوشش کی کہ میں ایک تنخواہ دار شخص ہوں اور یہ میرے لیے اپنے مستقبل کو مالی طور پر محفوظ بنانے کا سنہری موقع تھا، تاہم میں نے رشوت کی پیش کش قبول نہیں کی اور میرٹ پر ڈٹا رہا۔

ناصر بٹ کی جانب سے نقصان پہنچانے کی دھمکیاں

جج ارشد ملک نے کہا کہ رشوت کی پیشکش سے انکار کے مختصر عرصے بعد ناصر بٹ کی جانب سے مجھے نقصان پہنچانے کی دھمکی دی گئی۔

انہوں نے کہا کہ ناصر بٹ نے مجھے دھمکی دی تھی کہ نواز شریف اس کے لیے بہت اہم ہیں کیونکہ میاں صاحب نے اسے 4 سے 5 قتل کے مقدمات میں سزا سے بچانے میں مدد کی تھی، اس لیے وہ سابق وزیراعظم کی مدد کے لیے ہر حد تک جائے گا۔

جج ارشد ملک نے کہا کہ میں نے واضح طور پر سوچ لیا تھا کہ ریفرنسز کا فیصلہ میرٹ اور شواہد کی بنیاد پر دوں گا اور میں نے دسمبر 2018 میں فیصلہ دیا جس میں نواز شریف کو العزیزیہ ریفرنس میں سزا ہوئی اور فلیگ شپ میں رہا کیا۔

’ ملتان ویڈیو‘ کے ذریعے بلیک میلنگ

انہوں نے کہا کہ فیصلے کے بعد معاملات کچھ دیر کے لیے خاموشی اختیار کر گئے تھے تاہم رشوت اور دھمکیوں کی ناکام کوششیں بعد ازاں بلیک میلنگ میں تبدیل ہوگئی تھیں۔

جج ارشد ملک نے کہا کہ فروری 2019 میں خرم بٹ اور ناصر بٹ سے ملاقات کے دوران ناصر بٹ نے پوچھا کہ کیا ناصر جنجوعہ نے آپ کو ’ملتان والی ویڈیو‘ دکھا دی جس پر میں نے جواب دیا کہ میں نہیں جانتا کہ کس حوالے سے بات کر رہے ہیں۔

ناصر بٹ نے کہا کہ آپ کو چند دن میں ویڈیو دکھا دی جائے گی، بعد ازاں میاں طارق اور ان کے بیٹے نے مجھ سے ملاقات کی جن سے میری جان پہچان اس وقت سے تھی جب میں 2000 سے 2003 تک ملتان میں بطور ایڈیشنل اور سیشن جج تعینات تھاؤ۔

یہ بھی پڑھیں: مریم نواز نے جو ویڈیو دکھائی وہ جعلی اور مفروضوں پر مبنی ہے، جج ارشد ملک

ان کا کہنا تھا کہ میاں طارق نے مجھے خفیہ طور پر ریکارڈ کی گئی غیر اخلاقی ویڈیو دکھائی اور کہا کہ یہ تم ہو جب تم ملتان میں تھے جو میرے لیے ایک دھچکا تھا، جس کے بعد ناصر جنجوعہ اور ناصر بٹ نے مجھے بلیک میل کرنا اور مجھ پر دباؤ ڈالنا شروع کیا۔

جج ارشد ملک نے کہا کہ ناصر جنجوعہ نے مجھے کہا کہ العزیزیہ ریفرنس کا فیصلہ تو ہوچکا ہے اب صرف نواز شریف کو مطمئن کرنے کے لیے میں آڈیو پیغام ریکارڈ کرواؤں کہ میں نے یہ سب بااثر حلقوں کی جانب سے شدید دباؤ میں آکر کیا، جبکہ ان کے خلاف شواہد موجود نہیں تھے۔

انہوں نے کہا کہ ناصر جنجوعہ نے مجھے یقین دلایا کہ آڈیو ریکارڈنگ نواز شریف کو سنانے کے بعد ڈیلیٹ کردی جائے گی میں نے انکار کیا لیکن انہوں نے یہ بات دہرانے پر زور دیا۔

جاتی امرا میں نواز شریف سے ملاقات

بیان حلفی میں کہا گیا کہ ناصر بٹ نے دوبارہ مجھ سے ملاقات کی اور کہا کہ آپ کے عدم تعاون کے باوجود ناصر جنجوعہ نے آواز ریکارڈ کرلی تھی جسے نواز شریف کو سنادیا گیا ہے لیکن وہ اب بھی مطمئن نہیں ہیں، لہٰذا مجھے نواز شریف سے جاتی امرا میں ملاقات کرنی ہوگی اور ان کے سامنے یہ بات کہنا ہوگی، یہ بات ماننے کے لیے ایک مرتبہ پھر ملتان والی ویڈیو کو مجھے دھمکانے کے لیے استعمال کیا گیا۔

جج ارشد ملک نے کہا کہ میں نے شاید 6 اپریل 2019 کو نواز شریف سے ناصر بٹ کے ہمراہ ملاقات کی تھی، جہاں ناصر بٹ نے گفتگو کا آغاز اس دعوے سے کیا کہ فیصلہ فوج اور عدلیہ کی جانب سے دباؤ کی وجہ سے دیا گیا تھا، تاہم جب میں نے بات کی تو یہ وضاحت دینے کی کوشش کی کہ العزیزیہ ریفرنس کا فیصلہ میرٹ پر دیا گیا اور ان کے خلاف ٹھوس شواہد موجود تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف میرے جواب سے ناخوش ہوئے اور ملاقات ختم ہوگئی، تاہم جاتی امرا سے واپسی پر ناصر بٹ نے مجھے اپنی بات پر پورا نہ اترنے کا الزام عائد کیا اور مجھے العزیزیہ ریفرنس کے فیصلے کے خلاف اپیل میں معاونت کرنے کا کہا۔

العزیزیہ ریفرنس کے خلاف اپیل میں معاونت کا مطالبہ

جج ارشد ملک نے کہا کہ میں بلیک میلنگ کی وجہ سے اس مطالبے پر آمادہ ہوگیا تھا، ناصر بٹ نے اپیل دائر کرنے کے لیے وکلا کی ایک ٹیم کے ذریعے ابتدائی مسودہ تیار کروایا تھا اور مجھ سے نظرثانی کروانا چاہتے تھے۔

انہوں نے مزید کہا کہ جاتی امرا سے واپس آنے کے چند دن بعد ناصر بٹ اپیل کا مسودہ لے کر میرے پاس آئے اور ان کے مطالبے کے تحت میں نے اس کا جائزہ لیا اور کچھ تجاویز دیں۔

جج ارشد ملک نے کہا کہ 6 جولائی 2019 کو العزیزیہ ریفرنس کے فیصلے سے متعلق مریم نواز اور مسلم لیگ(ن) کی سینئر قیادت کی جانب سے پریس کانفرنس دیکھ کر مجھے احساس ہوا کہ اس ملاقات میں فیصلے کے خلاف اپیل کے لیے میں نے جو تجاویز دی تھیں انہیں خفیہ طور پر ریکارڈ کیا گیا اور اس دوران کی گئی بات چیت میں رد و بدل کیا گیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ پریس کانفرنس میں جو ویڈیو چلائی گئی اس میں ملاقات کے دوران کی گئی بات چیت کے کچھ حصے میں تبدیلی کی گئی تھی۔

حسین نواز کی رشوت اور بیرون ملک رہائش کی پیشکش

بیان حلفی میں جج ارشد ملک نے کہا کہ میں 28 مئی 2019 کو اپنے خاندان کے ہمراہ عمرے کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب گیا تھا جہاں نمازِ عشا کے بعد مسجد نبوی کے باہر یکم جون 2019 کو ناصر بٹ نے ملاقات کی اور حسین نواز سے ملنے کا کہا۔

جج ارشد ملک نے کہا کہ جب میں نے حسین نواز سے ملاقات سے انکار کیا تو ایک مرتبہ پھر مجھے پاکستان میں ایک فون کال کے ذریعے میرے لیے مسائل اور شرمندگی اٹھانے کے اسباب پیدا کرنے کی دھمکی دی گئی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ حسین نواز نے مجھے 50 کروڑ روپے نقد بطور رشوت، مجھ سمیت میرے پورے خاندان کو برطانیہ، کینیڈا یا میری پسند کے کسی بھی ملک میں رہائش اور میرے بچوں کو منافع بخش کاروبار دینے کی پیشکش کی۔

مزید پڑھیں: مریم نواز نے جو ٹیپس پیش کیں ان کی فرانزک جانچ کرائیں گے، فردوس عاشق اعوان

اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع کروائے گئے بیان حلفی میں جج ارشد ملک نے کہا کہ اس سب کے بدلے میں حسین نواز نے مجھ سے اس بنیاد پر مستعفی ہونے کا کہا تھا کہ میں نواز شریف کو بغیر شواہد کے سزا سنانے کا پچھتاوا مزید برداشت نہیں کرسکتا۔

انہوں نے کہا کہ حسین نواز نے مجھے کہا تھا کہ ایسے استعفے پر دستخط کے بعد وہ سب سنبھال لیں گے اور صرف وہی ہیں جو مجھے بچا سکتے ہیں، اس طرح سے ایک مرتبہ پھر مجھے بلیک میل کرنے کی کوشش کی گئی۔

جج ارشد ملک نے کہا کہ مجھ سے فوری طور پر جواب مانگا گیا تھا اور میں نے حسین نواز کی یہ پیشکش مسترد کردی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ میں 8 جون کو پاکستان واپس آیا اور ناصر بٹ نے بارہا فون کالز کے ذریعے مجھے حسین نواز کی پیشکش پر نظرثانی پر زور دیا، خرم یوسف نے بھی یہی پیغام دیا لیکن میرا جواب انکار ہی تھا، بعد ازاں میں نے ان کی کالز کا جواب دینا چھوڑ دیا تھا۔

بیان حلفی میں کہا گیا کہ جب انہیں مکمل طور پر احساس ہوگیا کہ میں ان کے غیر قانونی مطالبات پورے نہیں کروں گا تو 6 جولائی کو پریس کانفرنس میں میرے خلاف الزامات عائد کیے گئے اور مجھ سے وابستہ جعلی بیانات چلائے گئے جن کا حوالہ میں نے 7 جولائی کی پریس ریلیز میں بھی دیا تھا۔

جج ارشد ملک نے کہا کہ میں ایک مرتبہ پھر دہراتا ہوں کہ العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز کے فیصلے میرٹ اور موجود شواہد کی بنیاد پر کسی دباؤ، خوف یا حمایت کے بغیر دیئے گئے تھے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں