Dawnnews Television Logo

کلبھوشن یادو کیس میں فتح کس کی ہوئی؟ ماہرین کیا کہتے ہیں؟

’بھارتی نمائندوں کی باڈی لینگویج بتا رہی تھی کہ وہ جو کچھ چاہ رہے تھے انہیں وہ سب نہیں ملا۔‘
اپ ڈیٹ 18 جولائ 2019 02:45pm

عالمی عدالتِ انصاف (آئی سی جے) نے بھارتی جاسوس کلبھوشن یادو سے متعلق اہم ترین فیصلہ سنادیا، جس کا طویل عرصے سے انتظار کیا جارہا تھا۔

بھارت نے 8 مئی 2017ء کو پاکستان کے فیصلے کے خلاف (آئی سی جے) سے رجوع کیا اور کلبھوشن یادیو کیس میں ویانا کنوینشن کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا۔

یہ ایک مشکل کیس تھا، جس کو سمجھنا اور اس پر بات کرنا شاید ہر کسی کے لیے آسان نہیں تھا۔ اس فیصلے کے آنے کے بعد سے پاکستان اور بھارت دونوں ہی ممالک میں کامیابی کی خوشیاں منائی جارہی ہیں۔

دونوں طرف کے میڈیا ادارے یہی کہہ رہے ہیں کہ اصل فتح تو انہی کو ہوئی ہے۔ معاملہ صرف میڈیا تک محدود نہیں ہے، بلکہ حکومتوں کا حال بھی بالکل یہی ہے۔ ایک طرف پاکستانی وزیرِاعظم عمران خان نے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے تو دوسری طرف بھارتی وزیرِاعظم نریندر مودی بھی خوش دکھائی دے رہے ہیں۔

یہ دونوں طرف کی خوشی نے کچھ پریشان کیا اور معاملے کو سمجھنے کی جستجو کچھ مزید بڑھ گئی۔ اسی لیے ہم نے سوچا کہ کچھ ایسے لوگوں سے رابطہ کیا جائے، جو اس کیس کو سمجھتے ہوں، جنہوں نے اس کی پیروی کی اور ان کی اس پر مکمل گرفت بھی ہو۔

تو ماہرین کیا کہتے ہیں، آئیے ہم آپ کو بتاتے ہیں۔

محمد ناصر زیدی


آپ 92 نیوز میں بطور انٹرنیشنل ڈیسک ہیڈ اپنی ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں


پاکستانی، بھارتی اور عالمی میڈیا پر دونوں ملکوں کی جانب سے خوشی کا اظہار کیا جارہا ہے اور عالمی عدالت کے فیصلے کو اپنی اپنی قانونی فتح قرار دے رہے ہیں۔ اگر قانونی ماہر سے پوچھا جائے تو ان کے بقول کلبھوشن یادو کے مقدمے میں بھارت کے 3 مطالبے تھے،

  • پہلا مطالبہ یہ تھا کہ یادو کو ویانا کنوینشن کے تحت قونصلر کی رسائی دی جائے،
  • دوسرا یہ کہ یادو کو رہا کرکے بھارت کے حوالے کیا جائے جبکہ
  • تیسرا مطالبہ یہ تھا کہ فوجی عدالت کی جانب سے سنائی گئی سزا ختم کرکے یادو کا مقدمہ سول کورٹس میں چلایا جائے۔

بھارت نے اس قسم کے متعدد مطالبے کیے تھے لیکن عالمی عدالت نے صرف قونصلر کی رسائی سے متعلق مطالبے کو تسلیم کیا اور باقی کو خارج کردیا۔

بھارت اپنے اس مطالبے کے تسلیم کیے جانے پر خوشی سے سرشار ہے، جس کا اندازہ مودی کے ٹوئیٹ سے بھی کیا جاسکتا ہے۔ دوسری طرف گزشتہ روز جب عالمی عدالت فیصلہ سنا رہی تھی اس وقت بھارت کے وکیل وہاں موجود ہی نہیں تھے اور پریس کانفرنس کی صورت میں اپنا ردِعمل پیش کیا، جبکہ عدالت میں جو دیگر بھارتی نمائندگان موجود تھے انہوں نے بھی فیصلہ سننے کے بعد نہ کسی سے گفتگو کی اور نہ ہی فیصلے پر کوئی ردِعمل دیا، بلکہ فوراً وہاں سے روانہ ہوگئے۔ بھارتی نمائندوں کی باڈی لینگویج بتا رہی تھی کہ وہ جو کچھ چاہ رہے تھے انہیں وہ سب نہیں ملا۔

لیکن دوسری طرف پاکستان کا معاملہ الگ ہے۔ فیصلے کے وقت نہ صرف عدالت میں پاکستانی وکیل بلکہ اٹارنی جنرل آف پاکستان انور منصور کی سربراہی میں پورا وفد بھی موجود تھا۔

فیصلے کے بعد پاکستانی وفد نے وہاں موجود میڈیا کو سوالات کے جوابات بھی دیے۔

ناصر زیدی کا کہنا تھا کہ جہاں تک قونصلر کی رسائی کی بات ہے تو یہ اخلاقی بنیاد پر مل جاتی ہے، لیکن اصل چیز یہ ہے کہ کلبھوشن پاکستان کے پاس ہی رہے گا اور پاکستان اس کے مستقبل کا فیصلہ کرنے میں اب آزاد ہے۔

اگرچہ عدالت نے یہ ضرور کہا ہے کہ ان کی موت کی سزا کے خلاف اپیل پر نظرثانی کی جائے، اور ایسا کہنے کی وجہ یہ نہیں کہ کلبھوشن معصوم ہے، بلکہ اصل مسئلہ تو سزائے موت ہے۔ درحقیقت سزائے موت یا پھانسی کے قانون کے حوالے سے ویسے بھی پاکستان پر عالمی دباؤ ہے کہ وہ اسے ختم کرے اور ان سزاؤں کو عمر قید میں تبدیل کرے۔

مجموعی طور پر دیکھا جائے تو بھارت کو صرف ایک ہی نکتے یعنی قونصلر رسائی پر کامیابی ملی ہے اور باقی تمام جگہوں پر ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔

ناصر زیدی کا مزید کہنا تھا کہ چونکہ وہاں بھارت کا اثر و رسوخ زیادہ پایا جاتا ہے، اس لیے یہ خدشہ شروع سے ہی موجود تھا کہ پاکستان کے لیے کوئی مسائل پیدا نہ ہوجائیں، لیکن فیصلہ دیکھنے کے بعد اب بہت اطمینان ہے۔

جہاں تک بات عالمی عدالت کی جانب سے قونصلر رسائی دیے جانے کے فیصلے کی بات ہے تو پاکستان کو عالمی اداروں کی بات ماننا پڑے گی، اور ایسا کرنا بھی چاہیے اور میں سمجھتا ہوں کہ ایسا کرنا ہی ہمارے لیے بہتر ہے۔ کیونکہ اگر پاکستان ایسا نہیں کرے گا تو عین ممکن ہے عالمی برادری میں پاکستان کے لیے مشکلات بڑھ جائیں۔

بہرحال یہ کہا جاسکتا ہے کہ مجموعی طور پر عالمی عدالت کا فیصلہ پاکستان کی فتح ہے۔

آصف شاہد


آپ جی این این نیوز میں بطور انٹرنیشنل ڈیسک ہیڈ اپنی ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں


ویسے تو دونوں ملک فیصلے پر شادیانے بجا رہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ فیصلہ کسی ایک کے حق میں نہیں آیا۔

بھارت نے مطالبات کا ڈھیر عالمی عدالت کے سامنے لگایا تھا، تاہم انہیں وہاں سے کچھ زیادہ حاصل نہ ہوسکا، دوسری طرف پاکستان کو بھی وہ سب کچھ نہیں مل سکا جو وہ چاہ رہا تھا۔

بھارت کا پہلا مطالبہ یہ تھا کہ یادو کو رہا کیا جائے اور دوسرا یہ تھا کہ اسے محفوظ راستہ فراہم کیا جائے تاہم عالمی عدالت نے اس کے یہ دونوں ہی مطالبے مسترد کردیے۔ تیسرا مطالبہ جس پر بھارت نے کافی شور بھی مچایا ہوا تھا وہ یہ تھا کہ یادو کو قونصلر رسائی دی جائے اور ان کی سزا کالعدم قرار دے کر اس پر نظرثانی کی جائے۔

عالمی عدالت نے یہ مطالبہ مان لیا ہے اور قونصلر کی رسائی دینے کے ساتھ ساتھ نظرثانی کے مطالبے کو بھی تسلیم کیا ہے۔

بھارت نے پاکستان پر یہ الزام بھی عائد کیا تھا کہ اس نے ویانا کنوینشن کی خلاف ورزی کی ہے، اور پاکستان کے خلاف یہ الزام بھی درست تسلیم کرلیا گیا لہٰذا آج تک یادو کے حوالے سے جو بھی کارروائی کی گئی ہے، اسے عالمی عدالت نے غیر قانونی قرار دے دیا۔ غیر قانونی قرار دینے کے نتیجے میں وہ پاکستان کی عدالتوں کو براہِ راست کسی قسم کی ہدایات جاری نہیں کرسکتے اس لیے انہوں نے فوجی عدالت پر زیادہ تبصرہ نہیں کیا، لیکن اسی کے ساتھ انہوں نے مؤثر انداز میں کلبھوشن کیس پر نظرثانی کرنے کی ہدایت کی ہے۔

مؤثر نظرثانی کے لیے انہوں نے پاکستان کے نظامِ انصاف پر بھی سوالات اٹھائے ہیں۔ انہوں نے سپریم کورٹ میں چلنے والے سعید زمان کیس کا حوالہ بھی دیا کہ فوجی معاملات یا فوجی عدالتوں سے متعلق کئی معاملات پاکستانی عدالتوں کے دائرہ کار میں نہیں آتے اور اس بے بسی کا اظہار انہوں نے سعید زمان کیس میں کیا۔

تاہم اسی کے ساتھ انہوں نے پشاور ہائی کورٹ کے ایک فیصلے کا بھی حوالہ دیا۔ عالمی عدالت کے مطابق پشاور ہائی کورٹ نے ایک مثالی فیصلہ دیا تھا جس میں انہوں نے فوجی عدالت کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا تھا۔ لہٰذا اس نکتے پر آکر انہیں امید کی ایک کرن نظر آتی ہے کہ اس معاملے پر کچھ نہ کچھ ہوسکتا ہے۔

اس کے علاوہ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ مؤثر نظرثانی میں پاکستان کا آرمڈ سروسز ایکٹ 1952ء ایک رکاوٹ ہے، کیونکہ پاک افواج کے جتنے بھی امور ہیں وہ سول عدالتوں میں نہیں اٹھائے جاتے، یوں مؤثر نظر ثانی کے لیے ضرورت پڑے تو پاکستان قانون سازی کرے، لہٰذا بھارت کے حق میں کئی ایسی باتیں تسلیم کرلی گئیں جن کا انہوں نے مطالبہ بھی نہیں کیا تھا۔

تاہم یہ فیصلہ کافی زیادہ ہمارے حق میں بھی ہے کیونکہ بھارت نے یہ بات بھی اٹھائی تھی کہ یاھو نہ تو جاسوس ہے اور نہ ہی وہ کسی تخریب کاری میں ملوث ہے، لیکن یہاں عالمی عدالت نے بھارت کی اس بات کو تسلیم نہیں کیا۔ عالمی عدالت نے اس وضاحت کے ساتھ کلبھوشن کو قونصلر رسائی دی کہ چونکہ پاکستان کا مؤقف ہے کہ کلبھوشن ہمارے ہاں تخریب کاری پھیلانے میں ملوث تھا مگر ویانا کنوینشن کا آرٹیکل 36 جاسوسی میں ملوث افراد کو بھی کنوینشن سے مستثنی قرار نہیں دیتا، اس لیے ہم اس کی قونصلر رسائی کا فیصلہ کرتے ہیں۔

یعنی ایک طرح سے عالمی عدالت نے یہ تسلیم کیا ہے کہ کلبھوشن یادو پاکستان میں جاسوسی کرتا رہا تھا لہٰذا پاکستان اپنے عدالتی نظام کے تحت اس کے ساتھ سلوک روا رکھ سکتا ہے۔

یہاں ایک اہم بات یہ ہے کہ 2007ء میں پاکستان اور بھارت کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کے حوالے سے ایک معاہدے ہوا تھا۔ قیدیوں کے حوالے سے ہونے والے معاہدے کی ایک شق کے مطابق سیکیورٹی معاملات میں ملوث افراد کی گرفتاری کے بعد نہ تو ان کے حوالے سے فوری اطلاع دی جائے اور نہ ہی انہیں قونصلر رسائی دی جائے گی۔

لیکن عالمی عدالت میں بھارتی وکیل نے مؤقف تبدیل کرلیا اور کہا کہ ویانا کنوینشن کی موجودگی میں اس معاہدے کی اس معاملے میں کوئی حیثیت نہیں، اور عالمی عدالت نے ان کے اس مؤقف کو تسلیم کیا ہے۔

پاکستان نے اسی معاہدے کی بنیاد پر قونصلر رسائی سے انکار کیا تھا، لیکن عالمی عدالت نے اس معاہدے کو ویانا کنوینشن کے مقابلے میں زیادہ اہمیت دینے سے انکار کیا ہے۔ اس صورتحال میں 2007ء کے اس معاہدے کو کالعدم قرار دیے جانے کا تاثر پیدا ہوگیا ہے۔

چنانچہ ہمیں قیدیوں کے حوالے سے اس معاہدے میں کسی قسم کی نئی پیش رفت کرنی پڑے گی یا پھر مستقبل میں اگر بھارت پاکستان سے اس معاہدے کی بنیاد پر کوئی مطالبہ کرتا ہے تو پاکستان وہی مؤقف اپنا سکتا ہے جو بھارت نے عالمی عدالت میں اپنایا، اور اس بات کا اظہار کرسکتا ہے کہ چونکہ بھارت نے ماضی میں کلبھوشن کیس میں 2007ء کے اس معاہدے کو تسلیم کرنے سے انکار کیا تھا لہٰذا پاکستان بھی مطالبات کو تسلیم نہیں کرتا۔

یہ معاہدہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات میں ایک بڑی رکاوٹ بن جائے گا۔

قونصلر رسائی سے کیا مراد ہے؟

اس کیس کے بات اہم ترین سوال یہ پیدا ہوا تھا کہ آخر قونصلر رسائی سے مراد کیا ہے؟ تو اس سے مراد یہ ہے کہ اگر پاکستان میں کسی بھارتی شہری کو کوئی جرم کرنے پر قید کیا جائے تو ویانا کنوینشن کے معاہدے کے تحت ہم اس بھارتی شہری کے حوالے سے پاکستان میں موجود بھارتی سفارتی مشن کو آگاہ کرنے کے پابند ہیں اور ہم بھارتی قیدی کو بھی یہ بتانے کے پابند ہیں کہ وہ کون کون سے حقوق رکھتا ہے اور یہ کہ بھارتی سفارتخانے کو اس کی گرفتاری کی اطلاع دی جاچکی ہے، اور سفارتخانہ اس کی قانونی کارروائی میں مدد کرے گا۔

سفارتکار کی قیدی سے ملاقات کروائی جائے گی اور سفارت کار اس سے پوچھے گا کہ آپ کے ساتھ کیا ہوا؟

اب چونکہ کلبھوشن یادو قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے پر گرفتار کیا گیا ہے اس لیے ہم نے 2007ء کے معاہدے کے تحت ہی یادو کو قونصلر رسائی دینے سے انکار کیا تھا۔ تاہم عالمی عدالت نے ہمارا مؤقف مسترد کردیا۔

چنانچہ اب سفارتی مشن یادو سے نہ صرف ملاقات کرے گا بلکہ ان کے لیے وکیل کا بندوبست بھی کرسکتا ہے اور نظرثانی کے حوالے سے عدالتی کارروائی کی مانیٹرنگ بھی کی جاسکے گی۔

مجاہد بریلوی


سینئر تجزیہ کار


یہ بڑی دلچسپ بات ہے کہ پاکستان اور بھارت بیک وقت اس فیصلے کی خوشی منا رہے ہیں۔ بھارتی وزیرِ خارجہ نے اپنے پیغام میں کلبھوشن کے خاندان کو مبارکباد پیش کی اور اطمینان کا اظہار بھی کیا۔ دوسری طرف چونکہ فیصلہ زیادہ پاکستان کے حق میں تھا اس لیے یہاں بھی خوشی کا اظہار کیا گیا۔

فیصلہ پاکستان کے حق میں اس لیے ہے کیونکہ بھارت کا سب سے بڑا مطالبہ کلبھوشن کی بریت کا تھا، جسے عالمی عدالت نے مسترد کردیا ہے۔ لیکن چونکہ عالمی عدالت نے بھارت کے مؤقف کو مسترد نہیں کیا اس لیے ایسا کہا جاسکتا ہے کہ عالمی عدالت نے توازن قائم رکھنے کی کوشش کی ہے۔

عالمی عدالت کے فیصلے کے بعد ہمیں کلبھوشن کو قونصلر رسائی دینے پڑے گی اور میرا خیال ہم دیں گے بھی، ویسے بھی اس میں کوئی حرج بھی نہیں ہے، بلکہ اس طرح پاکستان کے مؤقف کو تقویت ملے گی۔ بلکہ اگر قونصلر کی رسائی نہیں دی جائے گی تو عالمی عدالت اور دیگر عالمی برادری میں پاکستان کے حوالے سے شکوک و شبہات ظاہر کیے جاسکتے ہیں۔

باقی جہاں تک سزائے موت دینے اور نہ دینے کا معاملہ ہے تو ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ایک طویل عرصے تک پاکستان اور بھارت میں ایک دوسرے کے قیدیوں کو سزائے موت کی سزا تو سنائی جاتی ہے مگر اس کے باوجود ہم نے دیکھا کہ لوگوں کو 10، 15 یا 20 برس بعد رہا بھی کردیا جاتا ہے۔

دونوں ملکوں میں ایک دوسرے کے قیدیوں کو موت کی سزا پر عملدر آمد کرنے کی شاذ و نادر مثالیں ہی ملتی ہیں، اور ان قیدیوں کو دونوں ملکوں نے اپنا شہری قبول بھی نہیں کیا۔

ہاں لیکن اکثر ایسا ہی ہوتا ہے کہ جب قیدیوں کی سزا کو طویل عرصہ گزر جاتا ہے اور حالات سازگار ہوتے ہیں تب رحم کی اپیل پر دونوں ملک ایک دوسرے کے قیدیوں کو رہا کردیتے ہیں، یہ عین ممکن ہے کہ اب بھی شاید ایسا ہی ہو۔

ناصر فاروق


آپ سما ٹی وی میں انٹرنیشنل ڈیسک پر بطور سینئیر کاپی ایڈیٹر اپنی ذمہ داریاں سر انجام دے رہے ہیں۔


فیصلہ حسبِ توقع ہے۔ پاکستان کی سفارت کاری اور بھارت سے معاملات جس سطح پر رہے ہیں، وہ حوصلہ افزا نہیں ہیں۔ صرف کلبھوشن یادو کا معاملہ نہیں، پاکستان نے بھارت سے دیگر معاملات میں بھی مسلسل کمزوری کا مظاہرہ کیا ہے۔

اس کا طویل تاریخی تناظر ہے۔ تاہم یہاں پلوامہ حملہ اور بھارت کی جارحیت تازہ ترین واقعات ہیں۔ یہ ثابت شدہ بات ہے کہ پاکستان پلوامہ واقع میں ملوث نہیں تھا، مگر بھارت نے محض پراپیگنڈے کی بنیاد پر پاکستان پر باقاعدہ حملہ اور جارحیت کی، مگر اس کے باوجود پاکستان کی خارجہ پالیسی اورسفارتکاری کا یہ حال تھا کہ کہیں سے اس جارحیت پر بھارت کے خلاف ایک بیان تک سامنے نہیں آیا۔

یہ تو خیر بھارت کا رویہ تھا، مگر دوسری جانب ہمارا حال یہ تھا کہ بھارت کے 2 طیارے گرائے جانے اور ایک پائلٹ پکڑے جانے کے باجود ہم بھارت کے سامنے جھکتے چلے گئے، حالانکہ یہ پائلٹ ہمارے پاس بھارتی جارحیت کا ثبوت تھا۔

جہاں تک کلبھوشن یادو کا معاملہ ہے، عالمی عدالت انصاف کا فیصلہ پاکستان کے حق میں نہیں، بلکہ پاکستان نے اپنا مقدمہ خود اپنے ہاتھوں سے کمزور کیا اور اس میں نوازشریف حکومت کا کردار کلیدی تھا۔

پاکستان نے اپنے رویے سے ثابت کیا ہے کہ وہ بھارت کو بہرصورت خوش رکھنے کی کوشش کرتا رہے گا۔ اس کے علاوہ پاکستانی حکام نے عالمی عدالتِ انصاف میں کلبھوشن کے مقدمے کی پیروی جس بے دلی سے کی ہے، اس کا نتیجہ اس کے سوا کچھ نہیں ہوسکتا تھا جو ہمارے سامنے آیا ہے۔

فیصلے کو سمجھنے کی کوشش کی جائے تو بھارت کی 3 درخواستیں تھیں، جن میں سے 2 مکمل طور پر قبول کرلی گئیں۔ کلبھوشن کی کونسلر تک رسائی کے لیے راہ ہموار ہوچکی ہے جبکہ عدالت نے کلبھوشن کی سزائے موت پر نظر ثانی پر بھی زور دیا ہے۔ بھارت کی تیسری درخواست کے 3 حصے تھے، جن میں سے صرف ایک حصہ قابلِ قبول قرار نہیں دیا گیا اور وہ تھا کلبھوشن کی رہائی کا بھارتی مطالبہ۔ عدالت نے پاکستان پر صرف اتنا احسان کیا کہ کلبھوشن کو جاسوس تسلیم کرلیا۔

یہ فیصلہ پاکستان کی سفارتی کامیابی نہیں بلکہ خارجہ پالیسی پر سنگین سوالات ہیں اور یہ سوالات آج کے نہیں بلکہ نوازشریف کے دور سے ہیں بلکہ اس سے بھی پہلے سے موجود ہیں۔

اب نظر یہ آرہا ہے کہ پاکستان اور بھارت مذاکرات کریں گے اور کلبھوشن یادو کو جلد یا بدیر رہا کردیا جائے گا۔

انتہائی مختصر تجزیہ کیا جائے تو یہ نظر آتا ہے کہ بھارت جھوٹے ترین پراپیگنڈے کی بنیاد پر بھی جارحیت تک کرسکتا ہے لیکن دوسری طرف پاکستان بھارت کے ثابت شدہ دہشت گردوں کو بھی قانونی طریقے سے سزا دینے میں پس و پیش سے کام لیتا رہا ہے۔

پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں تعاون کا یہ عدم توازن افسوسناک ہے۔