لکھاری نئی دہلی میں ڈان کے نمائندے ہیں۔
لکھاری نئی دہلی میں ڈان کے نمائندے ہیں۔

کشمیر کے سابقہ حکمران ہری سنگھ وہ پہلی شخصیت تھی جس نے 1927ء میں کشمیریوں کو ان کے آبائی وطن میں خصوصی حیثیت دی تھی۔ ایسا انہوں نے اس مسلم اکثریتی ریاست میں مقیم کشمیری پنڈتوں یعنی ہندو اشرافیہ کی ایما پر کیا تھا۔

حقِ انتخاب اور ترقی پذیر اصلاحات کی آمد کے بعد کشمیری مسلمانوں نے اپنی خصوصی حیثیت سے فوائد حاصل کرنا شروع کردیے۔ پنڈتوں نے اس سابقہ نوابی ریاست کے انتظامی ڈھانچوں اور دیگر عوامی علاقوں میں پڑوسی پنجاب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی منتقلی کی مخالفت کی تھی۔

ہری سنگھ کی جانب سے ہندوستان کے ساتھ کشمیر کے متنازع الحاق، جو پاکستان کے نزدیک ایک افسانے سے کم نہیں، کے بعد پنڈت نہرو نے 1954ء میں ہندوستانی پارلیمنٹ میں آئینی طریقہ کار کے ذریعے کشمیریوں کو حاصل اس خصوصی حیثیت کو برقرار رکھا۔

ممکن ہے کہ کشمیر کے ساتھ ان کے جذباتی تعلق نے اس عمل میں اہم کردار کیا ہو، لیکن نہرو نے یہ بھی پایا کہ ان خصوصی تعلقات نے ایک ایسے وقت میں ہندوستان کی سیکولر ساکھ کو تقویت پہنچائی جب ہر طرف مذہب کی بنیاد پر اختلافات عروج پر تھے۔ ان کے نزدیک کشمیر ہندوستان کی سیکولر حقیقت کے لیے مشعل ثابت ہوا، کیونکہ دوسری طرف پاکستان کے لیے کشمیر مسلم بنیاد کی تکمیل تھی۔

نہرو نے اپنی موت سے ایک برس قبل آرنلڈ میکائیلس نامی امریکی صحافی کو انٹرویو کے دوران یہ اشارہ بھی دیا تھا کہ کشمیر کی مزید مذہبی تقسیم ہندوستان کے مختلف علاقوں میں بسے ان مسلمانوں پر منفی اثرات مرتب کرسکتی ہے جنہوں نے پاکستان ہجرت کرنے کا فیصلہ نہیں کیا۔

مودی کی کٹر نظریات کی حامل حکومت مئی میں ہونے والے انتخابات میں بھارتی جنتا پارٹی (بی جے پی) اور اپنے حامیوں کی بھاری اکثریت کی کامیابی کے بعد اور بھی زیادہ چوڑی ہوگئی تھی۔ اسی حکومت نے نہرو کے ایک سیکولر، مشمولہ ریاست کے خواب کو کامیابی کے ساتھ دفن کردیا۔

جب پوری وادی بند پڑی تھی، ہر قسم کے رابطے منقطع تھے اور کشمیر کی گلیاں ہزاروں فوجی اہلکاروں سے بھری ہوئی تھیں، اس وقت وزیرِ داخلہ امت شاہ نے راجیہ سبھا میں کشمیر کو حاصل خصوصی حیثیت کی منسوخی کا اعلان کیا۔ انہوں نے ایسا کرتے وقت حزبِ اختلاف کے احتجاج کو یکسر نظر انداز کردیا۔ تاہم، مودی نے اپنے اس مکارانہ اور فوری اقدام میں چند غیر متوقع اتحادی بھی پالیے، کیونکہ حزبِ اختلاف کے رہنما اروند کیجریوال اور مایاوتی نے کشمیر کے حوالے سے اٹھائے گئے اس اقدام کی حمایت کی ہے۔

امت شاہ اس شور میں کیا کہہ رہے تھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا، جبکہ اس دن بل کو پیش کرنے سے قبل حسبِ قاعدہ اراکینِ اسمبلی میں نوٹیفیکیشن بھی تقسیم نہیں کیے گئے۔ خیر، اس شور میں یہ تو اندازہ ہوگیا کہ شاہ نے بڑی چالاکی سے 370 کی شق کی مکمل منسوخی سے خود کو باز رکھتے ہوئے صرف ان شقوں کو ختم کرنے کی بات کی جو کشمیر کو خصوصی حقوق بخشتے ہیں۔

ایسا کرنے سے انہیں ممکنہ شدید سفارتی ردِعمل سے نمٹنے میں کچھ مدد مل جائے گی۔ یہ بات اپنی جگہ موجود ہے کہ مودی پہلے سے ہی اس میدان میں اسلحہ سے لیس ہیں۔ ویلادی میر پیوٹن انہیں سب سے بڑا سویلین اعزاز دے چکے ہیں۔ ژی جنپنگ چین کے عالمی تجارتی منصوبوں میں حمایت حاصل کرنے کی غرض سے ان سے قریبی تعلقات بنائے ہوئے ہیں، جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ انہیں متعدد قربت بھرے خطاب نواز چکے ہیں۔

مشرق وسطیٰ میں مودی کے قریب ترین اتحادی بینجمن نیتن یاہو اگلے ماہ دہلی کے ایک روزہ دورے پر آنے والے ہیں، اور اس دورے کے موقعے پر ان کے میزبان کو اس بارے میں کافی کارگر معلومات حاصل ہوسکتی ہے کہ زیرِ قبضہ لوگوں پر اپنا مزید تسلط کس طرح قائم کیا جاتا ہے۔

پیر کے روز صدر کووند نے 370 کی شق (1) کے تحت صدر کو حاصل اختیارات کا حوالہ دیتے ہوئے اس متنازع اعلان پر اپنے دستخط ثبت کیے۔ عمومی لحاظ سے دیکھا جائے تو اس قسم کی تبدیلیاں جموں و کشمیر کی حکومت کی رضامندی کی متقاضی ہوتی ہیں، لیکن ریاست میں صدارتی حکومت قائم ہے۔ اسی نکتے پر اس اعلان کو قانونی چیلنج کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

یہ شق الحاق کے اس آلے کا بھی حوالہ دیتی ہے جو کشمیر کو ہندوستان سے جوڑتی اور جسے پاکستان مسترد کرتا ہے۔ چنانچہ اس کا مطلب یہ بھی نکلتا ہے کہ جس شق کو برقرار رکھا گیا ہے اس میں 2 ملکی مذاکرات کی راہ کھلنے کی گنجائش پیدا رہتی ہے اور ایسے حالات زیادہ دُور بھی دکھائی نہیں دیتے، اگر یہ مان لیا جائے کہ صدر ٹرمپ سے مودی کی بات سننے میں کوئی غلطی نہیں ہوئی تھی۔

دیگر لفظوں میں کہیں تو بین الاقوامی سطح پر اپنے کرتوتوں پر صفائیاں دینے کے لیے یہ راستہ نکالا گیا ہے۔ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ مودی کے ڈرامائی اقدامات تنگ نظر مخصوص گروہی سوچ سے متاثر ہیں، لیکن یہ من موہن سنگھ اور پرویز مشرف کے درمیان ہونے والے مذاکرات کی بنیاد کو تبدیل نہیں کرسکتے۔

ان مذاکرات کا اہم نکتہ تجارتی تعلقات میں توسیع لانے اور لائن آف کنٹرول کے آر پار لوگوں کے درمیان روابط بڑھانے کے بارے میں تھا، جبکہ لائن آف کنٹرول کو انہوں نے مستقبل کی حقیقی (de facto) سرحد کے طور پر دیکھا تھا۔ 2 ملکوں کے درمیان اب بھی یہ گفت و شند کا امکان ہے، اس بات پر یقین کرنے کا جی چاہتا ہے۔

چونکہ پاکستان الحاق کے آلہ کار سے اختلاف رکھتا ہے، اس لیے ہندوستان کی اپنے زیرِانتظام متنازع علاقے میں سیاسی انتظام کاری پر اس کی تنقید سفارتی زاویہ نظر سے کافی سطحی ہے۔

سب سے اہم نکتہ دراصل مجوزہ تقسیم کے پیچھے چھپا ارادہ ہے۔ اس اسکیم کے تحت لداخ الگ ہوجائے گا اور بغیر کسی منتخب اسمبلی کے یونین ٹیریٹری کا حصہ بن جائے گا، جیسے چندی گڑھ ہے۔ یوں مودی کو کارگل کی مسلمانوں کی ایک بڑی آبادی اور لداخ کے بدھ مت کے ماننے والوں کے لیے سیاسی پلیٹ فارم کے حصول میں رکاوٹ پیدا کرنے میں مدد ملے گی۔

لداخ سے الگ نئے سرے سے وضح کردہ زمینی حدود کے حامل جموں و کشمیر کے پاس اپنی منتخب اسمبلی ہوگی، یعنی کیجریوال کی دہلی میں قائم نیم غیر مؤثر حکومت جیسی حکومت وہاں بھی قائم ہوگی۔ اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ یہ اسمبلی کشمیر کا پہلا ہندو وزیرِاعلیٰ بھی سامنے لاسکتی ہے۔ ہندو اکثریت والے جموں میں انتخابات کا آپشن رکھنے کی کم از کم ایک واضح وجہ یہی ہے۔

یہاں اہم نکتہ یہ ہے کہ پاکستان کو آبادی میں ہونے والی ان ممکنہ تبدیلیوں پر بات چیت کرنا ہی ہوگی جن کا خدشہ لاحق ہے، وہی تبدیلیاں جن کے تحت وادی عسکری قوتوں کے زیرِ تحفظ اور اسرائیلی آبادیوں کے ماڈل کے طرز پر مختلف علاقوں میں تقسیم ہوگی۔

پیر کا روز دراصل کشمیری عوام کے لیے ایک طویل سیاہ رات کی ابتدا کا دن ہے۔ یہی وہ دن ہے کہ جب ایک عرصے سے وعدہ شدہ ہندتوا منصوبے کی طرف پہلا قدم بڑھایا گیا، جو فوج کی ظالمانہ طاقت سے ممکن ہوا۔

اس حکمت عملی میں ہندوستانی حمایت یافتہ اقتداری ڈھانچے کے 2 اہم سیاسی دعویدار اور ماضی میں بی جے پی کی حمایت رکھنے والے عبداللہ اور مفتی خاندان کو کنارے سے لگانا شامل تھا۔ اس وقت دونوں کی قیادت گھر پر نظربند ہیں۔ علیحدگی پسند رہنماؤں کو پہلے ہی حراست میں لے لیا گیا تھا۔ یہ بھی خبر موصول ہوئی کہ دہلی کی تہار جیل میں یاسین ملک کی طبعیت ناساز ہے لیکن جیل حکام نے بتایا کہ ان کی صحت بالکل ٹھیک ہے۔

ایک وقت تھا کہ جب کشمیری سیاسی تنازعات میں پڑنے سے گریز کرتے تھے اور اس ہندوستانی سنیما کے لیے بہترین مناظر فراہم کرتے تھے جبکہ ہندوستانی ہیرو اور ہیروئن کے مداح ہر گھر میں پائے جاتے تھے۔ پھر کٹر مذہبی لہر اٹھی، لیکن وہ کشمیر کے صوفی ورثے کو ختم نہ کرسکی۔ اب ان بدقسمت لوگوں کو اس ہندوتوا تعصب کا سامنا کرنا پڑے گا جو پہلے ہی نہرو کے ہندوستان کے کونے کونے تک پھیل چکی ہے اور دیگر نظریات کو ساتھ لے کر چلنے کی نہرو کی روایت کی بنیادوں کو اکھاڑتی جا رہی ہے۔


یہ مضمون 6 اگست 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں