لکھاری ڈان کے اسٹاف ممبر ہیں۔
لکھاری ڈان کے اسٹاف ممبر ہیں۔

مودی حکومت کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے حالیہ اقدامات پر تبادلہ خیال کے لیے طلب کردہ پارلیمنٹ کے اجلاس کا ایک سب سے قابلِ ذکر لمحہ وہ تھا جب وزیرِاعظم ولولہ انگیز تقاریر میں اپنے اوپر ہونے والی تنقید سننے کے بعد قائدِ حزب اختلاف کی طرف مڑے اور بیزار لہجے میں پوچھا کہ، ’آپ ہی بتائیں کہ میں کیا کروں؟ بھارت پر حملہ کردوں؟‘

باتوں کے اس مختصر تبادلے نے حکومتِ پاکستان کی بے چارگی کو ظاہر کردیا جس کے عالم میں پاکستانی حکومت کھڑی بھارت کو تکتی رہ گئی اور وہ متنازع علاقہ یکطرفہ طور پر ہڑپ کرگیا۔

یقیناً، شہباز شریف کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا، وہ صرف اتنا کہہ پائے کہ وہ چاہتے ہیں کہ وزیرِاعظم اس اہم موڑ پر سخت تقریر کریں اور ’قوم کا حوصلہ بڑھائیں‘۔ بالکل ایسا ہونا چاہیے، لیکن اس کے بعد کیا؟

قومی سلامتی کونسل نے جن اقدامات کا اعلان کیا ہے وہ فرضی نوعیت کے حامل ہیں۔ بھارت کے ساتھ سفارتی تعلقات کو محدود اور تجارتی تعلقات ختم کردینے کا اقدام دہلی میں کسی کے لیے بڑے جھٹکے کا باعث نہیں بنے گا۔ تاہم اس معاملے کو اقوام متحدہ، بالخصوص سیکیورٹی کونسل میں اٹھانا درست اقدام ہے کیونکہ یہی وہ عالمی ادارے ہیں جو دہائیوں سے کشمیر کی متنازع حیثیت کو تسلیم کرتے آئے ہیں، لیکن دنیا کی ایسی کتنی طاقتیں ہوں گی جو پاکستان کے مؤقف کی حمایت کرسکتی ہیں اور مودی کو اپنا فیصلہ واپس لینے پر مجبور کرسکتی ہیں۔

تاہم، چند عالمی فورمز نے موجودہ صورتحال پر تشویش کا اظہار ضرور کیا ہے، ان میں سے ایک بین الاقوامی کمیشن برائے جیورسٹ ہے۔ اس فورم نے اقوام متحدہ کے کمشنر برائے انسانی حقوق کے دفتر سے جاری ہونے والی رپورٹس کا حوالہ دیتے ہوئے وادی میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے خلاف اپنے بیان میں یہاں تک کہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر ’کھلی قانونی چُھوٹ کے ساتھ بھارتی فوج کے ہاتھوں ہونے والے غیر قانونی قتلِ عام، جبری گمشدگیوں اور ٹارچر کے ساتھ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا مرکز بنا ہوا ہے۔‘

یہاں ایک قابلِ غور نکتہ یہ ہے کہ، اس بیان میں بھی سب سے زیادہ زور کشمیر میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور بھارتی فوج کو حاصل قانونی چھوٹ پر دیا گیا ہے جبکہ مقبوضہ کشمیر کا الحاق اور تقسیم کو ثانوی اہمیت دی گئی ہے۔

اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری پہلے کی طرح صرف یہی کہیں گے کہ، ’ہم تمام فریقین سے کشیدگی کم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔‘

چین نے سخت بیان جاری کیا ہے لیکن اس میں سب سے زیادہ زور لداخ پر دیا گیا جس کے چند علاقوں پر چین اپنی ملکیت کا دعوی رکھتا ہے۔ چین کی وزارتِ خارجہ کی ترجمان ہوا چنینگ نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ، ’مغربی سیکٹر میں چینی علاقے کو بھارت کے انتظامی دائرہ اختیار میں شامل کرنے پر چین کو ہمیشہ اعتراض ہے۔ حال ہی میں بھارت نے اپنے داخلی قانون میں یکطرفہ طور پر تبدیلی کرکے چین کے اقتدارِ اعلیٰ کو نقصان پہنچایا ہے۔ اس طرح کا قدم بالکل ناقابلِ قبول ہے۔‘

جہاں تک پاکستان کے خدشات کا تعلق ہے تو بیان میں کشمیر کی متنازع حیثیت کو تسلیم کیا گیا اور صرف اتنا کہا گیا کہ، ’دونوں ممالک کو چاہیے کہ وہ تحمل اور دانائی کا مظاہرہ کریں۔ بالخصوص ایسا کوئی اقدام اٹھانے سے گریز کریں جو یکطرفہ طور پر اسٹیٹس کو میں تبدیلی کا باعث بنے اور خطے میں کشیدگی پیدا ہو۔‘

گلف نیوز میں شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق، متحدہ عرب امارات کے سفارتکار نے بھارتی اقدام کا خیر مقدم کیا ہے۔ رپورٹ میں لکھا تھا کہ، ’انہوں نے تبصرہ کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے فہم کے مطابق ریاستوں کی تنظیمِ نو آزاد بھارت کی تاریخ میں کوئی انوکھی بات نہیں ہے اور ایسا مرکزی طور پر علاقائی تفریق میں کمی لانے اور استعداد بڑھانے کے غرض سے کیا گیا ہے۔ انہوں نے جموں و کشمیر کے حوالے سے کیے جانے والے حالیہ فیصلے کو بھارتی آئین کے مطابق بھارت کا اندرونی معاملہ قرار دیا۔‘

دوسری طرف سعودی عرب کی نیوز ایجنسی نے 6 اگست کو یہ بتایا کہ، سعودی ولی عہد کو ’آج پاکستانی وزیرِاعظم عمران خان نے ٹیلی فون کیا۔ ٹیلیفونک گفتگو میں خطے میں پیدا ہونے والی صورتحال اور اس کے حوالے سے اٹھائے جانے والے اقدامات پر تبادلہ خیال ہوا۔ اس دوران پاکستانی وزیرِاعظم نے کشمیر کے تناظر میں پیدا ہونے والی حالیہ صورتحال کے بارے میں بھی آگاہ کیا۔‘ بس اور زیادہ کچھ نہیں کہا۔

تاہم، ترک صدر اردوان کا بیان اس سے بڑھ کر تو تھا لیکن اس میں بھی الفاظ کا محتاط استعمال کیا گیا۔ صدر کے ڈائریکٹوریٹ آف کمیونیکشن سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق، اردوان نے ’پاکستان اور بھارت سے مذاکراتی عمل کو مضبوط بنانے کا مطالبہ کیا‘ اور ’انہوں نے موجودہ صورتحال پر اپنے خدشات کا اظہار اور عمران خان کو ترکی کی ’پختہ حمایت‘ کا یقین دلایا۔‘ لیکن کہیں کوئی اشارہ نہیں ملتا کہ اس پختہ حمایت کا مطلب کیا ہے، خاص طور پر اگر اسے قومی سلامتی کونسل کی جانب سے 7 اگست کو اعلان کردہ اقدامات کے تناظر میں دیکھا جائے۔ یہ کہنا تو مشکل ہے کہ ترکی بھارت کے ساتھ اپنے تجارتی اور سفارتی تعلقات کو داؤ پر لگانے پر راضی ہوگا۔

سب سے زیادہ قابلِ ذکر ردعمل امریکا کا ہے۔ وزارت خارجہ نے سب سے پہلے صورتحال کی اہمیت کو تسلیم کیا اور پھر صرف اتنا کہا کہ، ’ہم جانتے ہیں کہ بھارتی حکومت نے ان اقدامات کو اندرونی معاملہ قرار دیا ہے‘ جب مودی حکومت نے 5 اگست کو کشمیر کے حوالے سے اقدام اٹھایا تھا، اسی دن زلمے خلیل زاد دوحہ میں طالبان کے ساتھ جاری مذاکراتی مرحلے سے نمودار ہوئے۔

پھر اسی دن خلیل زاد نے ٹوئٹ میں کہا کہ، ’میں افغان امن عمل کی حمایت میں مزید بین الاقوامی اتفاق رائے بڑھانے کے سلسلے میں پہلے سے شیڈول ملاقاتوں میں شریک ہونے کے لیے آج دہلی جاؤں گا۔‘ بعدازاں انہوں نے ٹوئٹر پر ایک تصویر شیئر کی جس میں وہ بھارتی وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر کے ساتھ بیٹھے نظر آئے، اور ساتھ ہی یہ لکھا کہ افغانستان میں پائیدار اور مستحکم قیام امن میں بھارت کی مدد کا کردار اہم ہے۔‘ یہ تو صاف ہے کہ امریکا کی توجہ افغانستان میں امن عمل پر مرکوز رہے گی۔

مودی کی جانب سے 370 کی منسوخی سے 3 دن قبل زلمے خلیل زاد پاکستان میں موجود تھے اور انہوں نے آرمی چیف اور وزیرِاعظم سے ملاقاتیں بھی کیں، اور صرف اتنا بیان دیا کہ ’ہم نے افغان امن عمل میں پاکستان کے کردار اور ان اضافی مثبت اقدامات پر تبادلہ خیال کیا جو پاکستان کے لیے ممکن ہیں۔‘

واشنگٹن سے موصول ہونے والا پیغام صاف تھا، ’افغانستان پر ہی توجہ مرکوز رکھی جائے، رکھنی ہے یا نہیں؟‘ 5 اگست کے چند دن بعد ایف اے ٹی ایف کو دیے گئے ایکشن پلان پر ہونے والی پیش رفت کا جائزہ لینے کے لیے سینئر امریکی وفد پاکستان پہنچا اور پاکستان کو گرے لسٹ سے بچانے کے لیے یہ دورہ نہایت اہمیت کا حامل ہے۔

تو پیارے قارئین، قصہ مختصر یہی ہے۔ جس بات کا اندازہ دانا شخصیات کو دہائیوں پہلے تھا، آج وہ بات کھل کر سامنے آگئی۔ پاکستان کے کشمیر کے حوالے سے انصاف پر مبنی مؤقف کو اسی بہتے خون سے ابر آلود کردیا گیا ہے جو دہائیوں سے اس وادی میں بہتا آیا ہے۔ چنانچہ آج جہاں کشمیری عوام کو تاریخ میں ہماری سب سے زیادہ ضرورت ہے، وہیں ہمارے وزیرِاعظم یہ سوال پوچھتے ہیں کہ، ’آپ ہی بتائیں میں کیا کروں؟‘


یہ مضمون 8 اگست 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں