ہواوے نے 6 جی انٹرنیٹ پر کام شروع کردیا

15 اگست 2019
فائیو جی کے مکمل پھیلاؤ سے پہلے ہی سکس جی پر بھی کام شروع ہوگیا — اے ایف پی فوٹو
فائیو جی کے مکمل پھیلاؤ سے پہلے ہی سکس جی پر بھی کام شروع ہوگیا — اے ایف پی فوٹو

چینی کمپنی ہواوے کے لیے 5 جی ٹیکنالوجی مشکلات کا باعث بنی کیونکہ امریکا نے اس کی وجہ سے اسے بلیک لسٹ کردیا۔

امریکی حکومت کو خدشہ ہے کہ ہواوے فائیو جی اور دیگر کمیونیکشن انفراسٹرکچر میں سیکیورٹی خامی پر مبنی بیک ڈور تیار کرسکتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ اس کے خلاف اقدامات کررہی ہے۔

ویسے 5جی ٹیکنالوجی ابھی گنتی کے چند ممالک میں ہی چند لاکھ افراد کو دستیاب ہے مگر ہواوے نے اگلی نسل کے موبائل انٹرنیٹ پر بھی کام شروع کردیا ہے۔

دی لاجک کی رپورٹ کے مطابق کینیڈا کے شہر اوٹاوا میں ہواوے نے اپنے آر اینڈ ڈی سینٹر میں 6 جی ٹیکنالوجی پر تحقیق شروع کردی ہے۔

فی الحال تو یہ آغاز ہے کیونکہ ہواوے کی اپنی جاری کردہ ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ 6 جی ٹیکنالوجی 2030 سے قبل کمرشل بنیادوں پر دستیاب نہیں ہوسکے گی۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ کمپنی 13 یونیورسٹیوں اور تحقیقی اداروں کے ساتھ مل کر 6 جی نیٹ ورک اور ممکنہ اپلیکشنز پر کام کررہی ہے۔

واضح رہے کہ چند ماہ پہلے سام سنگ کے حوالے سے رپورٹس سامنے آئی تھی کہ اس نے 6جی ٹیکنالوجی پر کام شروع کیا ہے۔

خیال رہے کہ رواں سال مئی میں ہواوے کو امریکا نے بلیک لسٹ کیا تھا جس کے بعد صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے کمپنی کو سیکیورٹی خدشات پر بین کردیا تھا۔

امریکی حکومت کو ڈر ہے کہ ہواوے کے چینی حکومت سے گہرے روابط ہیں اور چینی حکومت امریکا میں ہواوے کے تعمیر انفراسٹرکچر کو جاسوسی کے لیے استعمال کرسکتی ہے۔

ہواوے کی جانب سے ان الزامات کی مسلسل تردید کی جاتی رہی ہے۔

اب امریکی حکومت نے ہواوے پر پابندیاں کافی حد تک نرم کردی ہیں اور امریکی کمپنیوں کو چینی کمپنی کے ساتھ کام کرنے کے لیے خصوصی لائسنس جاری کیے جائیں گے، جس کے بعد گوگل کے اینڈرائیڈ سسٹم کا لائسنس بحال رہنے کا امکان ہے۔

تاہم ہواوے نے گزشتہ ہفتے اپنا تیار کردہ آپریٹنگ سسٹم ہارمونی او ایس متعارف کرایا تھا جو فی الحال اسمارٹ ڈیوائسز جیسے ٹیلیویژن، کار انفوٹینمنٹ سسٹم اور دیگر پر استعمال کیا جائے گا، تاہم کمپنی کے مطابق اسے اسمارٹ فونز کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے اور اگر اس پر دوبارہ امریکی پابندی عائد ہوئی تو وہ اس سسٹم کو اینڈرائیڈ کے متبادل کے طور پر استعمال کرے گی۔

تبصرے (0) بند ہیں