500 سال سے موسیقی سکھانے والے ادارے پر 9 سالہ لڑکی کا جنسی تفریق کا مقدمہ

یہ ادارہ موسیقی کی تربیت کے ورکشاپ بھی منعقد کرتا ہے—فوٹو: برلنر ڈوم فیس بک
یہ ادارہ موسیقی کی تربیت کے ورکشاپ بھی منعقد کرتا ہے—فوٹو: برلنر ڈوم فیس بک

یورپی ملک جرمنی کی ایک 9 سالہ بچی نے گزشتہ 500 سال سے موسیقی کی تربیت دینے والے ادارے پر جنسی تفریق کا مقدمہ دائر کردیا۔

موسیقی کی تربیت حاصل کرنے کی خواہاں 9 سالہ لڑکی کے والدین نے جرمنی کے دارالحکومت برلن میں موجود تاریخی ادارے پر مقدمہ دائر کرتے ہوئے ادارے کے قواعد و ضوابط کو فرسودہ قرار دیا۔

9 سالہ بچی کے والدین نے 1465 میں تعمیر کیے گئے ’دی اسٹیٹ اینڈ کیتھڈرل کوائر‘نامی موسیقی کی تربیت دینے والے ادارے پر مقدمہ دائر کیا۔

اس ادارے کو’برلنر ڈوم‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔

یہ ادارہ شہزادہ الیکٹرو فریڈرک دوئم نے تعمیر کیا تھا جو جرمنی کی ریاست برانڈن برگ کے بادشاہ تھے۔

اس ادارے کو موسیقی کی تربیت کے حوالے سے دنیا کے معتبر اداروں میں شمار کیا جاتا ہے—فوٹو: برلنر ڈوم
اس ادارے کو موسیقی کی تربیت کے حوالے سے دنیا کے معتبر اداروں میں شمار کیا جاتا ہے—فوٹو: برلنر ڈوم

شہزادہ الیٹرو فریڈرک کو موسیقی کی خصوصی لگاؤ تھا، اس لیے انہوں نے یہ ادارہ قائم کیا تھا، جہاں ان کی شاعری کے گیت گائے جاتے تھے۔

500 سال کی تاریخ میں اس ادارے نے کسی بھی لڑکی کو موسیقی کی تربیت نہیں دی، البتہ اسی ادارے نے لڑکیوں کی تربیت کے لیے ایک علیحدہ ادارے کو بنایا۔

یہ ادارہ سالانہ 250 بچوں سمیت 75 نوجوانوں کو موسیقی کی تربیت دیتا ہے اور یہاں تربیت لینے والے کسی بھی نوجوان کی عمر 25 سال سے زائد نہیں ہوتی۔

یہ ادارہ لڑکوں کو موسیقی کی تربیت دینے کے حوالے سے نہ صرف جرمنی بلکہ یورپ بھر میں منفرد اہمیت رکھتا ہے، موسیقی کے دلدادہ والدین اور بچوں کی خواہش ہوتی ہے وہ اس ادارے سے تربیت حاصل کریں۔

اس ادارے میں مذہبی موسیقی بھی سکھائی جاتی رہی ہے—فوٹو: دی ٹیلی گراف
اس ادارے میں مذہبی موسیقی بھی سکھائی جاتی رہی ہے—فوٹو: دی ٹیلی گراف

اسی ادارے میں داخلہ لینے کی کوشش میں ناکامی کے بعد جرمنی کی ایک 9 سالہ بچی نے ادارے پر صنفی تفریق کا مقدمہ دائر کردیا۔

خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ (اے پی) نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ 9 سالہ بچی کی والدہ ’دی اسٹیٹ ایںڈ کیتھڈرل کوائر‘ پر مقدمہ دائر کرتے ہوئے ان کے قوائد و ضوابط کو جرمنی کے آئین کے خلاف قرار دیا۔

خاتون نے بیٹی کی جانب سے مقدمہ دائر کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ تاریخی ادارے کے قوائد آج کے جرمنی کے آئین کے متصادم ہیں، ملک کا آئین صنفی تفریق کی اجازت نہیں دیتا۔

برلن کی مقامی عدالت میں دائر کیے گئے مقدمے میں بچی کی والدہ نے دعویٰ کیا کہ ادارے نے ان کی بیٹی کو صنفی تفریق کی بنیاد پر داخلہ نہیں دیا۔

مقدمے میں مزید بتایا گیا ہے کہ 9 سالہ بچی نے ابتدائی طور پر 2016 اور بعد ازاں 2018 میں بھی ادارے میں داخلہ لینے کی کوشش کی، تاہم انہیں صنفی بنیادوں پر داخلہ نہیں دیا گیا۔

اسی ادارے کے تحت لڑکیوں اور خواتین کو بھی الگ موسیقی کی تربیت دی جاتی ہے—فوٹو: برلنر ڈوم
اسی ادارے کے تحت لڑکیوں اور خواتین کو بھی الگ موسیقی کی تربیت دی جاتی ہے—فوٹو: برلنر ڈوم

دوسری جانب ادارے کے وکیل نے صنفی تفریق کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ بچی کو معیار پر پورا نہ اترنے کی وجہ سے داخلہ نہیں دیا گیا۔

ادارے کے وکیل نے عدالت میں جمع کرائے گئے اپنے جواب میں کہا کہ بچی میرٹ پر پورا نہیں اتر سکی، ان کی آواز اور پرفارمنس ادارے میں داخلے کے معیار کے مطابق نہیں تھی۔

وکیل کا کہنا تھا کہ قدرتی طور پر بچوں اور بچوں کی آواز میں کچھ فرق ہوتا ہے اور ادارہ موسیقی کی انتہائی پیشہ ورانہ تربیت دینے پر یقین رکھتا ہے، اس لیے دوسرے بچوں کو پریشانی سے بچانے کے لیے بچی کو داخلہ نہیں مل سکا۔

ادارے نے عدالت میں جمع کرائے گئے بیان میں کہا کہ انہوں نے بچی کے والدین کو تجویز دی تھی کہ بچی کو ان کے ہی لڑکیوں کے ادارے میں داخل کرایا جائے۔

ادارے کے زیر انتظام مرد و خواتین کے مشترکہ پروگرام بھی منعقد ہوتے ہیں—فوٹو: برلنر ڈوم
ادارے کے زیر انتظام مرد و خواتین کے مشترکہ پروگرام بھی منعقد ہوتے ہیں—فوٹو: برلنر ڈوم

تبصرے (0) بند ہیں