مقبوضہ کشمیر میں احتجاج کا خدشہ، بھارتی فورسز کے نماز جمعہ پر بھی پہرے

اپ ڈیٹ 16 اگست 2019
بھارتی حکومت نے 5 اگست کومقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت منسوخ کردی تھی—فائل/فوٹو:اے پی
بھارتی حکومت نے 5 اگست کومقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت منسوخ کردی تھی—فائل/فوٹو:اے پی

بھارت کی حکومت نے مقبوضہ کشمیر میں آئندہ چند روز میں پابندیوں کو ہٹانے کی یقین دہانی کے باوجود سری نگر میں مظاہروں کو روکنے کے لیے نماز جمعہ کے دوران سخت پابندیاں عائد کردیں۔

خبرایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق سری نگر کی مساجد کے سامنے سیکیورٹی فورسز کو تعینات کردیا گیا تھا جبکہ پولیس وین میں اسیپکرز کے ذریعے لوگوں کو احتجاج نہ کرنے کی ہدایت کی جارہی تھی۔

رپورٹ کے مطابق شہر کے متعدد علاقوں میں پوسٹرز لگائے گئے تھے جس میں احتجاج کا کہتے ہوئے علما سے اپنی تقاریر میں مقبوضہ وادی کی موجودہ صورت حال پر بات کرنے کی اپیل کی گئی تھی۔

ایک پوسٹر میں لکھا گیا تھا کہ ‘لوگ کرفیو کو توڑتے ہوئے باہر آجائیں’۔

مزید پڑھیں:مقبوضہ کشمیر سے پابندیاں چند روز میں ختم کردیں گے، بھارتی حکومت کی عدالت کو یقین دہانی

واضح رہے کہ نئی دہلی کی جانب سے 5 اگست کو مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے سے قبل ہی مقبوضہ وادی میں ٹیلی فون اور انٹرنیٹ کی سروس معطل اور کرفیو کے تحت لوگوں کے اجتماع پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔

اس تمام معاملے پر تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ بھارتی حکومت کے اس اقدام سے صورت حال مزید گھمبیر ہوجائے گی۔

دوسری جانب مقبوضہ کشمیر میں لاک ڈاؤن اور پابندیوں کے خلاف بھارتی سپریم کورٹ میں صحافی کی جانب سے دائر درخواست پر سماعت کے موقع پر حکومت نے عدالت کو یقین دہانی کروائی تھی کہ انٹرنیٹ کو بحال کردیا جائے گا تاکہ صحافی اپنا کام کرسکیں گے۔

کشمیر ٹائمز کے ایگزیکٹیو ایڈیٹر انورادھا بھاسن نے عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کا اپنے اسٹاف سے رابطہ نہیں ہو پارہا ہے کیونکہ ٹیلی فون اور موبائل دونوں سروسز اور انٹرنیٹ معطل ہے۔

یہ بھی پڑھیں:بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی، صدارتی فرمان جاری

ادھر سرکاری وکیل تشار مہتا نے عدالت کو بتایا کہ 'پابندیاں آئندہ چند روز میں ختم کردی جائیں گی' جبکہ بھارتی ٹی وی نے دعویٰ کیا کہ 19 اگست سے اسکول بھی کھل جائیں گے۔

واضح رہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی حکومت نے سیکڑوں سیاسی کارکنوں سمیت تمام قائدین کو بھی گرفتار کرلیا ہے۔

انورادھا بھاسن کے اٹارنی وریندر گروور کا کہنا تھا کہ حکومت نے عدالت کو بتایا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی صورت حال کا روزانہ کی بنیاد پر جائزہ لیا جارہا ہے، جس کے بعد ججوں نے فیصلہ کیا کہ حکومت کو مزید وقت دیا جائے۔

رپورٹ کے مطابق نیشنل کانفرنس اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی سمیت دیگر جماعتوں سے تعلق رکھنے والے کم از کم 50 سیاست دانوں کو سری نگر کی مشہور جھیل کے کنارے واقع ہوٹل میں حراست میں رکھا گیا ہے۔

اس بارے میں حکومتی عہدیدار کا کہنا تھا کہ انتظامیہ نے ہوٹل کے 58 کمروں کو بک کر دیا ہے۔

مزید پڑھیں:'مسئلہ کشمیر پر سلامتی کونسل کا اجلاس پاکستان کی سفارتی کامیابی ہے'

ان کا کہنا تھا کہ ‘ان سیاست دانوں کو ہوٹل کے کمروں میں بند کردیا گیا ہے لیکن کھانے کے اوقات میں ڈائننگ ہال میں ملاقات کی اجازت ہے’۔

خیال رہے کہ بھارتی حکومت کے اقدام کے بعد پاکستان نے مقبوضہ کشمیر کی صورت حال پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس طلب کرنے کی درخواست کی تھی، جس پر اجلاس ہوا تھا اور تمام صورتحال پر بات کی گئی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں