سری نگر میں نقل و حرکت پر دوبارہ پابندی عائد، جھڑپوں میں 24 افراد زخمی

اپ ڈیٹ 19 اگست 2019
مقبوضہ کشمیر میں مظاہرین کی جانب سے پتھراؤ کی شدت میں اضافہ دیکھنے میں آیا — فوٹو: اے ایف پی
مقبوضہ کشمیر میں مظاہرین کی جانب سے پتھراؤ کی شدت میں اضافہ دیکھنے میں آیا — فوٹو: اے ایف پی

مقبوضہ کشمیر کے دارالحکومت سری نگر میں پولیس اور علاقہ مکینوں کے درمیان جھڑپوں میں 24 افراد زخمی ہوگئے جس کے بعد بھارتی حکام نے اکثر علاقوں میں نقل و حرکت پر دوبارہ پابندی عائد کردی۔

مقبوضہ کشمیر میں گزشتہ روز کرفیو میں نرمی کی گئی تھی—فوٹو: رائٹرز
مقبوضہ کشمیر میں گزشتہ روز کرفیو میں نرمی کی گئی تھی—فوٹو: رائٹرز

برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق 2 سینئر عہدیداران اور عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ علاقہ مکینوں اور پولیس کے درمیان رات گئے تک جاری رہنے والی جھڑپوں کے باعث دوبارہ پابندی عائد کی گئی۔

گزشتہ روز مقبوضہ کشمیر کے کچھ مقامات میں کرفیو میں نرمی کے بعد سے 24 گھنٹے سے 5 اگست کے بھارتی اقدام کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔

ریاستی حکومت گزشتہ 2 ہفتوں سے کرفیو کے نفاذ سے انکار کرتی رہی لیکن چند گھنٹے قبل شہر کے کئی مقامات پر سڑک بند کرکے لوگوں کو واپس بھیج دیا گیا۔

مزید پڑھیں: 'سلامتی کونسل کے اراکین نے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا'

بعض مقامات پر سیکیورٹی فورسز نے علاقہ مکینوں کو بتایا کہ کرفیو نافذ ہے۔

بھارتی حکومت کے 2 سینئر عہدیداران نے بتایا کہ گزشتہ شب پُرتشدد جھڑپوں کے نتیجے میں زخمی ہونے والے 2 درجن سے افراد ہسپتالوں میں زیرِ علاج ہیں جو پیلیٹ گنز کا شکار بھی ہوئے۔

جھڑپوں میں 2 درجن سے زائد افراد زخمی ہوئے —فوٹو: رائٹرز
جھڑپوں میں 2 درجن سے زائد افراد زخمی ہوئے —فوٹو: رائٹرز

سری نگر میں مقبوضہ جموں و کشمیر حکومت اور نئی دہلی میں وفاقی حکومت کے نمائندگان سے حالیہ جھڑپوں اور زخمیوں کی تعداد سے متعلق فوری طور پر رابطہ نہیں ہوسکا۔

سرکاری ذرائع میں سے ایک نے بتایا کہ سری نگر کے 2 درجن سے زائد مقامات پر مظاہرین نے سیکیورٹی فورسز پر پتھراؤ کیا۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ چند روز سے مظاہروں کے دوران سیکیورٹی فورسز پر پتھراؤ کی شدت میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

مرچوں والے دستی بم

عینی شاہدین اور حکام نے بتایا کہ گزشتہ شب سری نگر کے علاقوں ریناواری، نوہٹہ اور گوجوارہ میں زیادہ جھڑپیں ہوئی جہاں بھارتی فورسز نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس، چلی گرنیڈز (مرچوں والے دستی بم) اور پیلیٹ گنز برسائیں۔

جھڑپوں کے دوران 17 افراد پیلیٹ گنز کا شکار ہوئے—فوٹو: اے پی
جھڑپوں کے دوران 17 افراد پیلیٹ گنز کا شکار ہوئے—فوٹو: اے پی

چلی گرنیڈز میں سرخ مرچ شامل ہوتی ہے جن کے پھٹنے پر آنکھوں اور جلد پر شدید جلن ہونے کے ساتھ ساتھ ایک تیز بدبو بھی آتی ہے۔

عہدیداران نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ سری نگر کے علاقے صورہ سمیت دیگر علاقوں میں پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔

خیال رہے کہ گزشتہ دو ہفتوں سے سورہ کشمیریوں کی جانب سے مظاہروں کا مرکز رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: مقبوضہ کشمیر میں کرفیو برقرار، کچھ مقامات پر مواصلاتی رابطے جزوی طور پر بحال

سینئر حکومتی عہدیدار اور سری نگر کے مرکزی ہسپتال کے حکام نے کہا کہ ہسپتال لائے جانے والے 17 افراد پیلیٹ گنز سے زخمی ہوئے تھے۔

24 گھنٹے سے مقبوضہ کشمیر میں مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے—فوٹو: رائٹرز
24 گھنٹے سے مقبوضہ کشمیر میں مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے—فوٹو: رائٹرز

انہوں نے کہا کہ 12 زخمیوں کو ڈسچارج کردیا گیا تھا جبکہ 5 افراد شدید زخمی ہوئے تھے اور ہسپتال میں زیرِ علاج ہیں۔

ہسپتال حکام اور ایک پولیس افسر نے بتایا کہ براری پورہ کے رہائشی 65 سالہ محمد ایوب کو گزشتہ دوپہر چلی گرنیڈز اور آنسو گیس برسانے کے نتیجے میں سانس کی تکلیف کے باعث ہسپتال لے جایا گیا تھا جہاں وہ رات میں انتقال کرگئے تھے اور ان کی تدفین بھی کردی گئی ہے۔

سری نگر کے کئی علاقے خاردار تاروں سے بند

آج صبح پیراملٹری پولیس نے سری نگر کے علاقے راج باغ کے رہائشی 35 سالہ جاوید احمد کو اولڈ سٹی جانے سے روک دیا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ ’مجھے وہاں اپنے والدین سے ملنے جانا تھا، پولیس نے خاردار تاروں سے راستہ بند کیا ہوا تھا، انہوں نے مجھے علاقے میں کرفیو کے باعث واپس جانے کے لیے کہا‘۔

سری نگر کے اکثر علاقوں میں نقل و حرکت پر پابندی عائد ہے—ٖفوٹو: اے پی
سری نگر کے اکثر علاقوں میں نقل و حرکت پر پابندی عائد ہے—ٖفوٹو: اے پی

گزشتہ روز 12 دنوں سے جاری بلیک آؤٹ کے بعد سری نگر کے کچھ علاقوں میں لینڈ لائنز سروس بحال کردی گئی تھیں جبکہ ریاستی حکومت کا کہنا تھا کہ آج شام تک اکثر ٹیلی فون ایکسچینجز بھی بحال ہوجائیں گی۔

تاہم مقبوضہ کشمیر میں انٹرنیٹ اور موبائل فون سروسز معطل رہیں گی۔

علاوہ ازیں مقبوضہ کشمیر کے 500 سے زائد مقامی رہنما اور کارکنان اب بھی زیر حراست ہیں جبکہ ان میں سے کچھ کو مقبوضہ کشمیر سے باہر جیلوں میں منتقل کردیا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: مسئلہ کشمیر پر سلامتی کونسل کا تاریخی اجلاس

گزشتہ 30 برس سے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جارحیت کے نتیجے میں 50 ہزار سے کشمیری شہید ہوچکے ہیں۔

5 اگست کو بھارت نے ایک صدارتی فرمان کے ذریعے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق آرٹیکل 370 کا خاتمہ کردیا تھا اور وادی کو 2 حصوں میں تقسیم کرنے کا اعلان کیا تھا۔

اس کے ساتھ ساتھ بھارت نے وادی میں کرفیو نافذ کرتے ہوئے مقبوضہ علاقے میں موبائل، انٹرنیٹ سمیت تمام مواصلاتی نظام معطل کردیا تھا۔

تبصرے (1) بند ہیں

Gulistan Aug 19, 2019 05:43pm
آپ لوگ سب لوگوں سہ رابط گرین ضورئ ھئ بھت ضورئ ھئ آمرگہ