مقبوضہ کشمیر میں 4 ہزار شہریوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے، بھارتی مجسٹریٹ

18 اگست 2019
سری نگر میں اتوار کے روز بھی سڑکیں ویران رہیں اور محض چند لوگ اپنے گھروں سے نکلے—فوٹو: اے پی
سری نگر میں اتوار کے روز بھی سڑکیں ویران رہیں اور محض چند لوگ اپنے گھروں سے نکلے—فوٹو: اے پی

مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ وادی کی خصوصی اہمیت ختم کرنے کے بعد سے اب تک تقریباً 4 ہزار افراد کو حراست میں لیا جاچکا ہے۔

مقامی مجسٹریٹ نے خبررساں ایجنسی اے ایف پی اور اے پی کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے) کے تحت کم از کم 4 ہزار شہریوں کو گرفتار کیا گیا۔

واضح رہے کہ پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت انتظامیہ کسی بھی شخص بغیر کسی جرم یا ٹرائل کے دو سال کی مدت تک جیل میں رکھ سکتی ہے۔

مقبوضہ کشمیر کے مجسٹریٹ نے انکشاف کیا کہ ’وادی کی جیلوں جگہ کا فقدان ہونے کی وجہ سے متعدد زیر حراست شہریوں کو مقبوضہ کشمیر سے باہر لے جا کر قید کیا گیا۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ’فراہم کردہ سیٹلائٹ فون کے ذریعے ہمالیہ خطے میں اپنے دوستوں سے رابطہ کرکے اعداد وشمار جمع کررہا ہوں‘۔

واضح رہے کہ آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد نئی دہلی نے خطے میں مواصلات کے سارے نظام معطل کرکے کرفیو نافذ کردیا تھا۔

دوسری جانب بھارتی حکومت نے دعویٰ کیا کہ مقبوضہ کشمیر میں پابندیوں میں کمی لائی جاری ہے اور فون لائنزبتدریج بحال کی جارہی ہیں تاہم وادی میں تاحال پابندی کا سلسلہ جاری ہے۔

مزیدپڑھیں: 'مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت مسلم اکثریتی ریاست ہونے پر ختم کی گئی'

سری نگر میں اتوار کے روز بھی سڑکیں ویران رہیں اور محض چند لوگ اپنے گھروں سے نکلے۔

بھارت کے سابق یونین وزیر اور کانگریس کے رہنما پی چدم برم نے وزیراعظم نریندر مودی کے اقدام پر سخت تنقید کرتےہوئے کہا تھا کہ مقبوضہ جموں کشمیر کے مسلم اکثریتی ریاست ہونے کی وجہ سے آرٹیکل 370 کو ختم کیا گیا۔

انہوں نے کہا تھا کہ ملک کی 70 سالہ تاریخ میں ایسی مثال پہلے کبھی نہیں ملتی کہ ایک ریاست کا درجہ یونین ٹیرٹری میں بدل دیا ہو۔

واضح رہے کہ مقبوضہ کشمیر کی عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے 15 اگست 2019 کو بھارت کے یوم آزادی پاکستان سمیت دنیا بھر میں یوم سیاہ کے طور پر منایا گیا تھا۔

مزیدپڑھیں: مقبوضہ کشمیر میں 9 روز سے کرفیو، عوام غذا اور ادویات سے محروم

خیال رہے کہ کشمیر میں دہائیوں سے بھارت کے خلاف بغاوت کی تحریک جاری ہے جس میں تقریباً ایک لاکھ سے زائد کشمیری فوج ہلاک ہوچکے ہیں۔

بھارت اور پاکستان دونوں ممالک کشمیر کا دعویٰ کرتے ہیں جس کے لیے ان کے درمیان 2 جنگیں بھی لڑی جاچکی ہیں۔

آرٹیکل 370 کیا ہے

واضح رہے کہ آرٹیکل 370 کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو خصوصی اور منفرد مقام حاصل ہے اور آرٹیکل ریاست کو آئین بنانے اور اسے برقرار رکھنے کی آزادی دیتا ہے۔

اس خصوصی دفعہ کے تحت دفاعی، مالیات، خارجہ امور وغیرہ کو چھوڑ کر کسی اور معاملے میں وفاقی حکومت، مرکزی پارلیمان اور ریاستی حکومت کی توثیق و منظوری کے بغیر بھارتی قوانین کا نفاذ ریاست جموں و کشمیر میں نہیں کر سکتی۔

بھارتی آئین کے آرٹیکل 360 کے تحت وفاقی حکومت کسی بھی ریاست یا پورے ملک میں مالیاتی ایمرجنسی نافذ کر سکتی ہے، تاہم آرٹیکل 370 کے تحت بھارتی حکومت کو جموں و کشمیر میں اس اقدام کی اجازت نہیں تھی۔

مقبوضہ کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والا آرٹیکل 35 'اے' اسی آرٹیکل کا حصہ ہے جو ریاست کی قانون ساز اسمبلی کو ریاست کے مستقل شہریوں کے خصوصی حقوق اور استحقاق کی تعریف کے اختیارات دیتا ہے۔

مزیدپڑھیں: مقبوضہ کشمیر میں کرفیو کے باوجود بھارت مخالف مظاہرے

1954 کے صدارتی حکم نامے کے تحت آرٹیکل 35 'اے' آئین میں شامل کیا گیا جو مقبوضہ کشمیر کے شہریوں کو خصوصی حقوق اور استحقاق فراہم کرتا ہے۔

اس آرٹیکل کے مطابق صرف مقبوضہ کشمیر میں پیدا ہونے والا شخص ہی وہاں کا شہری ہو سکتا ہے۔

آرٹیکل 35 'اے' کے تحت مقبوضہ وادی کے باہر کے کسی شہری سے شادی کرنے والی خواتین جائیداد کے حقوق سے محروم رہتی ہیں، جبکہ آئین کے تحت بھارت کی کسی اور ریاست کا شہری مقبوضہ کشمیر میں جائیداد خریدنے اور مستقل رہائش اختیار کرنے کا حق نہیں رکھتا۔

آئین کے آرٹیکل 35 'اے' کے تحت مقبوضہ کشمیر کی حکومت کسی اور ریاست کے شہری کو اپنی ریاست میں ملازمت بھی نہیں دے سکتی۔

تبصرے (0) بند ہیں