کشمیری پرچم اتارنے پر ناگالینڈ کا اپنی پہچان کیلئے جھنڈے، آئین کا مطالبہ

اپ ڈیٹ 26 اگست 2019
بھارتی فوجی پہاڑ سے مقبوضہ وادی کی نگرانی کر رہا ہے — فوٹو: اے ایف پی
بھارتی فوجی پہاڑ سے مقبوضہ وادی کی نگرانی کر رہا ہے — فوٹو: اے ایف پی

نئی دہلی: مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کی نشاندہی کرنے والے پرچم کو سری نگر کے سیکریٹریٹ بلڈنگ سے اتارنے کے بعد نئی دہلی سے مذاکرات کرنے والے ناگا لینڈ علیحدگی پسندوں نے اپنے جھنڈے اور آئین کا مطالبہ کردیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ میں بھارتی اخبار دی ہندو کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ 'بھارت کی جانب سے جموں اور کشمیر کی خصوصی حیثیت، جس کے ذریعے انہیں اپنا جھنڈا اور آئین رکھنے کی اجازت تھی، کے خاتمے کے بعد ہی ناگا لینڈ سے تعلق رکھنے والے شدت پسندوں نے پہلی مرتبہ اپنے علیحدہ جھنڈے اور آئین کو 22 سالہ ناگا امن مرحلے کے لیے 'باعزت حل' کے لیے ضروری قرار دے دیا۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ نیشنلسٹ سوشلسٹ کونسل آف ناگالینڈ (این ایس سی این-آئی ایم) نے وزیر اعظم نریندر مودی کو خط لکھ کر کہا کہ ناگا کے سیاسی مسئلے کا کوئی بھی حل اس کے مرکزی مسائل کے بغیر حل نہیں ہوسکتا جس میں ناگا کا جھنڈا اور آئین شامل ہے'۔

اس خط کے بعد انٹیلی جنس بیورو کے سابق آفیسر آر این روی نے ایک بیان میں کہا کہ نریندر مودی نے ان کی ناگا لینڈ کے گورنر کی تعیناتی سے قبل امن مرحلے کو 3 ماہ میں مکمل کرنے کی ضرورت پر زور دیا تھا۔

مزید پڑھیں: کشمیریوں پر ہونے والے مظالم کا عملی تجربہ ہوا، راہول گاندھی

انہوں نے ناگالینڈ کے دارالحکومت کوہیما میں 17 اگست کو عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ آرٹیکل 370 کے خاتمے سے امن مرحلہ اور ریاست خطرے میں آگیا ہے۔

این ایس سی این-آئی ایم کے تشہیری ونگ کا کہنا تھا کہ پہلے امن مرحلے کے حتمی حل کے لیے امیدیں بہت تھیں، اس میں اضافہ اس وقت ہوا تھا جب تنظیم نے جولائی 1997 میں جنگ بندی کا اعلان کیا تھا، 3 اگست 2015 کو جب فریم ورک معاہدے پر دستخط ہوئے تو اس سے آگے کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔

تنظیم کے چیئرمین کیو توکو اور جنرل سیکریٹری تھوئن گالینگ موئیواہ نے نریندر مودی کو لکھے گئے خط میں کہا کہ بھارتی حکومت اہم مسائل پر موقف اپنانے میں تاخیر کر رہی ہے جس سے شکوک و شبہات پیدا ہورہے ہیں کہ سیاسی حل ہوگا یا نہیں۔

تنظیم کا کہنا تھا کہ 'ان اہم مسائل میں ناگا کا اپنا جھنڈا اور آئین شامل ہے جن پر دونوں جانب سے رضامندی کا اظہار کیا جانا باقی ہے اور ان اہم مسائل کے حل کے بغیر کوئی بھی حل باعزت نہیں ہوگا کیونکہ ناگا کا وقار اور شناخت کا اس سے گہرا تعلق ہے'۔

سری نگر میں سول سیکریٹریٹ کی عمارت پر بھارتی ترنگے کے ساتھ لہرانے والے جھنڈے کو 31 اکتوبر کو اتارا جانا تھا جب ریاست کو وفاقی اکائیوں میں تبدیل کیے جانے کا قانون نافذ ہوگا تاہم جموں و کشمیر نے خطے کے علیحدہ جھنڈے کو اتار دیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: ’ریپ‘، ہندوستان میں تیزی سے بڑھتا ہوا جرم: رپورٹ

ذرائع کا کہنا تھا کہ جھنڈوں کو ہفتے کی شام کو ڈھلتے وقت سرنگوں کیا گیا تاہم اتوار کی صبح اسٹاف کی جانب سے صرف بھارتی ترنگا لہرایا گیا۔

سول سیکریٹریٹ پر سیکیورٹی گارڈ نے دی ہندو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ 'کشمیری پرچم کی غیر موجودگی پر لوگ حیران تھے، کئی لوگوں نے گاڑیاں روک کر ویڈیو بنائی اور فوری وہاں سے روانہ ہوگئے'۔

جہانگیر چوک کے نزدیک ایک دکاندار کا کہنا تھا کہ 'جھنڈے کی غیر موجودگی کھلی اشتعال انگیزی ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ '1947 کے بعد سے کئی مقامیوں نے اپنا جانی و مالی نقصان کیا ہے تاکہ جھنڈا بلند رہے تاہم کئی دھوکے کھانے کے بعد جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کیا جانا بھی ہم نے دیکھا جو دل دکھا دینے والا ہے'۔

کانگریس رہنما راہول گاندھی سمیت دیگر اپوزیشن رہنماؤں، جنہیں سری نگر میں داخلے سے روک دیا گیا تھا، نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بیان جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ '20 روز ہوگئے اور جموں و کشمیر کے عوام کی آزادی اور شہری حقوق سلب کیے گئے ہیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'گزشتہ روز جب ہم نے سری نگر کا دورہ کرنے کی کوشش کی تو اپوزیشن رہنماؤں اور پریس کو جموں و کشمیر کے عوام پر ظالمانہ انتظامات اور ان پر ہونے والے مظالم کا عملی تجربہ ہوا'۔

کشمیر کے انتظامی سروسز کے افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ 'ٹی وی پر جھنڈے کی غیر موجودگی کے مناظر دیکھ کر دل بہت دکھا، یہ ہمارا فخر ہوا کرتا تھا'۔

تبصرے (0) بند ہیں