لکھاری لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز (لمز) کے شعبہ برائے ہیومینٹیز، سوشل سائنسز اور لا کے ڈین رہ چکے ہیں۔
لکھاری لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز (لمز) کے شعبہ برائے ہیومینٹیز، سوشل سائنسز اور لا کے ڈین رہ چکے ہیں۔

تعلیم کیا ہے؟ یہ ہم اس وقت تک نہیں سمجھ پائیں گے جب تک علم، ہنر اور سند جیسے اس کے مختلف پہلوؤں کے درمیان فرق کو سمجھ نہیں لیتے۔

یہ پہلو ایک دوسرے سے کس قدر مختلف ہیں اس کو سمجھنے کے لیے ہمیں اس مثال پر غور کرنا پڑے گا۔ میں اپنی گاڑی مرمت کروانے ایک ’چھوٹے‘ کے پاس لے گیا جو پہلے ایک ‘استاد’ کے ہاں شاگرد تھا اور اس نے اسی سے ہی اس کام میں مہارت حاصل کی۔ چھوٹے کی خاصیت یہ ہے کہ وہ جدید شہری طور طریقوں سے بھی بخوبی واقف ہے لیکن اس کے باوجود لوگ اسے تعلیم یافتہ تصور نہیں کرتے۔ آخر کیوں؟

آج ’تعلیم یافتہ‘ شخص ہونے کا تصور ابہام کا شکار بن چکا ہے جبکہ اسے سمجھنے کے طریقے میں بھی کافی تضاد پایا جاتا ہے۔

روایتی خیال کے مطابق ہر وہ شخص پڑھا لکھا ہے جو علم رکھتا ہے اور اس کا علم اس شخص کے ایسے مضامین پر ذہانت بھری گفتگو کا حصہ بنتے وقت ظاہر ہو رہا ہوتا ہے جن کا کسی پروفیشنل مہارت یا پیشے سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اگر کوئی شخص ایسا کرنا چاہتا ہے تو اس کا مطالعہ بہتر ہونا چاہیے اور وہ کم از کم ایک زبان میں روانی رکھتا ہو جس میں وہ اپنے خیالات کو باربط انداز میں الفاظ کی صورت دے کر ان کا اظہار کرسکے۔ اس کے علاوہ تعلیم یافتہ افراد کو مہذب و شائستہ کہا جاتا تھا، یعنی علم کا حصول پورا پورا دھیان رکھتے ہوئے اگائی گئی کھیتی جیسا عمل ہے جس میں کڑی محنت اور نگہداشت کی ضرورت ہوتی ہے۔

چھوٹا انتہائی ہنرمند ہونے کے باوجود بھی محدود علم کی وجہ سے غیر تعلیم یافتہ تصور کیا جاتا ہے۔ یہی وہ نکتہ ہے جہاں معاملہ تھوڑا ٹیڑھا نظر آتا ہے۔

آج کے پاکستان میں چھوٹے کو کئی دیگر افراد کا متبادل تصور کیا جاسکتا ہے۔ چھوٹا گاڑیوں کی مرمت کرنے والا ٹھیک ویسا ہی ایک باہنر مکینک ہے، جیسے انسانی جسم، کمپیوٹر اور کمپنی لیجرز وغیرہ کے دیگر مکینکس پائے جاتے ہیں۔

مطالعہ پاکستان اور اسلامیات کے مضامین نے جب سے ان مضامین کی جگہ لی جو سوچنے کی حوصلہ افزائی پیدا کرتے تھے تب سے ہمارے کالجوں نے ایسے لوگ پیدا کرنا شروع کردیے ہیں جو معقول حد تک باصلاحیت تو ہیں مگر روایتی فہم میں کچھ اچھے تعلیم یافتہ نہیں ہیں۔ کئی ڈاکٹرز، انجینئرز، اکاؤنٹنٹ اور فوجی اہلکار اسی کیٹیگری میں شمار ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے معاشرے کو ٹھیس پہنچ سکتی ہے۔

اگر چھوٹے کی بات کی جائے تو یہ اپنے دائرہ کار میں بہت ایماندار ہے۔ اگر اس سے پوچھا جائے کہ دیگر ممالک آگے نکل گئے ہیں، پاکستان کیوں پیچھے رہ گیا؟ تو اس کا عمومی طور پر جواب یہی ہوگا کہ وہ اس سوال کا جواب دینے کی قابلیت نہیں رکھتے۔

اس کے برعکس ڈاکٹروں، انجینئروں، اکاؤنٹنٹ اور فوجی اہلکاروں کے پاس ہمیشہ ہر سوال کا جواب دستیاب ہوتا ہے۔ وہ آپ کو فوراً جواب دیں گے کہ ملک کے پیچھے رہ جانے کی وجہ تعلیم کی کمی، بڑھتی ہوئی آبادی یا کرپشن میں اضافہ یا اچھی قیادت کی کمی یا پھر ایمان سے محرومی ہے۔

اگر انہیں زیادہ بات کرنے پر اکسایا جائے مثلاً یہ کہا جائے کہ اچھی قیادت کی عدم موجودگی کی وجہ کیا ہے تو گفتگو کا آغاز و انجام اللہ کی مرضی پر ہوگا۔ اگر پوچھا جائے کہ بھارت کی آبادی ہم سے 6 گنا زیادہ ہے مگر پھر بھی وہاں حالات ہم سے بہتر کیوں ہیں؟ تو شاید ان کی جانب سے آپ کے علم میں یہ اضافہ کیا جائے کہ بھارتی مختلف ہیں اور بنگلہ دیشی پاکستان کو اس لیے پیچھے چھوڑ رہے ہیں کیونکہ یہ ہمیشہ سے پُر فریب رہے ہیں۔

چھوٹے کو محض اس لیے بھی غیر تعلیم یافتہ تصور کیا جاسکتا ہے کیونکہ اس کے پاس کوئی ڈگری یا ڈپلومہ نہیں ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ہمارے اسکولوں میں جو کچھ پڑھایا جا رہا ہے اسے دیکھیں تو وہ خوش قسمت ہی رہا کہ اسکولی نصاب میں شامل مخصوص نظریات و خیالات کی تعلیم سے بچ گیا۔

پھر اگر اسے اپنی کاریگری کی سند کے حصول پر مجبور کیا جائے تو عین ممکن ہے کہ وہ سند کہیں سے خرید لے گا کیونکہ ڈگری کس قدر قابلِ بھروسہ ہے اس بات کو کوئی بھی سنجیدگی سے نہیں لیتا۔

تاہم اس خطا پر پشیمان کیونکر ہو کہ ایسا کرنے والا وہ اکیلا تو نہیں، ہماری کئی معزز و محترم شخصیات ایسی ہیں جو اپنی ملازمت کے معیار پر پورا اترنے کے لیے جعلی اداروں سے ایڈوانس ڈگریاں خرید چکی ہیں، جبکہ تعلیم کے مانیٹرنگ ادارے ایچ ای سی کے سابق ڈائریکٹر سمیت کچھ ایسے بھی لوگ ہیں جنہوں نے اپنے مقالے کہیں سے چوری کیے ہیں۔ ملک میں تعلیمی بحران کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا چاہیے؟

یہاں میں یہ ہرگز نہیں کہہ رہا کہ حقیقی تعلیم یافتہ بس وہی ہیں جو اچھے یا باخلاق ہوں۔ کوئی فرد اپنی حاصل کردہ تعلیم سے کیسا تعلق رکھنا چاہتا ہے یہ اس کی اپنی مرضی ہے، چاہے اسے اپنی ذاتی زندگی میں شامل رکھے یا پھر مروجہ اقدار کے مطابق ان کا استعمال کرے۔

پڑھے لکھے لوگوں میں جوتے چاٹنے والوں، مافیا کے ساتھ کام کرنے والوں اور جنسی طور پر ہراساں کرنے والوں کی اتنی بڑی تعداد ضرور موجود ہے جو ان میں مذکورہ خاصیتوں سے عاری دکھانے کے لیے کافی ہیں۔ میں نے حال ہی میں ایک ایسی والدہ کے بارے میں سنا جو ایک کورس میں ناکام ہونے والے اپنے بیٹے سے یہ پوچھ رہی تھیں کہ نتیجہ تبدیل کرنے کے لیے کتنی رقم درکار ہوگی۔

مذکورہ تمام باتوں کے باوجود علم و آگاہی اور صاحبِ فکر شہریوں کی اہمیت سے کسی طور پر انکار نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ اب ہم بادشاہوں اور خود سے خود کو نجات دہندہ مقرر کرنے والوں کے زمانے میں نہیں رہتے بلکہ جمہوری نظام میں رہتے ہیں، اور اس میں ہمیں اپنے نمائندگان چننے کے لیے دلائل پر مبنی سوچ بچار کے بعد معقول فیصلے کرنے ہوتے ہیں۔ اگر شہری کھوکھلی بیان بازی اور حقیقت میں فرق کرنا نہ جانتے ہوں تو مستقبل تاریکیوں میں ڈوب جائے گا۔

اقتصادی ترقی کے لیے لیبر فورس کا سوچنے اور علم کو سمجھنے کی صلاحیت کا حامل ہونا نہایت ضروری ہے، تاہم اس ترقی کے لیے یہ صلاحیت ضروری تو ہے لیکن کافی نہیں۔

اگر حکومتی پالیسیوں کے باعث تنزلی آتی ہے تو لیبر فورس خود سے اسے ٹھیک نہیں کرسکتی، بلکہ یہ صرف پالیسی کی تبدیلی کے لیے اپنے ووٹ کا استعمال کرسکتی ہے۔ دوسری طرف اگر اقتصادی پالیسیاں ترقی کی طرف لے جاتی ہیں تو علم و فہم رکھنے والی لیبر فورس اس لیبر فورس کے مقابلے میں مواقع سے زیادہ مؤثر انداز میں فائدے اٹھاسکتی ہے جو فکری و تخلیقی صلاحیت نہیں رکھتے۔

یاد رکھیے کہ صرف ترقی یافتہ معیشت کے تناظر میں ہی حصولِ ہنر کے طور پر تعلیم کا پہلو بامقصد بنتا ہے۔ معیشت کی فطرت کو مخصوص ہنر اور انہیں انجام دینے والے ایسے افراد مطلوب ہوتے ہیں جو زندگی بھر اپنی بھرپور صلاحیتوں کا مظاہرہ کرسکیں۔

بدلے میں لیبر مارکیٹ کے مطالبات تعلیمی اداروں کی جانب سے کروائے جانے والے ٹریننگ پروگرامز کی فراہمی میں رہنمائی کرتے ہیں۔ ٹانگا گاڑی کو گھوڑے کے آگے نہیں لگایا جاسکتا، اس لیے یہ امید کرنا کہ سائنس کے مضمون میں پی ایچ ڈیوں کی بھرمار یا کثیر تعداد میں ڈپلوما کی اسناد کی تقسیم سے ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوں گے، یہ ایسا خیال ہے جسے چھوٹا بھی ایک احمقانہ خیال قرار دیتا ہے۔

اس تناظر میں آپ برطانیہ میں آنے والے صنعتی انقلاب اور امریکا میں آنے والے دی گریٹ ڈپریشن کی 2 متضاد مثالوں کا جائزہ لے سکتے ہیں۔

صنعت کاری کی آمد سے قبل برطانیہ میں غربا کی تعلیم کو تقریباً عالمگیر مخالفت دیکھنے کو ملتی تھی، پھر اسی صنعت کاری کے باعث ایسی ملازمتوں کی بڑھتی طلب پیدا ہوئی، جس میں خواندگی، روزمرہ زندگی میں استعمال ہونے والے اعداد اور ان کے حساب سے وافقیت، حساب کتاب کا ریکارڈ رکھنے کی صلاحیت اور ایسی دیگر صلاحیتوں کی مانگ کی گئی۔

گریٹ ڈپریشن کے دوران ملازمتوں کے مواقع غائب ہوتے رہے اور بہتر سے بہترین تعلیم بھی اس سلسلے کو روک نہیں پائی۔

اس پوری بحث کا حاصل یہی ہونا چاہیے کہ تعلیم بطورِ علم بہتر طرزِ حکمرانی و اقتصادی ترقی کے لیے نہایت اہم ہے، اور اس کی کھیتی ہائی اسکول کے ذریعے کی جانی چاہیے۔

حصولِ ہنر کے تناظر میں تعلیم اگرچہ ضروری تو ہے لیکن اس سے خوبخود ملازمت کے مواقع پیدا نہیں ہوسکیں گے۔ سب سے زیادہ اہم نکتہ یہ ہے کہ ترقی بہتر پالیسیوں کا تقاضا کرتی ہے اور اس کا متبادل حصولِ ہنر نہیں ہوسکتا۔ نہ ہی حکومتوں کو یہ فیصلہ کرنا چاہیے کہ کون سے ہنر کو فروغ ملنا چاہیے بلکہ یہ فیصلہ عام افراد پر چھوڑ دیا جائے کیونکہ یہی عام افراد اقتصادی مواقع پر اپنا ردِعمل دیتے ہیں اور اسناد کی اندھا دھند تقسیم سانحے کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔


یہ مضمون 9 ستمبر 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں