’اگر کبھی آپ نے غور کیا ہو تو مکھیوں میں ایک خاص قسم کی عادت پائی جاتی ہے، کوئی بتا سکتا ہے کہ وہ خاص عادت کیا ہے؟‘

تیسری کلاس میں سائنس کی مس رضوانہ تبسم نے جب یہ سوال کیا تھا، تو 50 بچوں کی کلاس سوچ میں پڑگئی تھی اور پھر اس کا جواب دینے کے لیے صرف ایک ہمارا ہی ہاتھ بلند ہو رہا تھا، لیکن اب مسئلہ یہ تھا کہ پوری کلاس کو یہ بات بتانا بھی تھی، اور میں اس میں بہت تامل تھا۔ چنانچہ ہم نے اپنے پڑوسی ہم جماعت عاطف الرحمٰن کو یہ بات بتائی اور یوں پھر مشترکہ طور پر ہم دونوں نے پوری کلاس کو بتایا کہ مکھی کی خاص عادت یہ ہے کہ وہ ہروقت اپنے ’ہاتھ‘ اور ’پیر‘ کھجاتی رہتی ہے۔

یہ واقعہ ہماری پرائمری اسکول کی ایک یاد بن کر رہ گیا، لیکن ہمیں آج یہ اس سبب یاد آیا ہے کہ گزشتہ دنوں جب کراچی کے منتخب اور غیر منتخب نمائندے نہایت دل جمعی سے ایک دوسرے کی کارکردگی میں ’کیڑے‘ نکال رہے تھے، عین اسی وقت شہرِ قائد پر مکھیوں نے دھاوا بول دیا اور شہر ستم رسیدہ کے باسی ایک اور نئے عذاب میں مبتلا ہوگئے۔

چونکہ ان دنوں اس شہر کے مسائل پر باتیں ہی زیادہ ہو رہی ہیں، سو باتیں کرنے والے بجائے مکھیوں کو ختم کرنے کے، زیادہ تر مکھیاں ایک دوسرے کی پارٹی ہمارا مطلب ہے ’پیالی‘ میں ڈالنے کی ہی کوششوں میں مگن رہے۔

اس ’مکھی سیاست‘ میں دلچسپ صورت حال تب پیدا ہوئی جب سابق ناظم کراچی مصطفیٰ کمال نے موجودہ بلدیاتی حکومت کو بااختیار بنانے کے مطالبے کو ترک کرکے یہ نعرہ لگا دیا کہ موجودہ میئر کراچی وسیم اختر کا اپنے اختیارات کے لیے رونا بجا نہیں، یہی اختیار اگر انہیں مل جائیں تو وہ 90 دن میں صفایا، مطلب کراچی کے کچرے کی صفائی کر ڈالیں گے۔ بس پھر کیا تھا میئر وسیم اختر نے انہیں باقاعدہ یہ ذمہ سونپنے کا اعلان کر ڈالا۔

پہلے تو یوں لگا کہ ایسا کرکے مصطفیٰ کمال کی جان غضب میں ڈال دی، مگر ابھی اس واقعے کی گرد بھی نہ بیٹھی تھی کہ چے مگوئیاں شروع ہوگئیں کہ ’مصطفیٰ کمال پارٹی‘ نے اگر ذرا سا بھی ’کچھ‘ کرکے دکھا دیا، تو ’وسیم اختر اینڈ کمپنی‘ کے پاس اگلے بلدیاتی چناؤ میں شاید مکھیاں مارنا ہی باقی رہ جائے۔

ایک نے کہا کمال کے پاس گنوانے کو تو کچھ ہے نہیں تو یہ ان کے لیے ایک امید کی بڑی کرن ہے۔ اگر وہ ’مکھی پر مکھی مارنے‘ میں بھی کامیاب ہوگئے تو یہ ان کی ’فتح‘ شمار ہوگی۔ سب سے بڑھ کر ’خدشہ‘ تھا کہ اگر انہیں ’خلائی مخلوق‘ کی مشینری مل گئی، تو بس پھر سوچیے کہ کیا ہوگا؟

دوسری طرف وسیم اختر کو شاید اپنی تنظیم کی طرف سے بھی ’آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے‘ پر خوب آنکھیں دکھائی گئیں۔ ساتھ ہی کمال نے اسی رات ڈھائی بجے ایک عدد جارحانہ پریس کانفرنس کر ڈالی، جسے جواز بناکر اگلے ہی دن وسیم اختر نے انہیں ’معطل‘ کردیا۔

دونوں ہی اصحاب کا کمال یہ ہے کہ یہ اپنی ناک پر مکھی نہیں بیٹھنے دیتے، اب وسیم اختر نے انہیں ’دودھ میں سے مکھی کی طرح‘ نکال دیا (یہ الگ بات ہے کہ انہیں ڈالا بھی انہوں نے خود ہی تھا)۔ لیکن جس طرح کراچی کے مسئلے کو بیان بازیوں میں کسی مکھی کی طرح اڑانے کی کوشش کی گئی، اس سے کراچی کے شہریوں میں شدید ردِعمل سامنے آیا، تاہم ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ کراچی میں کچرے سے ایک مکھیوں کو زندگی ملی تو دوسری کہیں پس منظر میں چلی جانے والی ’پی ایس پی‘ کو جلا ملی۔

ویسے تو مکھی کا مکھن سے تعلق صرف ایک لفظ کے فرق کا ہی ہے، تاہم مکھن سے بال اور دودھ میں سے مکھی نکالنے کا محاورہ قریب قریب ایک سے ہی معنی دیتا ہے۔ خدا جانے اردو میں کنجوس شخص کے لیے ’مکھی چُوس‘ جیسی کراہیت آمیز کہاوت کیونکر وضع ہوئی؟

عام دنوں میں مکھیاں بہت زیادہ چاق و چوبند دکھائی دیتی ہیں، یہاں ذرا سا اشارہ پایا اور وہاں اُڑن چُھو لیکن اگر یہ ضد پر آجائیں تو پھر آپ اپنے چہرے سے اسے لاکھ اڑاتے رہ جائیں، یہ بار بار وہیں بیٹھ کر آپ کو زچ کردیں گی۔ کبھی ان مکھیوں کی پرواز کافی دھیمی سی بھی ہونے لگتی ہے، بہ الفاظ دیگر یہ اڑتی کم اور ٹہلتی زیادہ ہیں، اس صورت حال کو ’مکھی بھاری‘ ہونے کا نام دیا جاتا ہے، پرانے لوگ اسے برسات کی آمد کی نشانی قرار دیتے ہیں۔

ویسے تو گندگی کو مکھیوں کی آماج گاہ کہتے ہیں، لیکن پھر یہی مکھیاں ہمارے کھانے پینے کی چیزوں پر بھی آکر ضرور بھنبھناتی ہیں اور موقع تاک کے براجمان بھی ہوجاتی ہیں، حتیٰ کہ کبھی تو گرم گرم چائے کی پیالی تک میں گر کر اپنی جان دے دیتی ہیں۔ ایک روایت کے مطابق مکھی کے ایک پَر میں بیماری، جبکہ دوسرے پَر میں شفا کہی جاتی ہے۔

بچوں کی کہانیوں میں اکثر جادوگر مکھی بن کر دیو کی قید سے فرار ہوجاتے تھے۔ علامہ اقبال نے بھی بچوں کی ایک نظم ’ایک مکڑا اور مکھی‘ لکھی، جبکہ عام ادب میں بھی مکھی کا استعارہ برتا گیا ہے۔ احمد ہمیش کے افسانوں کے تو پورے مجموعے کا نام ہی ’مکھی‘ ہے! نوجوانوں کے مختصر مونچھوں کے رواج کو بھی کسی دل جلے نے ناک کے نیچے دو مکھیوں کے بیٹھنے سے تشبیہہ دی۔

معاملہ اگر شہد کی مکھی کا ہو تو صورت حال بالکل الٹ ہے، کیونکہ عام مکھیاں بیماریوں کا باعث ہیں تو شہد کی مکھیاں منفعت بخش قرار پاتی ہیں۔ اس لیے ڈنک مارنے کی صلاحیت کے باوجود شہد کی مکھیاں پالنے کی باقاعدہ ایک صنعت ہے۔

لیکن کراچی میں تو ان دنوں ان مضر مکھیوں کی بہتات ہے اور لگ ایسا رہا ہے کہ یہ اپنی موت مریں تو مریں ورنہ ہماری وفاقی، صوبائی، ضلعی اور بلدیاتی، کسی بھی قسم کے ’مُکھی‘ کا کراچی کی یہ مکھیاں ختم کرنے کا کوئی سنجیدہ ارادہ دکھائی نہیں دے رہا۔

تبصرے (0) بند ہیں