تیونس میں دوسرے آزادانہ صدارتی انتخابات

اپ ڈیٹ 16 ستمبر 2019
انتخابات جولائی میں تیونس کے 92 سالہ صدر محمد الباجی قائد السبسی کے انتقال کے بعد ہوئے —تصویر: اے ایف پی
انتخابات جولائی میں تیونس کے 92 سالہ صدر محمد الباجی قائد السبسی کے انتقال کے بعد ہوئے —تصویر: اے ایف پی

تیونس: 2011 کی عرب بہار (اسپرنگ) کے بعد تیونس میں ہونے والے دوسرے صدارتی انتخابات کے سلسلے میں تفرقہ انگیز مہم کے بعد بڑی تعداد میں عوام اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے کے لیے گھروں سے نکلے۔

انتخابات میں حصہ لینے والے نمایاں امیدواروں میں میڈیا سے تعلق رکھنے والے نبیل کروئی (جو منی لانڈرنگ کی تحقیقات کے سلسلے میں جیل میں ہیں)، عبدالفتح مورو (پہلی دفعہ حصہ لینے والی اسلام پسند جماعت کے رہنما)، اور تیونس کے وزیراعظم یوسف شاہد شامل ہیں۔

ووٹ ڈالنے کے لیے تیونس بھر میں بنائے گئے تقریباً 13 ہزار پولنگ بوتھس کو صبح 8 بجے کھول دیا گیا اس موقع پر ووٹ کاسٹ کرنے کے لیے آئے ہوئے یوسف شاہد کا کہنا تھا کہ 'انہیں اس بہترین موقع پر فخر ہے'۔

یہ بھی پڑھیں: تیونس کے صدر محمد الباجی قائد السبسی انتقال کرگئے

تیونس کے وزیراعظم کا مزید کہنا تھا کہ دنیا دیکھ رہی ہے، آج رات یا کل تک تیونس بہتر ہاتھوں میں ہوگا۔

خیال رہے کہ تیونس میں گرتی ہوئی معیشت اور مہنگائی میں اضافے ک باعث وزیراعظم کی مقبولیت میں خاصی کمی آئی ہے۔

ووٹنگ کے ابتدائی اوقات میں جب صحافیوں نے پولنگ اسٹیشنز کا دورہ کیا تو وہاں بڑی عمر کے افراد کی اچھی خاصی تعداد موجود تھی تاہم جوانوں کی تعداد کم تھی۔

اس موقع پر ووٹ ڈالنے کے لیے آئے ہوئے ایک 60 سالہ شخص کا کہنا تھا کہ 'قومی جشن میں حصہ لینے اور جمہوریت کی فتح کے موقع پر نوجوان کہاں ہیں؟ یہ ان کا مستقبل ہے'۔

مزید پڑھیں: تیونس کی رقاصہ کا صدارتی انتخابات لڑنے کا اعلان

تاہم تیونس کے الیکشن کمیشن کے مطابق دوپہر ایک بجے ووٹنگ ٹرن آؤٹ 16.3 تک پہنچ گیا تھا۔

خیال رہے کہ ان انتخابات کے سلسلے میں انتہائی زبردست مہم چلائی تھیں جس میں سیاسی اختلافات کے بجائے شخصیات کے درمیان چپقلش دیکھنے میں آئی۔

حالیہ انتخابات جولائی میں تیونس کے 92 سالہ صدر محمد الباجی قائد السبسی کے انتقال کے بعد ہوئے، جن کی بیوہ بھی گزشتہ روز اتوار کی صبح چل بسیں تھیں۔

یاد رہے کہ محمد الباجی قائد السبسی کو 2011 میں ہونے والی بغاوت کے بعد منتخب کیا گیا تھا جس کے نتیجے میں سابق آمر زین العابدین بن علی کو اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: تیونس میں 58 سال بعد جمہوری صدر منتخب

خیال رہے کہ انتخابات کے پیشِ نظر جولائی سے عوامی رائے عامہ کی اشاعت پر پابندی ہے لیکن ایک چیز بڑی واضح سامنے آئی کہ بہت سے ووٹرز بدلتے ہوئے سیاسی منظر نامے سے ناواقفیت کی بنا پر ووٹ دینے کے حوالے سے تذبذب میں نظر آئے۔

تاہم کچھ پُرامید افراد نے ذاتی رنجشوں کی وجہ سے بدنام سیاسی اشرافیہ سے خود کو الگ رکھتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ مخالف نظریے کو ختم کرنے کی کوشش کی۔


یہ خبر 16 ستمبر 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں