اسلام آباد میں 13 سالہ بچی لاپتہ، اہلخانہ کا پولیس کی 'کاہلی' کے خلاف احتجاج

اپ ڈیٹ 17 ستمبر 2019
لاپتہ ہونے والی 13 سالہ بچی کے اہلخانہ نے اس کی تلاش کے لیے گھر گھر جانا شروع کردیا — فائل فوٹو/اے پی
لاپتہ ہونے والی 13 سالہ بچی کے اہلخانہ نے اس کی تلاش کے لیے گھر گھر جانا شروع کردیا — فائل فوٹو/اے پی

اسلام آباد میں لاپتہ ہونے والی 13 سالہ بچی کے اہلخانہ نے اس کی تلاش کے لیے گھر گھر رابطوں کا آغاز کردیا۔

پیر کے روز رامنا سیکٹر کی مساجد سے یہ اعلانات کیے گئے تھے کہ 13 سالہ بچی سیکٹر جی-8/1 میں اپنے گھر کی جانب پیدل جاتے ہوئے لاپتہ ہوگئی ہے۔

مقامی رہائشیوں نے گمشدگی کا معلوم ہوتے ہی اہلخانہ کی مدد کے لیے اس کی تصاویر اور تفصیلات سوشل میڈیا پر جاری کی تھیں۔

لڑکی کے بھائی اور چچا نے ڈان سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وہ گزشتہ رات ساڑھے 7 بجے سڑک پر چہل قدمی کے لیے نکلی تھی لیکن اس کے بعد وہ واپس نہیں آئی۔

مزید پڑھیں: شانگلہ میں 10 سالہ بچی کا ریپ، '2 ملزمان' گرفتار

بھائی کا کہنا تھا کہ دیگر گھروں پر لگے سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیج کا معائنہ کیا گیا تاہم اس میں کچھ نہیں ملا جبکہ اسٹریٹ لائٹس دو روز سے کام نہیں کر رہی تھیں اور انہیں آج ٹھیک کیا گیا۔

بچی کے چچا کا کہنا تھا کہ وہ اپنے والد کا موبائل فون استعمال کرتی تھی اور اس کا فیس بک اکاؤنٹ بھی استعمال کرتی تھی، گزشتہ رات اہلخانہ کو معلوم ہوا کہ کسی اور جگہ سے اس کا فیس بک اکاؤنٹ لاگ ان کیا گیا ہے اور اس کے تمام میسجز ہٹا دیے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ بچی کا فیس بک اکاؤنٹ بھی ہٹانے کی کوشش کی گئی تھی تاہم وہ کامیاب نہیں ہوسکا۔

انہوں نے بتایا کہ پولیس نے چند افراد کو گرفتار کیا ہے کہ جس میں بچی کے اسکول کے چند ساتھی طالب علم بھی شامل ہیں۔

بچی کے بھائی کا کہنا تھا کہ ان کے اہلخانہ نے پولیس سے رابطہ قائم کیا اور 'کراچی کمپنی تھانے' میں درخواست دائر کی جس کے بعد رات 10 بجے نامعلوم افراد کے خلاف اغوا کا مقدمہ درج ہوا۔

ان کا کہنا تھا کہ 'رات ایک بجے پولیس حکام نے گھر کا دورہ کیا، معلومات اکٹھا کیں اور کہا کہ وہ صبح 9 بجے کیس پر کام کا آغاز کریں گے'۔

انہوں نے مزید کہا کہ 'پولیس نے یقین دہانی کرائی کہ وہ 9 بجے دوبارہ آئیں گے لیکن وہ ایک بجے تک نہیں آئے'۔

یہ بھی پڑھیں: حیدر آباد: لاپتہ 10 سالہ بچی کی تشدد زدہ لاش برآمد،لواحقین کا احتجاج

ان کا کہنا تھا کہ 'پولیس نے 3 مرتبہ گھر کا دورہ کیا لیکن نیشنل پریس کلب کے باہر احتجاج کرنے تک تحقیقات کا آغاز نہیں کیا تھا، ہم نے پولیس کے نامناسب رویے کو دیکھتے ہوئے احتجاج کرنے کا ارادہ کیا تھا'۔

بچی کے بھائی اور چچا کا کہنا تھا کہ وہ بچی کے تحفظ اور فوری بازیابی کے لیے حکومت کی توجہ اس کیس کی جانب دلوانا چاہتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 'احتجاج شروع ہوتے ہی پولیس کے سینئر افسر پریس کلب پہنچے اور ہم سے احتجاج کی کال واپس لینے کا کہا'۔

انہوں نے کہا کہ 'ہم نے بچی کو بازیاب کرانے کے لیے کارروائی کا آغاز کرنے میں پولیس کی روایتی سستی دیکھی ہے، یہ معاملہ سنگین ہے مگر پولیس کو کارروائی کے لیے 18 گھنٹے لگے ہیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ہمیں یہ بتایا تو گیا کہ ہمیں احتجاج کا حق ہے مگر احتجاج کی کال واپس لینے پر زور ڈالا گیا اور کہا گیا کہ ہمارا ساتھ دیں تاکہ ہم تحقیقات کا آغاز کرسکیں اور پھر ہمیں کراچی کمپنی تھانے لے جایا گیا'۔

معاملے پر انسپکٹر جنرل آف پولیس محمد ذوالفقار خان اور ڈپٹی انسپیکٹر جنرل پولیس (آپریشنز) وقار الدین سید کا موقف لینے کے لیے رابطہ قائم نہیں ہوسکا۔

تبصرے (0) بند ہیں